ہم اور ہماری ماحولیات
از، اشرف جاوید ملک
رات نے خاموشی کی انتہا اوڑھ لی ہو گی میں ایک اور آخری تارے کو ٹوٹتا اور زندگی کا جوش ہارتا ہوا دیکھ پاتا مگر میں نے کھمھوں پر لگی چمچماتی روشنیوں کے مراکز کے عین نیچے گھر کی بیٹھک میں سے کتاب کی طرح کھلنے والی کھڑکی کے شیشے کے اندر سے بیرونی طرف جھانکتے ہوئے اپنے حصے کے آسمان کی وسعت کا اندازہ کیا اور نیند نہ آنے کی وجوہات تلاشنے لگا۔
میں نے اپنی گرتی ہوئی صحت ‘سر گرانی اور قریب کی نظر کے کچھ اور کم زور ہو جانے کے وہم کو اپنی سوچ کی خود ساختہ کھردراہٹ سے کھرچ ڈالنے کی ایک نا کام کوشش کرتے ہوئے خود کو سنبھالنا چاہا مگر دوسرے ہی لمحے میں میری توجہ ماحولیاتی تباہی درجۂِ حرارت میں اضافے اور گرین ہاؤس گیسیز کے منفی اخراج کی طرف چلی گئی۔
شاید یہ سر گرانی ہوا اور فضا کے اس بدلاؤ کا نتیجہ ہو جس کے اجزاء و افعال گرمیوں کی چپچپاہٹ بھری دھوپ تیلاہٹ آمیز ہوا اور خارش افزا تیزابیت کو آہستہ آہستہ زیادہ کرتے ہوئے دن کے پہلے پہر کی ہوا کو بھی قدرے گرم اور کم نم دار بنا رہی ہے۔
دو پہر کی دھوپ اور ہوا اوزون کی پرت کے پگھلنے سے بہ راہِ راست زمین پر گرنے والی منفی شعاؤں کی جس مضرِ صحت تکلیف اور بے دردی کو اپنی ذات میں شامل کیے ہوئے ہے۔ اس کی شدت میں شاید اب کبھی کمی نہ آ سکے، کیوں کہ امریکہ، چین اور بھارت نے گرین ہاؤس گیسیز میں کمی کے معاہدہ نامہ پر دست خط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پہلے تو صرف امریکہ انکاری تھا اور اب شاید امریکی ضد کی وجہ سے چین اور بھارت نے بھی دست خط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
حالاں کہ ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (World Resource Institute) کے اعداد و شمار کے مطابق چین سب سے زیادہ 27.51 فی صد، امریکہ 14.75 فی صد، جب کہ بھارت 6.43 فی صد گرین ہاؤس گیسیز خارج کرتا ہے، جس سے دنیا کا درجۂِ حرارت بڑھ رہا ہے۔
اس صورتِ حال کو نم آلودہ خوش بُو دار اور صحت افزاء صبحوں اور دل گداز ہواؤں سے مہکتی ہوئی شاموں میں آخر کیوں نہیں بدلا جا سکتا؟
درجۂِ حرارت میں کمی کیوں نہیں لائی جا سکتی؟ ہوا اور فضاء کو صاف کر کے دہ، کینسر اور دوسری بیماریوں سے پاک کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ آخر کیوں؟
یہ عمل درختوں میں اضافے، جنگلات کے حسن کی بَہ حالی، حیاتیات پرندوں، پودوں، جانوروں، کیڑے مکوڑوں اور آبی حیات میں اضافے اور اس کام کے لیے وافر اور صاف پانی کار خانوں، ایئر کنڈیشنرز، اور گاڑیوں کے دھوئیں سے غیر آلودہ فضا و ہوا کی ضرورت ہی بارشوں کے ایک تازہ نظام تازہ آبی چکر اور ایک تازہ ہوا کی ری سائیکلنگ کی محتاج ہے۔
اگر یہ سب ہو گیا تو زندگی کا عمل بَہ حال ہو جائے گا۔ ایک صحت مند ماحول ہی تو ایک صحت مند زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔
اب جب کہ موسم بدل رہا ہے، سردیوں کی آمد آمد ہے تو راتیں بڑھنے لگی ہیں اور بائیس دسمبر 2019 تک دن چھوٹے ہوں گے مگر گلیشیئرز کے پگھلنے، پہاڑوں کو کھود کر غیر متوازن کیفیت پیدا کرنے، جنگلات کو بے دردی سے کاٹنے اور سڑکوں پر بے دریغانہ معصوم کتوں بلیوں اور گیدڑوں کو مارنے اور ان کی آلائشیں ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے دنیا کا درجۂِ حرارت معمول پر نہیں آ رہا۔
ساتھ ہی ساتھ فضا میں زہریلے اور جان لیوا اجزاء و عناصر کی بھی بھر مار ہوتی جا رہی ہے جو کہ ایک خطر ناک عمل ہے۔ موسموں کے بدلاؤ اور ماحولیاتی تغیر کا عمل بر قرار رکھنے میں بھی فرشتوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
پے در پے انسانی غلطیوں اور قوانینِ فطرت میں بے جا مداخلت کی بیماری نے انسان کو سر زور اور مفاد پرست بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے اجناس فصلوں، سبزے، درختوں، پودوں، جانوروں اور انسانوں کی پیدائش جیسے معاملات میں فرشتوں کو جینیاتی اور حفاظتی حوالے سے زیادہ محنت سے کام کرنا پڑ رہا ہے۔
میرے علاقے کے موسم کو کنٹرول کرنے والے فرشتے بھی موسموں کے بدلاؤ اور زندگی کے بَہ حالی کے سلسلے میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں۔
بہت عرصہ پہلے یہ عمل بہت مضبوط تھا جب آندھیاں اپنے وقت پر آتی تھیں۔ رات اور دن کے اوقات میں سالانہ ایک دو گرد آلود اور ایک دو کالی سیاہ آندھیاں جو ساری فضا اور زمین کو مٹی، گرد اور تیز ہوا سے مانجھتی تھیں، درختوں کے سارے انجر پنجر کو پکڑ پکڑ کر زمین سے لگاتی پٹختی اور پھر دھاڑتے چیختے اور قہقہے لگاتی ہوئی ایک دل ہلا دینے والی چنگھاڑ اور کے ساتھ کچھ درختوں کو جڑوں سمیت نکال باہر کرتی تھیں؛ اور کچھ درختوں کو ربڑ کے کسی گڈے کی طرح سے توڑ موڑ کر سیدھا بھی کر دیتی تھیں۔ درختوں کی کم زور شاخیں اور ٹہنیاں ٹوٹتیں، کم زور پھل یا پھر کم زور درخت دھڑام سے زمین بوس ہو جایا کرتے، ہوا تھمتی اور پھر ایک ہلکی بارش ہوتی اور زندگی کا کارواں پہلے کی طرح چلتا رہتا۔
شاید قدرت کو دھرتی کا نظامِ کار چلانے کے لیے طاقت ور درخت، طاقت ور جانور اور طاقت ور انسانوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ تند و تیز ہوائیں سارے ماحولیاتی منظر کو گدگداتی ہوئی روس، چُولستان، یا پھر راجھستان کی طرف چلی جاتی تھیں۔
فرشتے جو سوتے نہیں، فرشتے جو تھکتے نہیں، فرشتے جنہیں جنسی لذتیت سے کوئی غرض نہیں، فرشتے جنہیں کھانے پینے کی حاجت نہیں، فرشتے فقط رب کی تعریف کرنے اور رب کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہَمہ وقت صف باندھے ہوئے موجود ہیں۔ رب فرشتوں، انسانوں، پرندوں، پودوں جانوروں اور آبی حیات سب کا رب ہے۔ وہ ہمیشہ بھلائی کرنے والا بڑا ہی غفور اور بڑا ہی رحیم و کریم ہے۔
آندھی کے فرشتے دھرتی اور فضا کو مٹی، گَرد اور سیاہ راکھ سے مانجھ کر چلے جاتے تو پھر فرشتوں کی ایک اور فوج آتی، جو روس یا پھر راجھستان سے بادل اٹھاتی، جس سے اس دنیا کے سرد و گرم دریاؤں اور سمندروں کے آبی چکر کے ایک منفرد اور مَن موہنے نظام کا اندازہ ہوتا۔
جب کبھی قدرت ضروری سمجھتی تو بارش برسا دیا کرتی، وہ بارش کہ جس کے انتظار میں زمین کے مسام، مرغابیوں کی کھال اور درختوں کی چھال کب سے ترس رہی ہوتی تھی۔
کالے سرمئی روپہلی گوٹ والے بھورے اور نیلے نیلے بادلوں کو فرشتوں کی فوجیں ہوا کے دوش پر سوار کیے ہوئے ان علاقوں تک لے جاتیں جہاں رب کے حکم سے انہیں برسنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی جولائی کے وسط میں اٹھائے اور لائے جانے والے یہ بادل کراچی اور اوچ شریف کے علاقوں سے ہوتے ہوئے ملتان کی طرف آتے تو میری دادی اماں کہتی اوچ کنوں بدل چڑھئن، میڈے پیراں دی برکت؛مطلب، یہ بادل اوچ شریف سے اٹھے ہیں ان میں اوچ شریف کے صوفیاء کی محبت شامل ہے۔
ہم دیہات کے لڑکے لڑکیاں گھر کے باہر غیر آباد زمینی میدانوں میں پھیل جاتے اور خوب کھیلتے جیسے یہ بادل ہمارے اشارے کے منتظر ہیں اور ابھی ہم ان پر سوار ہو جائیں گے۔ جگر کو سردی بخشتی اور جسم کے بال کھڑے کرتی ہوئی سرد ہوائیں جولائی میں بھی دسمبر کی ہواؤں کا سا مزہ دیتیں۔
گہرے کالے اور سرمئی بادل صالح اور روشن دھوپوں کو خیمہ نما چھاؤں کے ہالوں میں بدل دیتے۔
بادل اور دھوپ کی آنکھ مچولیاں باہر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے بچے اور دور سے آواز دیتا ہوا گودڑی اٹھائے ہوئے کوئی کوئٹہ وال پٹھان؛ خربانی گھنو … اوووو چھوہاررےےےےےے ء… ۔
ہم اسے دامانی کہتے اور اس سے لوہے یا پلاسٹک کے بدلے میں خشک کھجور، چھوہارے، کشمش اور خشک خوبانی لیتے۔ ہم سے بڑی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں کھیتوں میں سے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں اکثر شام ہونے کے قریب تیز آندھی کی تباہ کاریوں کے ڈر سے کچھ لوگ درختوں کے نیچے بندھے ہوئے پالتو جانور کھول کر گھر کی کھلی حویلی میں کھونٹوں پر باندھ چکے ہوتے؛ آندھی آئی، چلی گئی؛ اب عصر کا وقت ہے اور بادلوں کے پرے آسمان سے گزر رہے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ فرشتوں نے پرندوں کی حِسَّیات تک خبرداریہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ آندھی گزر چکی ہے اور درخت اِیستادہ و آسُودہ کھڑے ہیں؛ جب تک کہ بارش شروع ہو، سب پرندے اپنی عارضی، یا مستقل پناہ گاہوں کا رخ کریں گے۔
میر ونر پرندوں کی نگرانی میں پرندوں کے پرے بادلوں کے نیچے اڑانیں بھرتے ہوئے جنوب سے دو بارہ اب شمال کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ پرندوں کا ہجرتی چکر ہے۔ انسانوں کے ہنگامی اور حفاظتی کاموں کی اخیر ہے۔ چھوٹے جانور، گلہریاں، بلیاں اور نیولے درختوں کے جھنڈوں اور کچی زمینوں پر تعمیر کردہ پرانی دیواروں میں موجود غاروں کی طرف جا رہے ہیں۔
کتوں نے چوکی داری کی مشاہداتی جگہ کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
گھر سے باہر گئے ہوئے لوگوں تک ٹیلی پیتھی پیغامات جا رہے کہ جلد گھر پہنچ جاؤ۔ ان کے بڑوں تک بھی اسی نوعیت کے خطرہ جاتی حفاظتی اور تنبیہی پیغامات اسی فریکوئنسی کے ساتھ بھیجے جاتے تھے۔
ہلکی بوندا باندی پہلا خبرداریہ پیغام ہے۔ کچھ دیر تک بارش کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا۔ سب پرندے، جانور اور انسان اپنی پناہ گاہوں تک منتقل ہو چکے ہیں۔ سب دھرتی آسمان اور دھرتی کے خدا سے مخاطب ہیں، سب کائنات کے پُر اسرار روَیّوں اور طے شدہ نظام کے بارے میں سوچ رہے ہیں، کہیں بھی کوئی جی ایٹ ممالک امیر یا امیر ترین ممالک یا پھر امریکہ کا حوالہ موجود نہیں۔
کوئی اعصابی دباؤ نہیں، کوئی ایسی فکر نہیں جو انہیں دنیائے موجود کے خدا کی دھرتی آسمان اور یہاں کی زندگی کی بقاء کے حوالے سے دل گرفتہ، اداس، مایوس، یا بوجھل کر دے؛ سب اپنی طے شدہ زندگی اور طے شدہ موت پر قناعت کیے ہوئے ہیں۔
سب کے اپنے باغات ہیں، سب کے اپنے پرندے ہیں، ہاں باغات پرندوں اور انسانوں کی ملکیت ہیں، اور پرندے جانوروں اور انسانوں کی غذا اور نعمت ہیں۔ اس انسان کی جو سرا سر نا شکرا ہے، جو اپنا سب کچھ رکھتے ہوئے بھی دوسرے کا سب کچھ چھین لینے کے لیےحریص ہے۔
ہتھیار بناتا ہے، جنگ کرتا، یا کرواتا ہے، تباہی لاتا ہے، دھرتی ماں کو دکھ اور بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے، آسمان کو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گردش میں لاتا ہے۔ پہاڑوں اور موسموں کو بے ترتیب کرتا ہے، فطرت کے جائز رویوں سے نا جائز رویہ جاتی چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ معاشی سماجی اور تکنیکی بر تری پیدا کر کے انسانوں میں گروہی اور نسلی طور پر تقسیم پیدا کرتا ہے، اور ڈالر اور روپے کے فرق سے غریب دھرتی واسوں کی دولت مفت میں ہتھیا لیتا ہے۔
لومڑ کی فطرت پر بات کرتا ہے، حالاں کہ یہ خود ایک لومڑ ہے؛ ہاں چند لاکھ، یا چند کروڑ لوگوں کا ایک جرائم پیشہ جتھہ جس نے اپنی تکنیکی، سائنسی، سماجی، میڈیائی اور جنگی ذہانت اور منفی طاقت سے دنیا پر نا جائز قبضہ کر لیا ہے، جو سب کا خدا بننا چاہتا ہے۔
تو کیا ایک اصل خدا کے ہوتے ہوئے امریکہ جیسا خدا ضروری ہے؟
اہلِ ایمان اس بات کو ہر گز نہیں مانتے۔ اس نہ ماننے کی جنگ میں بھی اب تک ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ جنگوں کا ایندھن بنا دیے گئے ہیں، اور لاکھوں لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت میں قتل کر دیے گئے ہیں۔
مہا اسرائیل و خدا امریکہ اور مہا بھارت کے منکرین چاہے مشکل میں ہوں، مگر وہ رب کی دھرتی رب کا نظام لانے کے لیے چارہ جوئی کر رہے ہیں۔
اس جنگ میں ماحول تباہ ہو رہا ہے، اور دھرتی عدم توازن کا شکار ہے۔
ہم سب ایک ایسے خدا پر کامل ایمان رکھتے ہیں جو صرف ایک ہی دنیا کا خدا ہے۔
ہم تیسری دنیا والے کیوں کہلوانے لگ گئے ہیں؟
ہم نے تیسری دنیا کی اصطلاح کو کیوں قبول کر لیا ہے؟
یہ اصطلاح ایک دھوکا ہے۔
ایک طے کردہ ڈرامہ۔
دنیا صرف ایک ہے۔
خدا ایک ہے۔
انسان ایک ہے۔
ہم سب ایک ہیں۔
سمندر سب کا ہے۔
سبھی آسمان ہمارے ہیں۔
دھرتی چاہے مختلف ملکوں اور مختلف بارڈرز کے کانٹوں میں پِروئی ہوئی ہو دھرتی سب کی ہے۔
افریقہ سے ایمازون تک موجود سب درخت پرندے جانور انسان اور سبھی موسم ایک سے ہیں۔
سانسیں ایک آنکھیں ایک ہیں۔
زندگی ایک ہے۔
اور یہی اکائی کی نسبت ہی ایکولوجی ہے۔
تو پھر یہ تیسری دنیا غریب ممالک جی ایٹ ممالک، جی ٹوینٹی ممالک اور امیر و سرمایہ دار ممالک کا کیا چکر ہے؟
کیا آنے والے دور میں زندگی سے جڑی ہر غذا، ہر دَوا اور ہر ضرورت ڈبہ بند ہوگی؟ اس پر ایک ہی ملک کی مُہر ہو گی؟
سب سمندروں، دریاؤں، ڈیموں اور دنیا کی سب زراعت اور صنعتوں پر اسی کا قبضہ ہو گا؟
وہ دریاؤں کا پانی بیچے گا؟
زراعت پر مزدور لگا کر سستی مزدوری پر اجناس پھل اور غلہ اگائے گا؟ اور اس پر پہرہ دار بٹھا دے گا؟
سمندر کئی حصوں میں تقسیم کر کے سمندری حدود اور بندر گاہیں کرایے پر دے دے گا؟
کیا وہی بڑا طاقت ور بادشاہ ہو گا؟
مسلمان تو مانتا ہی نہیں کیوں کہ وہ اللہ کے سِوا کسی کو معبود نہیں بناتا۔
صبح کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ میں نے کروٹ بدلی اور بڑبڑاتے ہوئے گاؤ تکیہ سیدھا کیا۔ اب میں اِیستادہ حالت میں بیٹھ گیا تھا۔ سر درد میں کچھ بھی کمی نہیں آئی تھی، لیکن اُباسیاں آنے لگی تھیں۔
میری سوچ نے اچانک ایک پلٹا کھایا:
“جب دھرتی پر کوئی رہے گا ہی نہیں تو امریکہ کہاں رہے گا؟
سب مٹ جائیں گے؟ پاک پروردگار نے یہ طے تو نہیں کیا ہوا کہ جب انسان بہت گم راہ ہو جائے، یا اپنی زندگی اور فطری و قدرتی ماحول سے بے پرواہ ہو جائے، دھرتی کے طاقت ور نظام کو خود اپنی نا دانیوں اور قوانینِ قدرت میں دخل اندازی کرتے ہوئے برباد کر ڈالنے پر تُل جائے تو وہ قیامت قائم کر دے گا۔
جو ہم تیز رفتار تکنیکی اور سائنسی ترقی کر کے ایٹمی طاقت کے زُعم میں دوسرے ملکوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جدیدیت کا راگ الاپ رہے ہیں۔
سادہ دلی اور سادہ زندگی ہم سے روٹھ چکی ہے۔ یہ بھی ممکن ہو چکا ہے کہ بہت جلد یہ کائنات ہمارے لیے ایک ایسے سیارے کا درجہ اختیار کر لے جہاں زندگی کا تصور نا پید ہو۔
امریکہ کی تین کمپنیاں مریخ پر شہر بسانے کی تیاری میں جُٹی ہوئی ہیں تو کیا انہیں زندگی کے ساری اجزاء و عناصر مریخ سے ہی فراہم ہوں گے؟
اور اگر زندگی کے سبھی لوازمات و ضروریات زمین سے مریخ تک لے جانے پڑے تو یہ خواب کیسے پورا ہو پائے گا؟
کیلی فورنیا یونی ورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی کی اختتامی دَھائی تک جا کر زمین تباہ ہو جائے گی اور یہ تباہی درجۂِ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافے کی وجہ سے آئے گی۔ تب سبھی موسم بے کار ہو جائیں گے، جنگل جنگلی حیات جانور اور پرندے سب ختم ہو جائیں گے، پانی کثیف، زہریلا اور نا قابلِ استعمال ہو چکا ہو گا۔
ہوا میں کاربن اور کیمیاوی اجزاء کی بھر مار اسے انتہائی زہریلا بنا چکی ہوگی کہ ایک سانس لینے پر ہی پھیپھڑے کینسر زدہ ہو جائیں اور دھرتی پر انسانی وجود نا پید ہو جانے کے قریب ہو تو کیا یہی وہ وقت ہو گا جب صُور پھونکا جائے گا؟
تو کیا ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہی صُور پھونکا جائے گا؟
جی ہاں سماجی آلودگی، ذہنی آلودگی، روحانی آلودگی جذباتی آلودگی، سچائی کی آلودگی، ادبی آلودگی، سیاسی آلودگی، مذہبی آلودگی، صنعتی اور معاشی آلودگی، احساسی آلودگی، انسانی آلودگی، غذائی آلودگی، حیاتیاتی آلودگی، برقی آلودگی، شعاؤں کی آلودگی، ہوا کی آلودگی، پانی کی آلودگی، منفی جراثیموں کی آلودگی، منفی کیمیائی اور دواؤں کی آلودگی، زہر اور سپرے کی آلودگی، رویہ جات کی آلودگی، قبضہ اور بھتہ خوریت کی آلودگی، منفی شعور اور غلط اطلاعات کی فراہمی کی آلودگی۔
موسمیاتی آلودگی صدماتی آلودگی سفاّکیت بربریت اور قوم پرستی کی آلودگی، احساسِ بر تری اور دہشت گردی کی آلودگی، منفی تعلیم و ترقی کی آلودگی۔ فطرت، قدرت اور درست رابطہ کاری میں رکاوٹ اور دروغ گوئی و بد باطنی جیسی آلودگی۔
در اصل، یہ سب آلودگیاں ایک خدا کے بنائے گئے قوانین کو جائز طور پر نہ ماننے، یا اس کے بناِئے گئے سادہ و صریح بھلائی کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہی ہیں۔
مجھے 1981 کا سال یاد آیا جب جولائی اور فروری کی گرم اور سرد ہواؤں کے فرق کو واضح طور پر سمجھا اور محسوس کیا جا سکتا تھا۔
تب وسیب میں آموں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر آم کے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ درجۂِ حرارت مناسب اور معتدل تھا، ابھی زہر کے سپرے کا عمل زیادہ نہیں ہوا تھا۔ مکئی، گنے اور باجرے کے کھیتوں میں سے بھاگتے ہوئے خرگوش، سور، لومڑوں اور گیدڑوں کی ٹولیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔
پھل دار درختوں اور اجناس دار فصلوں پر ہزار ہا طوطوں کے جھنڈ دکھائی دیتے تھے۔
گرد اور گردش سے بچے ہوئے گھاس کے دور تک پھیلے ہوئے قطعات پر سردیوں کے موسم میں پالا اور جمی ہوئی شبنم سفید سفید جال تانے ہوئے ہوتے تھے اور سورج کی کرنیں انہیں آب دار موتیوں میں بدل دیتی تھیں۔
شہد کی مکھیوں کے جھنڈ ہی جھنڈ ایک باغ سے دوسرے باغ کی طرف مراجعت کرتے اور آم بیری، یا پھر کچنار اور کیکر کے درختوں پر چھتے بناتے ہوئے نظر آتے تھے۔
جگنوؤں کے پرے گاؤں کی کچی حویلیوں میں دھمال ڈالتے ہوئے داخل ہوتے تو چاندنی راتوں میں لُک چھپ کھیلتے ہوئے ہم سب کلکاریاں بھرتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے۔
تتلیوں کے غول باغات میں پھولوں کے اوپر لہرا لہرا کر بیٹھا کرتے اور ہم ان کے پروں پر تراشے ہوئے رنگوں کے جادو میں کھو جایا کرتے تھے۔
پیلی اور کالی بھڑیں گھرائنیں اور چڑیوں کے سینکڑوں جھنڈ اڑتے اور گھر میں پڑے کیکر کے چھاپوں پر آن کر بیٹھتے دھان یا تو رریئے کا بیج چگتے اور خوب لڑتے۔ چڑیوں کی چل چل کا شور گھروں کی رونق کو کچھ اور بڑھا دیا کرتا۔
گھنے درختوں کی چھاؤں میں منجی ڈالے ہوئے گھر کے بزرگ ہوئے حقہ گڑگڑاتے اور کھیلتے ہوئے بچوں کی کسی غلطی پر انہیں ڈانٹ پلاتے اور پھر ہر چیز اپنے معمول پر آ جایا کرتی۔
اولگی، نائی، مراثی، موچی، پاؤلی سبھی شام کو ملکوں کے دیرے پر گاؤں کے چھوٹے بڑے مردوں کے ساتھ بیٹھ کر دن بھر کی کار گزاریوں پر تبصرے کیا کرتے۔ چوپالوں میں شام کے بعد اکثر دیر گئے تک محفلیں جما کرتیں۔
شام کے بعد ہم بی بی سی اردو سروس میں رضا علی عابدی اور ثریاّ شہاب کی آواز میں دن بھر کی تازہ خبریں اور تبصروں پر مبنی پروگرام سیر بِین سنا کرتے تھے۔ سیر بین کی دھنیں ہمارے دل میں دنیا کا نظام بدلنے کی امید جگاتیں اور ہمیں تازہ دم رکھتیں۔ بابا جی زیادہ تر ملتان ریڈیو سے اتم کھیتی یا جمہور دی آواز سنا کرتے۔
بعض مرتبہ اماں جان سے کسی بات پر تکرار ہو جاتی تو بابا جان کا غصہ دو بینڈ کے اس بے قصور ریڈیو پر ہی نکلتا۔ اور ہم اس صورتِ حال میں دو چار دن تک دنیا کے حالات کے بارے میں جان کاری جیسی نعمت سے محروم ہو جایا کرتے تھے۔
لالٹین کی چمنی نمک سے دھو کر اسے جلا کر گھر کی کچی حویلی میں چارپائی پر کتابیں پھیلائے دیر گئے تک پڑھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔
کیا سادہ و دلکش دن تھے تب کھاڑیوں میں سالانہ بارش کا پانی جمع ہوتا تو خراب نہیں ہونے پاتا تھا۔
نہروں، ندیوں اور کھال کا پانی صاف اور شفاف تھا جسے پیا جا سکتا تھا اس ایمان کے ساتھ کہ اس میں گندے پانی کی غلاظت شامل نہیں ہوئی۔
سردیوں کے شروع میں نہر میں پانی کا پہلا نکاس جب دیہات کے باغات سے ہوتا ہوا گاؤں کی زمینوں تک پہنچتا تھا تو اس میں باغ کے کچے پھل اور زندہ مچھلیاں تیر رہی ہوتی تھیں۔ ان پھڑپھڑاتی ہوئی مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے ہر گھر میں ایک چھوٹا سا جال ضرور موجود رہتا تھا۔
صاف پانی میں چانے ہلاتی دُمیں مٹکاتی ہوئی سنکارہ اور سانپ نما مچھلیاں تیر رہی ہوتی تھیں، یا پھر اچھل اچھل کر کھیتوں میں جا رہی ہوتی تھیں۔ مکھن اور دیسی گھی میں بنائے ہوئےکھانے کھائے جاتے۔
اماں جان ہمیں پنجیری، میٹھے ِٹکڑے باجرے، مکئی، یا پھر چاول کے چلڑے بنا کر دیا کرتی۔
سرسوں کا ساگ اور مکھن زندگی کو تر و توانا رکھتے تھے۔ مگر اب 38 سال کی زندگی گزر چکی؛ 2019 تک آ کر بہت کچھ ہم سے چھن گیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے نا جانے کب مجھے نیند نے اپنی گود میں لے لیا۔ رات کے پچھلے پہر زندگی نے کروٹ لی باہر تیز رفتار اور گرد آلود ہوا چل پڑی تھی۔ ایک سر مست اور بے خوف ہوا جس میں پلاسٹک کے شاپر اور گند موجود تھا۔
گرم ہوا کا ایک مٹی ملا بھبُوکا، بیٹھک کی کھڑکی میں لگی جالی میں سے اندر داخل ہوا، کافی دیر بعد ہوا رکی اور پھر بارش کے فرشتے تیز رفتار اور دھواں دار بارش برسانے لگے۔
تیز بارش کا آدھ گھنٹہ …
صبح ہوئی تو صبح کی ڈیوٹی پر مامور کچھ چڑیاں آ کر کھڑکی کے شیشے پر ٹھونگے مارنے لگیں جیسے یہ سب اپنے عکس کو قید کی گئی چڑیاں سمجھتے ہوئے انہیں چھڑانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں بیٹھک کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
آک، بیری اور دوسرے پودوں پر سبزہ لہلہا رہا تھا، سفید اور پیلے رنگ کی تتلیاں رقص میں تھیں، میں کھڑکی کے شیشے پر چڑھتی ہوئی بیل پر کھلے ہوئے پیلے پھول دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی:
ابھی ایک موقع ہے دنیا کو ایک ہزار سال تک مزید قائم رکھا جا سکتا ہے”
درخت لگا کر… پرندوں، جانوروں اور پودوں کی بڑھوتری سے؛ جنگل کا رقبہ بڑھانے سے … پانی کے ذخیرہ جات کی حفاظت سے؛ نئے ڈیم بنانے سے، جزائے خیر و کارِ خیر سے؛ انسانیت کو نفع پہنچانے سے … امریکہ، یا امریکہ جیسا نہ بننے سے؛ انسان اور انسانیت کی بہتری اور بھلائی کے عمل سے؛ مُضرِ صحت گیسوں کے اخراج میں کمی کرتے ہوئے … درجۂِ حرارت کو کم سطح پر لانے سے … پلاسٹک بیگ سے انکار کر کے، فُضلہ اور پلاسٹک اور فُضلہ کی ری سائیکلنگ سے … گھر اور گھر کے باہر کی ایکولوجی اور ماحول کو متوازن اور صاف ستھرا رکھنے سے … ۔
اپنے روَیّے، کردار اور کاموں کو رب کی قدرت اور فطرت کے مطابق بنا لینے سے … فضا، ہوا اور پانی کو آلودگی سے بچا کر ضرور ایسا کیا جا سکتا ہے کہ بارشوں کا عمل بڑھے، آبی چکر مضبوط ہو، جنگل دھرتی اور آسمان آباد اور خُوش حال رہیں، اور اگر انسان خود کو بشر مرکزیت کے احساس سے الگ کر کے دھرتی اور دھرتی جیوؤں کا دفاع کرے تو ضرور ایک ہزار سال تک مزید یہ دھرتی قائم رہ سکتی ہے، بَل کہ، یہ عمل جاری رہے تو یہ نظامِ ہستی شاید ہمیشہ کے لیے چلتا رہ جائے … شاید …
کیوں کہ ہماری اس دنیا کے علاوہ کوئی بھی دوسری، یا تیسری دنیا نہیں۔ کوئی ایک طاقت ور ہو کر بھی طاقت ور نہیں۔ کیوں کہ وہ انسانوں کا انسانوں سے اور انسانوں کے لیے بنائی گئی اس دنیا کا حصہ بھی ہے اور شراکت داربھی۔ کوئی کسی سے بر تر نہیں کیوں کہ سب جان دار ہیں، ایک دوسرے کی ضرورت اور زندگی کی ضرورت اور … آؤ جِئیں سب، سب کے لیے …
اشرف جاوید ملک، پی ایچ ڈی سکالر شعبۂِ اردو، بہاؤ الدین ذکریا یونی ورسٹی، ملتان۔