وسیم اکرم کے کھیل اور شخصیت کے کچھ پہلو
از، نصیر احمد
وسیم اکرم کی باؤلنگ دیکھنا تو کرکٹ کے شائقین کے لیے بس اک فردوس نگاہ تھا۔ ایک سادہ سے باؤلنگ ایکشن سے باؤلنگ کراتے وسیم اکرم بلے بازوں کی کریز پر زندگی پیچیدہ اور دشوار کر دیتے تھے۔ پہلے تو بیچاروں کو ان کے کمالِ فن کی تفہیم ہی نہ ہوتی تھی اور کبھی کچھ پلے پڑ جائے تب بھی وسیم اکرم کی گیندیں کھیلنے کا ہنرنہیں سیکھ پاتے تھے۔
بائیں ہاتھ سےباؤلنگ کرانے والے سے اس باؤلر نے اپنی ہی طرز ایجاد کی تھی، جس کا انکساری کے باعث اتنا کریڈٹ بھی نہیں لیا۔ ہمیشہ عمران خان اور جاوید میانداد کے مشکور ہی رہے کہ سب ان پیرانِ دانا نے ہی سکھایا، بس جوان سعادت مند بنے خوش وخرم ہی رہے۔ سوچیے تو بڑی بات ہے، ورنہ تو تھوڑی بہت کسی شے کی تفہیم ہو جائے تو انسانیت ہی ڈگمگا سی جاتی ہے۔
لیکن جب بادشاہ رچرڈز جیسے بلے باز بھی کہنے لگیں کہ وسیم اکرم کی باؤلنگ کی وجہ سے نیند کھوئی، چین کھویا اور قرار گنوایا تو ان کی فطانت و مہارت کے لیے کچھ اتنا زیادہ کہنا نہیں پڑتا۔
سب سے زیادہ شاندار فاسٹ باؤلر تو شاید وسیم اکرم کو وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے بھی ایسے ایسے شاندار باؤلر پیدا کیے ہیں کہ مقابلہ سخت ہو جاتا ہے لیکن بہرحال وسیم اکرم دنیا کے چند بہترین باؤلروں میں سے ایک ہیں۔ دنیا کے شاندار فاسٹ باؤلروں کی جیسی بھی فہرست بنائیں وسیم اکرم کا نام اس فہرست میں بہرحال موجود ہو گا۔
کچھ لوگ ان کا ایک اور بائیں سے گیند کرانے والے بولر ایلن ڈیوڈ سن سے موازنہ کرتے ہیں مگر دونوں کے عہد کی کرکٹ اتنی زیادہ مختلف ہے کہ موازنہ زیادتی سی لگتا ہے۔ وسیم اکرم کے زمانے تک کرکٹ ایک باقاعدہ پیشہ بن چکی تھی، جبکہ ایلن کے زمانے میں ابھی تک کرکٹ تفریح ہی تھی۔
بہرحال، وسیم اکرم اپنے فن کے کے ایک شاندار ماہر تھے، سلطان کہیں، پادشاہ کہیں یا شہنشاہ کہیں، سب ہی زیبا ہے اور ان پر جچتا بھی ہے۔ اور جب گیند الٹی گھومنا شروع ہوتی تھی تو ایک طرح سے وسیم اکرم کی خاقانی کا آغاز ہو جاتا تھا اور بلے باز عشاق کی مانند ہو جاتے تھے پہلے ہوش گنواتے تھے، پھر مان اور اس کے بعد زندگی بھی جسے کرکٹ کی اصطلاح میں وکٹ کہتے ہیں۔ ہمارا جی تو چاہتا ہے کہ وسیم اکرم کو خاقانی سے بھی کوئی بلند مرتبہ دے دیں مگر اچھا ہے کہ ٹھہر جائیں کہ ہمارے ہاں خدائے سخن ہی کا رواج ہے۔
برائن لارا ان کے عہد کے شاندار بیٹسمین تھے کہ ریکارڈز توڑنا اور ریکارڈ بنانا ان کے لیے سہل تھا مگر وسیم اکرم کے مقابلے میں انھیں بے دست و پا ہی دیکھا۔ اسی طرح ٹنڈلکر کا بھی بہت شہرہ تھا لیکن زیادہ تر وسیم اکرم کے سامنے مجبور ہی دکھائی دیے۔ وسیم کے آخری میچ میں انھوں نے وسیم اکرم کے خلاف کافی رنز بنائے مگر جاتے ہوئے کی ملامت آسان سا کام ہے۔ وسیم بزرگ ہو چکے تھے اور وقت ان کے ساتھ نہیں تھا۔
یہ تو بڑے بڑے بلے بازوں کا حال تھا اور جو اتنے بڑے بلے باز نہیں تھے، وہ تو بس کبھی کبھی لگتا تھا کہ بس وکٹ گنوانے کا فرض نبھانے آتے ہیں۔ اب یاد نہیں لیکن شاید وسیم اکرم کی ٹیسٹ کرکٹ دو تین ہیٹ ٹرک بھی ہیں۔
وسیم کی گیند دونوں طرف گھومتی تھی لیکن آخری لمحے تک اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کس طرف گھومے گی۔ اور ہر دفعہ ایک نئی گیند کرانے میں انھیں کچھ ایسا ملکہ تھا کہ بلے باز اندازوں اور قیافوں کی بھول بھلیوں بھٹکتے رہتے تھے اور ان کی کلی کھڑک جاتی تھی۔
وسیم اکرم بلے باز بھی اچھے تھے۔ ان سے زیادہ آگاہ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی اس صلاحیت پر کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ انھوں نے اپنی بولنگ پر بھی ویسی توجہ نہیں دی، جیسی انھیں دینی چاہیے تھی۔ کبھی کبھی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا اتنا وفور ہو جاتا ہے کہ سمیٹے نہیں سمٹتیں۔ وسیم اکرم کے ساتھ بھی شاید کچھ ایسا ہی معاملہ تھا لیکن جو وہ سمیٹ پائے، اس جیسا بھی کوئی سامنے نہیں لا پایا۔
وسیم اکرم کی بات یہیں ختم کر دیں لیکن کچھ تاریک گوشے بھی ہیں۔ باقی سب کچھ معاف کیا جا سکتا ہے مگر ان پر میچ بیچنے کے الزامات بھی تھے۔ نہ صرف الزامات بلکہ ساتھ کھیلنے والوں کے حلف نامے بھی جو انھوں نے وسیم اکرم کے میچ فروشی میں ملوث ہونے کے بارے میں دیے۔ اور عطا الرحمان کے حلف نامے کی جن مشکوک حالات میں شکست و ریخت ہوئی، وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس پر تو ایک آسٹریلوی سپورٹس رائٹر نے دو ایک سال پہلے واویلا بھی کیا تھا کہ قیوم کمیشن کے جسٹس قیوم وسیم اکرم کے لیے اپنی ہزار ہمدردی کے باوجود بھی ان کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بارے میں مشکوک رہے، انھیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بھی اس بات کی ہدایت جاری کی کہ وسیم اکرم کو کپتانی جیسے ذمہ دار عہدے پر نہ متعین کیا جائے۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے لوگ جیسے عبدالقادر بھی یہ الزامات دہراتے رہے۔
وسیم اکرم کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بارے میں بہت سارے سوالات موجود ہیں اور ان کا جواب بھی ضروری ہے۔
ان کے بارے میں ابھی تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے ملک میں عام رواج ہے کہ کسی کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو پاتی جبکہ ہر کسی کو یقین ہوتا ہے کہ یہ لوگ بد عنوان ہیں۔ مگر عوامی یقین عدالتی پیچیدگیوں کی تاب نہیں لا سکتا۔
نواز شریف، آصف زرداری اور پرویز مشرف کی بدعنوانی کو عوامی گفتگو میں ایک عالمی حقیقت کا سا درجہ حاصل ہے لیکن عدالتوں میں مقدمے فیصل نہیں ہوتے اور اگر کبھی ہو بھی جائیں تو دلیل اور ثبوت کا معیار اتنا کمزور ہوتا ہے کہ بد عنوانی مظلومی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔
اب کیا کہیں وسیم اکرم معاشرے میں موجود بدعنوانی کے خلاف عدالتی ثبوت مٹانے کے نظام سے فیض یاب ہوئے ہیں کہ جھوٹے الزامات کے ستم رسیدہ ہیں۔ اس بات کا حتمی فیصلہ تو بہتر ادارے اور شاندار محقق ہی کر سکیں گے۔
لیکن ایک اور بات ہے کہ اپنی آئینی ، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں ادا کرتا فرد ہیرو ہوتا ہے اور بے ایمانی اور دغابازی کرتا فرد غنڈہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آئین، قانون اور اخلاقیات کی مسلسل پامالی کی وجہ سے یہ فرق مٹ سا گیا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کون ہیرو ہے اور کون غنڈہ؟ مگر ہر جگہ یہ فرق ابھی نہیں مٹا، اس لیے وسیم اکرم پر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں، ہوتے رہیں گے۔
ہمیں بھی کچھ سعی کرنی چاہیے کہ شہری اور غنڈے کے درمیان کچھ فرق قائم ہو جائے ورنہ زندگی کا کیا فائدہ؟ دولت، شہرت اور طاقت سے لطف اندوز ہونے کا کیا فائدہ کہ آپ اگر اس کے مستحق نہ ہوں؟ اور اس صلاحیت اور مہارت کا بھی کیا فائدہ جو جائز طریقے سے نہ استعمال ہو؟
پتا نہیں وسیم اکرم ہمارے قومی ہیرو ہیں کہ نہیں لیکن ہم نے بطور قوم قانون، شہریت اور اخلاقیات کی بحالی کے لیے بہت کام کرنا ہے یا اس سب کی اتنی ضرورت ہی نہیں رہی۔
مگر ہمارے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت نے اپنے ہی عقیدے کے مطابق کسی دن پیش داور ہونا ہے، خود ہی بتاتے رہتے ہیں کہ اس داوری سے نجات ممکن ہی نہیں۔ یا پیش داور بھی کوئی اچھا سا پنجابی دوہا پڑھ دیں گے کہ اے داور تم عدل نہ کرو فضل کرو۔ یہاں بھی عدل نہ ہو، وہاں بھی عدل نہ ہو۔ اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہو گی؟ لیکن یہا ں عدل کی عدم موجودگی کے نتائج ہیں۔ گھناؤنے، ڈراؤنے، سفاک نتائج۔ اور یہ نتائج ایک ہی سمت اشارہ کرتے ہیں کہ جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات کا جو وعدہ ہے، اسے نبھانے میں ہی عافیت ہے۔
ایک اور کرکٹر بھی تھے، ساؤتھ افریقہ کے ہنسی کرونیے، وہ بھی ایک بہت بڑے قومی ہیرو تھے۔ میچ فکسنگ کا اعتراف روتے دھوتے اعتراف کیا۔ اور پہروں تنہا، غمزدہ اور دل گرفتہ اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے۔ اسی پریشاں حالی میں ایک دن ایک ہوائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہو گئے۔ قوم نے انھیں جو عزت دی اس کے وہ بھی مستحق تھے مگر میچ فکسنگ کے اعتراف کے بعد ان کو اشک باری اور دل گرفتگی ہی جچتی تھی۔