شکریہ سالِ گزشتہ، خوش آمدید نئے لمحوں کی اکائیوں کے ثقافتی تقسیمے cultural cut

Yasser Chattha

شکریہ سالِ گزشتہ، خوش آمدید نئے لمحوں کی اکائیوں کے ثقافتی تقسیمے cultural cut

از، یاسر چٹھہ

شکر گزار ہوں اپنی زندگی میں مختلف حیثیتوں اور رشتوں سے شامل مرد و خواتین، بچوں، وہ جو خود کو ثنویتوں سے باہر باور کرانا چاہیں، درختوں، پرندوں، زمین(وں)، پہاڑوں، آسمانوں، آکسیجن، اور ٹیکنالوجی کے آلات کا، سب کا، جو میرے ضمیرِ واحد متکلم کے پیچھے خوب صورت دل و دماغ، اور وجود و تجرید سنبھالے میرے ان لمحوں کے چشمِ تصور میں موجود ہیں۔

ان لفظوں کو دور کہیں سے ذہن میں لاتے، انہیں عبارت کا لباس پہناتے، وہ سب لوگ، وہ سب مظاہرِ قدرت و فطرت، وہ سب ٹیکنالوجی کے احساس وراء beyond perception and emotion آلات ( کہ جن سے میرے آس پاس والے، میرے اپنے بے زار رہتے ہیں، لیکن میں ان اشیاء کو بھی اپنا محسن مانتا ہوں)، سب تک میرا سالِ نو اور سال گزشتہ کی intersectional دہلیز پر کھڑے ہوئے کا سچا احساس ضرور پہنچے۔ پَر نہیں، طاقتِ پرواز …۔

یہ اکّھر، یہ حرف، یہ شبد، یہ لفظ لکھتے سَموں میں، مَیں نے اس دوران اپنے کچھ پرانے، میرے ذہن و دل میں زندہ دوستوں کو بھی یاد کیا ہے، جنہیں توقع ہی نہیں ہو گی کہ میں انہیں یاد کرتا ہوں، اور خود کو بھی یاد کرتا ہوں؛ خود اپنے آپ کا شکریہ کہ اپنے آپ کو جھیلنے دیتا ہے۔

البتہ، مجھے رنجیدہ خاطری ہی رہے گی کہ میرے ساتھ زندگی کی عصریت کی کئی ساری اِکائیاں بِتانے کے با وُجود کچھ تشخص و تصورات میرے تشخص و وُجُود کے کسی ایک پہلو کے کسی مخصوص لمحے میں ہی رہ گئے۔

پر اس سب کیفیات و احساسات کے جوہر کو بَر طرف کرتے ہوئے، ہر اس وجود، نا وجود و تصور و تجرید کو سلام کہ جس نے میرے اندر، بھلے جس طور پر بھی، اپنے تئیں ایک نا ایک نیا شعوری لمحہ جمع کیا۔

مجھ سے وابستہ، ہر اس اس چیز، نا چیز، تشخص، تجرید، اور احساس کو سلام جو میرا بھلا تاثر رکھتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی حد تک پڑھنے، بہت حد تک سوچنے، کئی ایک تجربات کی جمع بندی کرتے سَموں کے ما بعد بھی، احساسات میں تیرتے رہنے کی جِہد کے با وُجود بھی مجھے پیار کرنا نہیں آیا۔

کیا کروں میں زمینی انسان ہوں، اور میرے پاس کون ہے جو میرے ادنیٰ پن پر اپنی زور بیانی، چرب لسانی و لطافتِ جمالی سے خوش صورت عظمت کے قِصّے گھڑے، جو میری نا کہی کو بھی کسی وفور کے لمحے کا سچ باور کرے، جو میری دیوانگی کی لمحاتی اکائی کو وقت سے وراء آفاقی و فولادی جلدوں میں ملفوف کر دے۔

ایسا نہیں ہے، یقیناً ایسا نہیں ہے۔ تو پھر ایسا ہی رہوں گا کہ جیسا ہوں، یا اس کا گرفتہ مشاہداتی لمحہ، جس میں مجھ کو کوئی قید کر لے!

دعا تو کر سکتا ہوں۔ (کیا میری دعائیں، میری حقیر و ادنیٰ ہوائے نفسی و خواہشاتِ شعوری ہی رہیں گی؟ پتا نہیں) پھر بھی یہ دعا کا حق میں دل سے لگا کر رکھوں گا۔ دعا بھول نا جائے کہیں؛ یا رب مجھے پیار کرنا سکھا دے؛ ورنہ نری ہلاکت ہے، صرف اور صرف خسارہ ہے۔ بَہ ہر طور، میں آپ سب کو پیار کا احساس دینا چاہتا ہوں۔

…………….

اپنے آپ سے کچھ احساس کی ماہیت پر سوال

میں نے یہ سب کیوں لکھا؟

کیا وقت کو پاٹ سکنے کا مُدعی claimant ہو/بن گیا ہوں؟

نہیں، مجھے میری ثقافت و سماجیات سکھاتی ہے کہ وہ کلمے بھی پڑھو جن میں دل و دماغ بھلے نا بھی لگتا ہو کہ ان پر کئیوں کا دل لگا جو ہوا ہے۔ کسی قدر متعلق relevant بھی تو رہنا ہے۔ اب اور کتنی تنہائی سہنا ہو گی۔

یہ میری ثقافت و سماج سے ہی مخصوص نہیں کہ وہ ایسی توقع باندھتی ہے، بَل کہ کون ہے، اور کون سی کہاں ہے، وہاں ہے، جہاں ہے، جو اس قسم کی توقعات سے باہر کا منطقۂِ کیفیت ہے؟

…Where all is but dream, reasoning and arguments are of no use, truth and knowledge nothing.

John Locke

About یاسرچٹھہ 242 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔