کیا مغرب ہمارا دشمن ہے؟
از، معصوم رضوی
انسان ازل سے مختلف خانوں میں بٹا ہوا ہے، رنگ، نسل، مذھب، مسلک، ملت، وطن، زبان، تاریخ، زمان و مکان کی نادیدہ زنجیروں میں قید، خود ساختہ معاشرتی لکیروں کا پابند، بے معنی شناختوں کا محتاج، مگر یہ سب موروثی ہے، اختیاری سچ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ انسان ہے۔ پہلی سانس کے ساتھ پہلا رشتہ انسانیت کا ہوتا ہے مگر موروثی خٓانوں میں الجھ کر یہ ناطہ کب کہاں غائب ہو جاتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بنی نوع انسان صرف دو خانوں میں تقسیم ہے، ایک انسان دوست اور دوسرا انسان دشمن، تاریخ میں جھانک کر دیکھیں، ازل سے اب تک یہی دو طبقات نظر آئینگے۔ ہم کبھی سوچتے بھی نہیں کہ اس حقیقت کے باوجود انسانیت سے ہمار ناطہ اتنا کمزور کیوں ہوتا ہے؟
سیاہ دوپٹے میں متاثرین سے گلے ملتی غمزدہ جیسنڈا آرڈرن انسان دوستی کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ ادا کرتے 49 مسلمانوں کی شہادت پر خاتون وزیر اعظم کا رد عمل دنیا کیلئے باعث حیرت ہے۔ شاید ہمیں یہ سب کچھ اسلئے زیادہ متاثر کر رہا ہے کہ متاثرہ فریق مسلمان ہیں مگر جیسنڈا آرڈرن کا رد عمل کسی ایک فریق کیلئے نہیں بلکہ انسانیت کیلئے ہے۔
اگر یہ واقعہ یہودیوں یا ہندوئوں کیساتھ پیش آیا ہوتا تو یقینی طور پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم انکے ساتھ اسی طرح کھڑی ہوتیں۔ بہرحال اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سوگوار خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرتی یہ عورت موجودہ عالمی قیادت میں سب سے زیادہ پر عزم اور مضبوط قائد ہے۔ وزیر اعظم نیوزی لینڈ کی جانب سے سانحے کے فوری بعد دہشتگردی ہی نہیں بلکہ سفید فام دہشتگردی کا اعتراف، بیباک حقیقت پسندی اور بے مثال جرات کا اظہار ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں دہشتگرد کی گرفتاری اور ایک ہفتے میں اسلحہ قانون تبدیل کرنا عزم و ہمت کی دلیل ہے۔
اسلاموفوبیا میں مبتلا مغرب میں سفید فام نسل پرستی کا دیو خطرہ بنتا جا رہا ہے مگر اسکا اعتراف کوئی نہیں کرتا، کوئی اسے دہشتگردی نہیں کہتا۔ ایسی صورتحال میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کا دو ٹوک موقف خود مغرب کیلئے مثال بن چکا ہے، کاش تمام ممالک کیلئے قابل تقلید بھی بنے۔ کسی بھی قسم کی دہشتگردی پوری دنیا کیلئے خطرہ ہے، کاش ہم بھی اس خطرے کا مقابلہ اتنی ہی حقیقت پسندی، دوٹوک اور بھرپور جرات کیساتھ کرتے تو شاید نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔
دہشت گردی نیوزی لینڈ کیلئے اجنبی تجربہ تھا، نہ مذمتی بیانات کی بھر مار، نہ دہشتگردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ، کسی نے یہ بھی نہیں جتایا کہ اگر بہادر اور فرض شناس سیکورٹی نہ ہوتی تو نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا تھا۔ ناتجربہ کاری کی انتہا دیکھیئے بن مانگے شہادت پانیوالوں کو روحانیات کا درس اور بے گناہ جانوں کے معاوضوں کا احسان بھی نہیں دھرایا گیا۔
سانحے پر اپوزیشن نے سیاست چمکائی، نہ حکومت نے ڈھٹائی دکھائی اور تو اور اسٹیبلشمنٹ نے اسٹریٹیجک اثاثوں کا حوالہ تک نہ دیا۔ یہ کیا کہ بس ہاتھ جوڑ کر عاجزی، دردمندی کیساتھ معافی، دہشتگرد گرفتار، قانون تبدیل پورا نیوزی لینڈ سوگوار، یہ کیسے لوگ ہیں بھائی، اگلی نماز جمعہ کی اذان براہ راست ٹی وی پر نشر، عبادتگاہوں کے باہر پھولوں کے پہاڑ، سر جھکائے عوام، دل پر ہاتھ رکھکر کہیئے یہ سب کیا یہ سب کچھ افسانہ سا لگتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے بارے میں ایک عام پاکستانی کیا جانتا ہے، آسٹریلیا کے پڑوس میں ایک چھوٹا ملک، کرکٹ ٹیم اور ڈیری مصنوعات کے حوالے سے شہرت اور بس، مگر آج وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے انسان دوست رویے کے باعث پاکستان نہیں بلکہ عالمی برادری نیوزی لینڈ کو عزت و احترام سے دیکھ رہی ہے۔ اگرچہ یہ خطہ مغرب میں نہیں مگر بہرطور معاشرت کے حوالے سے اسے نیا مغربی بیانیہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ دور حاضر میں دنیا کو ایک بڑا خطرہ جمہوری انتہا پسندی سے لاحق ہے، اقتدار کی ہوس میں منافرت اور تعصبات کو بھڑکا کر کامیابی حاصل کرنیوالے سیاستدانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تارکین وطن کے خلاف نفرت کو ابھار کر وہائٹ ہائوس پہنچے۔ دور کیوں جائیں یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کے پرچارک ملک بھارت میں نریندر مودی ہندو انتہاپسندی کو ہوا دیکر تخت دلی پر براجمان ہوئے۔ یورپی ممالک میں کئی سیاستدان اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تارکین وطن کی کثرت کے خلاف رائے عامہ ہموار کر چکے ہیں۔ ووٹوں کے بھوکے جنونی سیاستدان نفرت و عصبیت کے انجام کا جانتے بوجھتے اپنی قوموں کو جہنم میں جھونک رہے ہیں۔
مزے کے بات یہ ہے کہ اس بھیانک صورتحال میں مقبولیت کا بھوکا میڈیا شکم سیری کر رہا ہے۔ تو جناب اس صورتحال میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈر جیسے رہنما ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہیں، ایسے انسان دوست رہنما جمہوری انتہا پسندی کے مقابل ایک ڈھال اور عالمی رائے عامہ کے سامنے درخشاں مثال ضرور ہیں، ایسی مثال جسکی تکریم عالمی شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مغرب ہمارا دشمن ہے؟ اس سوال کا سیدھا سادھا جواب شاید ممکن نہیں، مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مغربی حکومتوں کے رویے کو ضرور ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ مغربی معاشرہ انسان دوستی اور خیر کی غیر معمولی دولت سے مالا مال ہے۔ تمام تر ناپسندیدگی کے با وجود انسانیت کے لیے مغرب کی خدمات کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، امریکہ عراق پر حملہ کرتا ہے تو سب سے پہلی آواز یورپ سے اٹھتی ہے، جنگ زدہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی بات ہو تو جرمنی اپنی آغوش وا کرتا ہے۔ معذرت کے ساتھ ایسی صورت حال میں مسلم ممالک انسان دشمن قوتوں کے ساتھ نظر آتے ہیں یا پھر فطری احساس کم تری تلے دبے خاموشی میں عافیت جانتے ہیں۔ آج ہم ہر گام مغرب کی تحقیق اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر جانے کیوں مغرب کے انسان دشمن رویے کو تو اچھالا جاتا ہے جب کہ انسان دوستی کو نہایت دانستہ فراموش کر دیا جاتا ہے۔
مغرب کے بارے میں ہماری تمام تر رائے سیاسی کردار کے حوالے سے ہوتی ہے، انسانی ترقی، تہذیبی ارتقا، انسان دوستی جیسے غیرمعمولی کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مغرب کا رویہ ہمارے بارے میں تبدیل ہوتا رہا ہے مگر بالعموم ہم نہایت مستقل مزاجی سے اسے دشمن جانتے ہیں۔ شاید اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک نے مغربی حکومتوں سے تو روابط رکھے مگر مسلم معاشرے نے براہ راست مغربی سماج کو مخاطب نہیں بنایا، مسلم معاشرے کے زوال کے بعد مغرب کا عروج جذبہ رقابت کی شکل میں اسکی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ مسلم اور مغربی سماج کی دوریاں اور غلط فہمیاں دور کی جائیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب میں انسان دوستی، ترقی اور آگے بڑھنے کی زبر دست صلاحیت موجود ہے۔
جس طرح آگ اپنے پرائے کو نہیں پہچانتی، اسی طرح دہشت گردی بھی کسی کی نہیں ہوتی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مغربی مظالم کے خلاف کھڑے ہونے والے جہادیوں نے سب سے زیادہ نقصان ہمیں پہنچایا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذھب نہیں ہوتا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔