مغربی ممالک میں جا بسے تارکین وطن میں پکتا ایمان کا لاوا
(نسیم سید)
ہم سب مغرب میں رہنے والے مجھ سمیت پاکستان کے غم میں دن رات گھلتے ہیں۔ یہاں کی سیاست یہاں کے سیاست دان، یہاں کے ملاں، یہاں کا اسلام ، یہاں کا پانامہ ۔۔ مگریہ بات بھولے بیٹھے ہیں کہ کینیڈا میں امریکہ میں اور دیگر تمام مغربی ممالک میں جہاں وہ بڑے چین کی زندگی گزاررہے ہیں، مساجد بنا رہے ہیں، امام باڑے تعمیر کررہے ہیں، جلوس نکل رہے ہیں۔ چین سکون سے رہ رہے ہیں اوراپنی اپنی پسند کی زندگی بڑی آزادی سے گزاررہے ہیں۔
وہاں ایک منی پاکستان اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ تشکیل پارہا ہے۔ یہاں جو مدرسے قائم کئے گئے ہیں وہ پوری ایک نسل تیارکررہی ہے ویسی ہی ignorant اور دولے شا ہ کے چوہوں جیسی جس کی ایک جھلک ہم نے مشعل خان کے ان قاتلوں کے صورت میں دیکھی جو ایک یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔
کیا کینیڈا میں اسی ہی ذہنیت کے لوگ موجود نہیں ہیں؟ ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔ دو دن پہلے میری بھانجی کے گھرکونڈوں کی نذر تھی۔ اس محفل میں گھریلو خواتین سے لے کر اعلٰی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات تک سب پاکستان اور اس کے مسائل پر اپنا اپنا موقف بیان کررہے تھے۔ میری بھا نجی کے داماد کے کزن جو کہ ایک علمی وادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کینیڈا میں موجود مسلمانوں کی مذہبی وحشت اورانتہا پسندی کے حوالےسے بات کرتے ہوئے کہا:
’’میری بہن اور اس کے شوہر نے اپنے بچوں کا کوئی ویکسینیشن نہیں کرایا کیونکہ ان کے خیال میں یہ حرام ہے۔’’
یہ صرف ایک مثال ہے ایسے افراد اب ہزاروں کی صورت میں یہاں آباد ہوچکے ہیں اور اسی جنونیت کو اپنے بچوں میں منتقل کررہے ہیں۔ یہاں مدرسوں کے نام پہ ایک ایسی ہی سوچ رکھنے والی نسل کی پرورش کی جا رہی ہے۔ ان کے اندر جا کے اس ماحول کا مشا ہدہ کریں۔ لڑکیوں اورلڑکوں کے درمیان ایک اونچی دیوار ہے۔ ان کے مدرسوں میں داخل ہونے کے دروازے جدا ہیں۔ یہاں تمام لڑکیاں سروں پہ حجاب لیتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کے درمیان یہ segregation کیا درست ہے؟ یہ لڑکیاں جب کالج یا یونیورسٹی میں جائیں گی۔ نوکری کریں گی تب کیا ہوگا ؟ کیا وہاں بھی علیحدگی کی دیوار کھڑی کی جا ئے گی؟ کیا یہ segregation جنسی مسائل کی متعدد وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ نہیں ہے؟
مغربی ممالک کے ہر شہر میں اسلامی مدرسے موجود ہیں یہ مدرسے جو یہاں قائم کئے گئے ان میں یہ تربیت ہورہی ہے جو تمہارے جیسا عقیدہ، تمہارے جیسی سوچ، تمہارے جیسا لباس نہیں پہنتے، جو کالے ہیں، گورے ہیں ان سے دور رہو۔
یہ بچے جوان ہوکے اس معاشرے میں زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے قدم جمانے والے ہیں جہاں ابھی تک مذہب انسان کی ذات تک محدود ہے۔ یہاں بھی چرچ ہیں جو ہر اتوار کو بھرے ہوتے ہیں۔ کرسچینز سے، لیکن ان کے مذہب میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لئے اچھوت نہیں ہیں۔ سو سب ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ عورت اور مرد کے درمیان کوئی خوف کی دیوار نہیں ہے۔ جوان لڑکیوں کوچادروں اور برقعوں میں لپیٹنے پر ان کا مذہب اصرار نہیں کرتا۔ سولڑکی اس خوف سے آزاد ہے کہ وہ مصری کی ڈلی ہےاور لڑکا جب چاہے گا اسے منہ میں رکھ لے گا اٹھا کے۔ اسی مدرسہ کےتعلیم یافتہ میرے محلے کے ایک لڑکے کے والد کا بیان سنیں جس کو سناتے ہوئے ان کا سینہ فخرسے چوڑا ہوگیا تھا۔
’’میرے بیٹے کو فلاں (ایک بڑا بنک یہاں کا) بنک میں مینیجرکی پوسٹ آفرہوئی ہے۔ بیس لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو لینا تھا اور وہ میرا بیٹا تھا جس کا انہوں نے انتخاب کیا۔ انٹرویو کامیاب ہوا۔ جب انٹرویوختم ہوگیا اورپوسٹ کی آفرکرتے ہوئے اس کی مینیجر نے کھڑے ہوکے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو میرے بیٹے نے اس سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا:
’’ ہم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملا تے۔”
اس سے ان ننگی سوچ رکھنے والوں نے پوسٹ کی آفر واپس لے لی مگرمیرا بیٹا اتنی بڑی پوسٹ پر لات مار کے واپس آگیا۔ ’’ نوکری کے لئے میں اپنے دین کے اصول کو قربان نہیں کروں گا’’۔
اس نے مجھے بتایا تو فخرسے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور اپنی تربیت کا پھل دیکھ کے اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے مغرب میں رہ کے ثابت کردیا کہ ہم وہ ہیں جو دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ ’’
دیکھا آ پ نے بیس لڑکوں میں جن میں لازمی گورے بھی ہونگے ایک پاکستانی لڑکے کو میرٹ پر منتخب کیا گیا۔ قوم، مذہب، زبان سب کو ایک طرف سرکا کے۔ مگرہم کس سوچ اور طرزعمل کی پرورش کررہے ہیں؟ خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کتنے دن تک اس منی پاکستان اور شدت پسند اسلام کو یہاں کا ماحول برداشت کرے گا۔ یہ مدرسے جو زہر اس معاشرے میں پھیلا رہے ہیں اور پوری شدت سے اس کو برباد کرنے پر تلے ہیں کیا اس کا یہ انجام نہیں ہوگا کہ ایک دن یہاں کے عوام اٹھ کھڑے ہونگے اور مسلمانوں کونہ صرف یہاں سے بلکہ ہر مغربی ملک سے نکلا باہر کیا جائے گا۔ ان کے کرتوتوں کے سبب۔
پھر کہاں جائیں گے؟ جس پاکستان سے منتوں مرادوں کے بعد نکل بھاگے تھے وہاں ان کا کیا بنے گا؟ کیا وہاں بچوں کی زندگی کی ضمانت ہے؟ یہاں جو بچے مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ کیا لاکھوں کی فیس دے سکیں گے؟ کیا ان کی آئندہ نسل کا مستقبل وہاں محفوظ ہے؟ کیا انہیں وہاں کسی قسم کا قانونی تحفظ میسر ہے؟ تو پھر اس منی پاکستان کے سبب یہاں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اوراپنی تمام تر بد صورتی کے ساتھ جڑیں مضبوط کررہ ہیں اس معا شرے میں ان کی طرف پوری سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دیتے۔ ان مدرسوں کوجو بچوں کے ذہن کو نسل، مذہب، قوم پرستی کا زہرسے سینچ رہے ہیں بند کیوں نہیں کرواتے۔
فرحت ہاشمی جیسی شدت پسند یہاں سینکڑوں ڈالر لے کے لیکچر دینےآ جا تی ہیں اور اپنے بچوں کو ویکسینیشن نہ کروانے کی حامی خواتین جیسی خواتین کی ایک کھیپ تیار کررہی ہیں، اس کا آنا بند کیوں نہیں کرواتے؟ کیا ہم اس وقت کے انتظارمیں ہیں جب ہمیں یہاں سے نکال باہر کرنے کو یہاں کے عوام اٹھ کھڑے ہونگے۔ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے اس کی فکر سے زیادہ یہ فکر کرنے کا وقت ہے کہ ہم جہاں رہ رہے ہیں وہاں ہمارے بارے میں کون سا لاوا پک رہا ہے۔ کون سا خوف دیگراقوام ہماری سوچ اور ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم سے محسوس کررہی ہیں؟ اور ہمیں وہ برا وقت آنے سے پہلےکیا کرنا چا ہئے۔ پاکستانیوں کے لئے لمحئہ فکریہ۔
ہم دل کے سروں کو لاؤڈ اسپیکروں پر منتقل کر چکے۔ پیش قدمی میں ہاتھ میں پکڑے پتھر پر دل کی سروں کو بھیانک کر کے لکھ چکے۔ تسلسل میں اس پتھر کو ہوا میں لہرا کر گرم خون کے فواروں کی آدم کی خون خوری و نوشی میں مصروف ہیں۔ ہم کیا ہیں؟