مغربی ناول کا ہیرو، حصہ پنجم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
اور اب بیسویں صدی کے ناولوں کے ہیرو ہمارے تجزیے کے منتظر ہیں۔ بیسویں صدی کے ناولوں میں پروست (Prosut)کے ’’ری ممبرینس آف تھنگز پاسٹ‘‘Remembrance of Things Past(۱۹۲۷ء۔۱۹۱۹ء)، ہرمن ہیسے (Herman Hussey)کے ’’سدھارتھ‘‘Sidharth (۱۹۲۲ء)، جیمز جوائس (James Joyce) کے ’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز اے ینگ مین‘‘A Portrait of the Artist As A Young Man (۱۹۱۶ء) اور ’’یولیسز‘‘Ulysses ( ۱۹۲۲ء)، ٹامس مان (Thomas Mann) کے ’’دی میجک ماؤنٹین‘‘ The Magic Mountain (۱۹۲۴ء)، سکاٹ فٹز جیرالڈ (Scott Fitzgerald) کے ’’دی گریٹ گیٹس بی‘‘ (The Great Gatsby)(۱۹۲۵ء)، فرانزکافکا (Franz Kafka) کے ’’دی ٹرائل‘‘ The Trial (۱۹۲۵ء)، ڈی ایچ لارنس D.H Lawrence کے ’’لیڈی چیٹرلیز لور‘‘ Lady Chatterley’s Lover(۱۹۲۸ء)، سارتر (Jean Paul Sartre)کے ’’ناسیا‘‘Nausia (۱۹۳۹ء)، البرکامیوs (Albert Camus) کے ’’دی آؤٹ سائڈر‘‘ The Outsider(۱۹۴۳ء) ارنسٹ ہمینگوے Ernest Hemingwayکے’’دی اولڈ مین اینڈ دی سی‘‘ The Old man And The Sea(۱۹۵۰ء)، گنترگراس Gunter Grass کے ’’دی ٹن ڈرم‘‘ (The Tin Drum)(۱۹۵۹ء)، سال بیلو(Saul Bellow) کے ’’ ڈینگلنگ مین‘‘Dangling Man(۱۹۴۴ء)، ’’دی ایڈونچر آف اوگی مارچ‘‘ The Adventure Of Oggy March(۱۹۵۳ء) اور ’’ہرزوگ ‘‘Herzog (۱۹۶۴ء) اورگبریل گارشیا مارکیز Gabriel Garcia Marquez کے ’’لو ان دی ٹائم آف کالرا‘‘ Love In The Time Of Cholora (۱۹۸۲ء) کے ہیرو اسی طلب اور اسی جستجو کے غماز ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ہیروانسان کی حقیقت اور اس کے تدبرومقدر کے احوال کے مطالعے میں خصوصی مدد فراہم کرتے ہیں۔
ہیرو کے تصور کی بحث میں ’’Swann’s way‘‘ کا ہیرو محبت کی ایک نئی اور گہری جہت کی بازیافت کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ سوان عورت باز ہے۔ وہ عورتوں کو اس روپ میں نہیں دیکھتا جس طرح کہ وہ حقیقی طور پر ہوتی ہیں۔ ’’Jethro’s daughter‘‘ کی پینٹنگ میں چہرے کی ہلکی سی مشابہت کی بنا پر وہ اودت کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ اس موازنے نے اس کے میلانِ طبع کے مطابق اودت کو اس کے لیے زیادہ دلکش بنا دیا تھا حالانکہ وہ اس قماش کی نہیں تھی جس طرح سوان کے متخیلہ نے اسے محسوس کیا تھا۔ جب سوان کو اس کے جھوٹ کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح اس کی عدم موجودگی میں ایک طوائف کی طرح اپنے عاشقوں حتیٰ کہ مہمانوں تک کا سواگت کرتی ہے تو سوان کی محبت ایک المیہ رخ اختیار کر جاتی ہے۔ سوان کے ہیروانہ تصور کے پیچھے یہ نکتہ کارفرما ہے کہ محبت انسانوں کو محصور تو کرتی ہے لیکن جب ان کے بیچ کوئی روحانی رشتہ تخلیق نہیں کر پاتی تو یہی محبت شکوک و شبہات سے شروع ہو کر تھکن اور جھنجھلاہٹ کے احساس پر ختم ہو جاتی ہے۔
پروست کے ہیرو بنیادی طور پر حسی طرز کا ذہن رکھتے ہیں ۔ ان کی یادداشت کمال کی ہوتی ہے۔ دراصل پروست پر برگساں (Borgeson) کے تصورِ زماں کا اثر تھا جس کے مطابق ماضی اپنے تمام تر گوشوں سمیت ہمیشہ محفوظ رہتا ہے اور اسے ادراک کے وسیلے سے مکمل طور پر حال میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروست کے ہیرو برگساں کے ’’ارادی حافظے‘‘ سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔ وقت کے ابعاد میں ماضی کی بازآفرینی کو ترجیح دینا اور لاشعور سے یادوں کی تفصیلات کو کھینچ کر باہر لے آنا، ان کا وصف خاص ہے جس سے ماضی حال کا حصہ بن کر روشن اور متحرک ہو اٹھتا ہے۔ سوان ایسا ہی ہیرو ہے جس کے عمیق اور وسیع حافظے کو یورپی ادب میں بطورِ مثال پیش کیا جاتا ہے۔
ہرمن ہیسے نے اپنے ناول میں سدھارتھ نام کے ایک برہمن زادے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے جو اکتسابی علم اور اصل حقیقت کے مابین تضاد پاتا ہے تو آگہی کی جستجو اسے نفس کی مختلف منزلوں کی طرف لے جاتی ہے جن سے گزر کر وہ حیات و کائنات کے رموز کو خود پر منکشف کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور دکھ پر فتح پا لیتا ہے۔ بقولِ وزیر آغا اسے وہ ملکوتی اور معنی خیز مسکراہٹ حاصل ہو جاتی ہے جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔
سدھارتھ کے نروان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حقیقت کی تلاش میں اقتدا کے بجائے تجربے کی اصلیت کو بنیاد بنانا چاہیے۔ سدھارتھ کو بدھ کی تعلیمات متاثر کرتی ہیں۔ وہ بھی تناسخ کے چکر سے آزادی چاہتا ہے مگر وہ بدھ کا چیلا نہیں بنتا کیونکہ وہ اسی لذت کا متلاشی ہے جو گوتم بد ھ کوحا صل ہوئی تھی۔ اس لیے وہ اپنی مکتی کا راستہ خود تراشتا ہے اور سطح کی تیراکی کے بجائے تہہ کی غواصی کو ترجیح دیتا ہے۔یوں وہ آگہی کے رخ کو اپنی ذات کی طرف موڑے رکھتا ہے۔جب وہ دریا عبور کرتا ہے تو عورت کا بدنی تجربہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کملا ایک نرتکی ہے جو اسے سکھاتی ہے کہ اختلاط کا فن کیا ہوتا ہے اور عورت کی مہربانی میں کیسے رموز پنہاں ہوتے ہیں۔وہ اسے حصول زر پر اکساتی ہے۔ تپسیا و تفکر کا راستہ عیش و مستی کی طرف مڑ جاتا ہے اور مایا جال سدھارتھ کو دبوچ لیتا ہے حتیٰ کہ بیس برس گزر جاتے ہیں۔ ایک رات خواب میں اسے کملا کے طلائی پنجرے میں ایک مرا ہوا پرندہ نظر آتا ہے۔ اندر کے اس دلگیر اور تنبیہی اشارے کی بدولت ترغیب وتحریص کا ہالہ ٹوٹ جاتا ہے اوراس پر متلی کی کیفیت وارد ہوتی ہے۔ گیان کی جستجو میں وہ ایک بار پھر دریا عبور کرتا ہے اور کنارے پر واسودیو کی معیت میں ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگتا ہے۔یہاں دریا اور وقت کی مماثلت اس پر آشکار ہو جاتی ہے۔ پانی اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس پر سارے عقدے وا ہو جاتے ہیں اور وہ ’’اوم‘‘ کو پا لیتا ہے۔ قمر جمیل لکھتے ہیں:
’’سدھارتھ روح کی دنیا سے حواس کی دنیا تک پہنچتا ہے اور آخر میں یہ دونوں دنیائیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب سدھارتھ اس دریا کے کنارے ہوتا ہے جو ان دو دنیاؤں کے درمیان بہتا ہے۔
دریا معرفت کی علامت ہے اور اس کلیت کو ظاہر کرتا ہے جو حاضر و غائب کے بیک وقت مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ دریا کے کنارے پر سدھارتھ کا ڈیرہ ڈالنا اور اس کے دونوں کناروں یعنی حقیقت کے دونوں رخوں سے منسلک رہنا انتہائی معنی خیز ہے۔ گویا سدھارتھ نے وہ پُل بنا لیا ہے جو ایک کنارے کو دوسرے کنارے سے ملاتا ہے۔ درحقیقت یہ پُل زمان و مکاں کی قید سے آزاد اس ذہنی و تخلیقی سکون کا غماز ہے جس کی تمنا ہرمن ہیسے کو تھی۔ آصف فرخی کا کہنا ہے کہ دریا زندگی کی علامت ہو سکتا ہے کہ سدھارتھ اس کے کنارے جھونپڑی ڈالے بیٹھا ہے۔ بازار سے گزر رہا ہے مگر خریدار نہیں ہے۔ سلیم احمد کے نزدیک یہ دریا وقت ہے، زندگی اور موت کے درمیان حدِ فاصل ہے۔
سدھارتھ کے ہیروانہ تصور میں دریا کی معنویت ایک کلید کا درجہ رکھتی ہے۔ بلاشبہ سدھارتھ فلسفیانہ سطح کا ایک علامتی ہیرو ہے جو موجود و ناموجود، زندگی و موت اور حواس و روح کی یکجائی سے انسانی آگہی کے عمل کو تکمیل سے ہمکنار کرتا ہے اور حدودِ وقت کوپھلانگ جاتا ہے۔
ہیروانہ تصور کی تفہیم کے سلسلے میں جیمز جوائس کے ناولوں کا مطالعہ بھی مفید نظر آتا ہے۔ ’’اے پروٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز اے ینگ مین‘‘ کے ہیرو سٹیفن ڈیڈلس کے کردار میں اڑان اور پرواز کی مختلف صورتیں اور تمثالیں ایک موٹف کے طور پر دکھائی دیتی ہیں مثلاًوہ یونیورسٹی کے کتب خانے کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اپنے سر پر اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتا ہے یا پانی میں کھڑے ہو کر محوِ پرواز پرندوں کا مشاہدہ کرتا ہے یا وہ اجنبی لڑکی جس کے سراپے میں اسے ایک انوکھے اور خوش نما پرندے کی شباہت محسوس ہوتی ہے۔ یہ لمحہ ایپی فینی (Epiphany) کا وہ لمحہ ہے جسے جوائس نے روحانی انکشاف سے تعبیر کیا ہے اور جو کسی آواز، اشارے یا خیال کی صورت میں اچانک طلوع ہوتا ہے اور فردکو اس بحران سے نجات دلاتا ہے۔ جس میں وہ ایک عرصے سے مبتلا ہوتا ہے۔ سٹیفن ڈیڈلس ایک آرٹسٹ ہے۔ وہ حسن اور آرٹ کے جوہر کا متلاشی ہے۔ اپنے جمالیاتی نظریے کے مطابق وہ حسن کو صداقت اور صداقت کو حسن کا بدل سمجھتا ہے۔ اس کے فن کا اظہار اس کی اڑان میں ہے مگر اس کا ماحول اور اس کے اطراف کے لوگ اس کی عقابی پرواز پر بندشیں عائد کرنا چاہتے ہیں مگر وہ اپنی روح کو اس جال سے آزاد کرانے کا متمنی ہے جو آئرلینڈ کے باسیوں کا بنا ہوا ہے۔
سٹیفن ڈیڈلس (Stephen Dedalus)کے ہیروانہ تصور میں ڈیڈلس اور اکارس کی یونانی اسطورہ کا عمل دخل صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ڈیڈلس جزیرۂ کریٹ کا باصلاحیت معمار تھا۔ جس نے مینوس بادشاہ کے حکم سے ایک آدم خور عفریت کو قید کرنے کے لیے ایک بھول بھلیاں تیار کی تھی جس میں داخل تو ہوا جا سکتا تھا مگر اس سے فرار ناممکن تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ بادشاہ کی مخالفت کے باعث خود ڈیڈلس کو اپنے بیٹے اکارس کے ہمراہ اس بھول بھلیاں میں محصور ہونا پڑا۔ ڈیڈلس نے اپنے بیٹے پر واضح کیا کہ زمینی اور بحری راستے تو بادشاہ کی نگاہ میں ہیں البتہ فرار کے لیے کھلے آسمان کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ دونوں موم کے مصنوعی پروں کے سہارے جزیرۂ کریٹ سے نکل بھاگے۔ ڈیڈلس نے بیٹے کو ہدایت کی کہ زیادہ اونچا نہ اُڑے ورنہ سورج کی گرمی پروں کو پگھلا دے گی مگر اکارس نے باپ کی حکم عدولی کی اور اپنے جوش میں اوپر ہی اوپر اڑتا چلا گیا۔ نتیجتاً اس کے پر جل گئے اور وہ سمندر میں گر کر ہلاک ہو گیا۔ جوائس نے علامتی طور پر اس اسطورہ کو یوں برتا ہے کہ ڈبلن ایک جدید طرز کی بھول بھلیاں ہے، ایک قید خانہ ہے جس سے سٹیفن کو ہر حال میں فرار ہونا ہے۔ کیتھرین للی گبز (Kitherine Lily Gibbs) کا کہنا ہے کہ سٹیفن کے لیے یہ شہر روحانی طور پر کٹی پھٹی ،گرد آلود اور مفلوج و مقید دنیا کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہٰذا ایک طرف اس کی شناخت اپنے نام یعنی ڈیڈلس کی مناسبت سے ایک صناع یا ایک فنکار کے طور پر قائم ہوتی ہے تو دوسری طرف ڈیڈلس کے بیٹے اکارس (Icarus) کی بدبختی اور بغاوت کے ساتھ بھی ہم رشتہ ہو جاتی ہے۔ سٹیفن ڈیڈلس کی مہم جوئی اپنی فطرت میں ذہانت اور جذبے کے مرکب رنگوں کی زائیدہ ہے۔ لہٰذا یہاں ناول کے ہیرو اور مِتھ کے ہیرو کو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھ کر ماضی اور حال کا تقابل کیا جا سکتا ہے۔
ہیروانہ تصور کے سلسلے میں ٹامس مان کے ’’میجک ماؤنٹین‘‘ کا ہانس کاس ٹورپ (Hans Castorp) بہت اہم ہیرو ہے مگر ’’ڈیتھ ان وینس‘‘(Death In Venice) اور ’’ڈاکٹر فاسٹس‘‘ (Doctor Faustus) کے ہیرو بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ ’’ڈیتھ ان وینس‘‘ کا ہیرو ایشن باخ (Aschenbach) پکی عمر کا ایک فنکار ہے جو وینس میں تعطیلات گزاری کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں ساحل پر وہ ایک نوخیز لڑکے کو دیکھتا ہے، اس کا تعاقب کرتا ہے اور سارا دن فریفتگی کے عالم میں اسے تاکتا رہتا ہے۔ اس کا حسن اسے اس قدر لبھاتا ہے کہ وہ اس کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بالآخر اسی شہر میں ایک وبائی لپیٹ میں آ کر مارا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایشن باخ کی محبت علامتی انداز کی ہے جو نہ صرف زندگی اور جوانی کے حسن و جمال سے محبت کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس ہلاکت اور نرگسیت سے بھی مربوط ہے جو فنکار کی ذات اور اس کے جمالیاتی تجربے میں مستور ہوتی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی نے سال بیلو کے حوالے سے ناباکاف) (Nabokov کی ’’لولیتا‘‘ (Lolita) کے ہیرو کا موازنہ ایشن باخ سے کیا ہے جس سے اس کردار کی فکری جہت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اگرچہ دونوں (ناولوں) میں ایک معمر شخص اپنے سے کم عمر شخص (’لولیتا‘ میں لڑکی اور ’وینس میں موت‘ میں لڑکا)کے لیے غیر معمولی جنسی خواہش سے مغلوب ہو جاتا ہے لیکن ناباکاف کے ہمبرٹ ہمبرٹ کی داخلی زندگی ایک فحش لطیفے کی سطح پر ہے جبکہ مان کے آشن باخ کی ذہنی زندگی نطشہ کے بیان کردہ اپولو اور ڈائیونی سس Dionysus کی روحانی اور کائناتی کشمکش کا اظہار ہے۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سال بیلو کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناباکاف کا مرکزی کردار یونانی صنمیات کی یاد دلاتا ہے جس کا جسم انسان کا ہے لیکن سر اور پاؤں بکرے کے ہیں اور مان کا مرکزی کردار ایک المیہ کردار ہے جو آدم اور ترغیب اور ہبوط کی علامت بن جاتا ہے۔‘‘
لولیتا کے لیے ہمبرٹ (Humbert) کے جذبات میں شہوانیت کا عمل دخل صاف نظر آتا ہے مگر وہ اسے محبت کا نام د یتا ہے ۔وہ ایک ایسا کردار ہے جو اپنے اعمال میں اخلاقیات کے اصول کو خاطر میں نہیں لاتا۔ا یشن باخ کامعاملہ اس سے مختلف ہے ۔وہ جسمانی طور پر بیمار ہے مگر اس کی بیماری روح تک جاتی ہے۔ فنکار کے مقدر کی المناکی کے حوالے سے ایشن باخ کا ایک موازنہ خود ٹامس مان کے ’’ڈاکٹر فاسٹس‘‘ سے بھی بنتا ہے جو سفلس کی بیماری اور پیانو کی سمفنی کے مابین آرٹ اور شر کے رشتۂ باہم کی ایک علامت بن کر ابھرتا ہے۔ ’’میجک ماؤنٹین‘‘ میں بھی بیماری علامتی طور پر اپنے عہد کی فضا سے منطبق ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیوس ممفورڈ نے اسے ’’بیماری کی اڈیسی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس اڈیسی کا ہیرو ہانس کاس ٹورپ بیماری کے حق میں ہے اور اسے روحانی بحران سے نکلنے کا ایک عندیہ سمجھتا ہے۔ سٹیفان شیلٹز کا کہنا ہے:
’’جن اشخاص کے اذہان تازہ کار خیالات سے آباد ہوتے ہیں یا جن کو خدا کائنات کی گتھیاں سلجھانے والا خاص دماغ ودیعت کرتا ہے، انھی کی طرف امراض کے جراثیم بھی خودبہ خود بڑھنے لگتے ہیں۔ ۔‘‘
ہانس کاس ٹوپس جب اپنے عم زاد اور دوست جوشم سے ملنے کے لیے سینی ٹوریم جاتا ہے جو وہاں زیر علاج ہوتا ہے تو بیماری کی ترغیب ایک تخلیقی اور وجدانی ہالہ بن کر اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اسے مریض بن کر سینی ٹوریم کے میکانکی ماحول میں سات برس تک رہنا پڑتا ہے۔ سینی ٹوریم میں وقت ٹھہرا ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر شے اس کی ابدی دنیا میں ڈوبی ہوئی ہے۔ سینی ٹوریم کے اندر علالت سے موت تک کے دلدوز منظر ہیں تو باہر پہاڑوں کا فطری حسن ہے۔ ہانس کاس ٹورپ کے لیے سینی ٹوریم ایک جامعہ ثابت ہوتا ہے۔ اسے مختلف زبانوں، نسلوں اور منفرد مزاجوں کے مریضوں سے متعارف ہونے اور ان کی رنگ برنگی‘ جذبوں، تضادوں، محرومیوں اور ابتلاؤں سے بھری ہوئی گفتگو سننے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے اس کے ذہنی افق میں اخلاقی اور روحانی لحاظ سے کشادگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس پر باور آتا ہے کہ یہ سینی ٹوریم نہیں، بیمار اقدار کا ایک زنداں ہے جس میں انسانی زندگی روحانی توانائی سے محروم ہو کر سسک رہی ہے ا ور فلاکت و ہلاکت کی تصویر بنی ہوئی ہے۔بلاشبہ سینی ٹوریم ایک ایسی کائناتِ اصغر کی تمثیل نظر آتا ہے جس میں یورپ کی مدقوق و مسلول دنیا کا ہر نمائندہ بسترِ علالت پر پڑا ہے اور خون تھوکتے ہوئے زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے مگر اس جنگ کے بیچ ہانس کاس ٹورپ ایک ایسا ہیرو بن کے اُبھرتا ہے جسے بیماری، موت، تقدیر، تہذیب، تاریخ اور زمان و مکان سے جڑے ہوئے سوالات کی تفہیم ایک بے پایاں بلوغت سے ہمکنار کرتی ہے اور وہ ابدیت کے اس احساس کو چھونے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو کسی کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے امریکی ناولوں میں سکاٹ فٹز جیرالڈ کے ناول ’’دی گریٹ گیٹس بی‘‘ کے ہیرو کو روایت اور تخیل کی آمیزش کے اعتبار سے ناقابلِ فراموش حیثیت دی جاتی ہے۔ گیٹس بی (Gatsby) ایک المیہ ہیرو ہے جو مختلف ذرائع سے بہت سی دولت اکٹھی کر لیتا ہے تو اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے ہر ہفتے ایک پُرتعیش تقریب کا اہتمام کرتا ہے جس سے اسے کافی شہرت مل جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ امراء اس کی پارٹیوں میں تو شریک ہوتے ہیں مگر اسے ایک مضحک کردار جان کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے خوابوں کا مرکز اونچے درجے کی ایک شادی شدہ خاتون ڈیزی بوکانن ہے جسے وہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود اس کی محبوبہ کا طبقہ اسے قبول نہیں کرتا۔ وہ اس طبقے کی سماجیات اور اس کی رازداریوں کو سمجھنے اور انہیں بروئے کار لانے کی کوئی ایسی کوشش نہیں کرتاجو اس طبقے میں اس کے لیے جگہ پیدا کرسکے۔ جس طریقۂ کار کے ساتھ وہ معاشرے سے الجھتا ہے اس میں معاشرہ فہمی کا کوئی شعور دکھائی نہیں دیتا ۔گیٹس بی کی موت بھی بڑے درد ناک حالات میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اسے ایک موٹر خانے کا مالک اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے جب وہ تالاب میں غسل کر رہا ہوتا ہے۔ پانی کے اندر گیٹس بی کی موت ایک علامتی انداز بھی رکھتی ہے۔ دھیان فوراً ٹی ایس ایلیٹ کی نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ کے ایک حصے ’’ڈیتھ بائی واٹر‘‘کی طرف جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے جنازے پر بارش کے برسنے میں رمز یہ ہے کہ اس کا وجود آنسوؤں سے دھل کر پاک ہو گیا ہے۔ عیسوی سماج میں پانی اپنے تطہیری وصف یعنی بتسمہ دینے کے حوالے سے ایک مذہبی جہت بھی لیے ہوئے ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ صرف تین آدمی گیٹس بی کے تابوت کو کندھا دینے کے لیے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس کا مقدر بڈھے گوریو جیسا ہے۔ ناول کا بیان کار اس کے جنازے میں شرکت کے لیے کئی لوگوں کو خط لکھتا ہے مگر کوئی بھی اس کی موت کو اہمیت نہیں دیتا۔گیٹس بی کی المناک تباہی سے باور آتا ہے کہ جو لوگ خالصتاً مادی اقدار کی اساس پر مثالیت کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں بالآخر انھیں اسی مغالطے اور واہمے کے باعث سزا ملتی ہے۔ گیٹس بی کو بھی اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اپنے آئیڈیل یا الوژن کو دولت کی جمع آوری سے پورا کرنے کے حوالے سے گیٹس بی ایسا ہیرو ہے جسے علامتی طور پر ’’ایک مکمل امریکی تجربہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
گیٹس بی کو امریکی خواب پر ایک تنقید بھی قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ تک کہا گیا ہے کہ وہ بذاتِ خود امریکہ ہے۔ گیٹس بی کے اپنے خواب اور امریکہ یا امریکیت کے روایتی خواب میں خاصہ فرق ہے۔ امریکی خواب دولت اور جوانی میں نمو پاتا ہے جبکہ گیٹس بی کا اپنا خواب ڈیزی بوکانن(Daisy Buchanan) کی تمنا کی حتمیت سے مشروط ہے۔ یہ حسن اور معصومیت سے آمیز ایک تجریدی خواب ہے۔ مائتھالوجی کے نظام میں عورت منتہائے آگہی پر مبنی اس کلیت کی نمائندگی کرتی ہے جس کے لیے ہیرو سفر اختیار کرتا ہے۔ جوزف کیمپ بل نے لکھا ہے کہ عورت دیو مالائی ہیرو کی حواسی یا اخلاقی مہم کو ترفع دینے کے لیے ایک مددگار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے واضح ہوتا ہے کہ دیو مالائی ہیرو کی تلاش کا حاصل عورت کی محبت ہے۔ بطور ایک متلاشی یعنی Quester کے گیٹس بی کا دیو مالائی آئیڈیل بھی یہی عورت ہے۔ گیٹس بی کا سفر اپنے ابتدائی مرحلے ہی سے اسطوری ہیرو کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور موت تک اپنی مثالی و ماورائی کیفیت کو برقرار رکھتا ہے۔ تاآنکہ اس کا کردار انسان اور دیوتا کی مرکب سطح پر نظر آنے لگتا ہے۔ اسی باعث گیٹس بی کو اپنی نوع کا ایک کلچر ہیرو بھی کہا گیا ہے اور ایک نیا معاشرتی کردار بھی۔
مغربی ناول میں ہیرو کی بحث میں برطانوی ہیرو ڈی ایچ لارنس کے ناول اس لیے اہم ہیں کہ ان کے ہیرو انسانی روابط میں اپنی بشریت اور سا لمیت کا اظہار فطری شعور کے ساتھ کرتے ہیں۔ ’’لیڈی چیٹر لیز لور‘‘ میں کونی چیٹرلے کا عاشق اولیور میلرس (Oliver Mellors) ایسا ہی ہیرو ہے جسے لارنس نے اپنے تصورِ انسان کے مطابق خون کی عمیق ترین ہستی اور تسلسلِ حیات کو جنم دینے والی ایک برہنہ ذات کے طور پر پیش کیا ہے۔ پوشیدہ تعلقات کی تہوں کو کھولنے کے باعث لارنس کے تصورِ انسان پر سخت تنقید کی جاتی ہے اور اسے Dark Gods کے مسیحا کا لقب دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ لارنس فرد کو روزمرہ کے مہلک اور مریضانہ ماحول سے نکال کر اس کی شفا بخشی کا اہتمام کرنا چاہتا تھا۔ میلرس اسی تصور کی نمائندگی کرتا ہے۔ خودلارنس کے نزدیک میلرس ’’اس فطری آدمی کا نمونہ ہے جسے وہ زندگی میں چلتے پھرتے دیکھنا چاہتا تھا‘‘۔
میلرس ایسا ہیرو ہے جو جذبات و احساسات کے اس قدیمی شعلے کو بجھنے نہیں دیتا جو خلقی طور پر انسان کے بطون میں موجود ہوتا ہے۔ ہر چند کہ میلرس کا تعلق مزدور طبقے سے ہے اور وہ صنعتی نظام کے استحصال کی پریشانیوں سے الگ نہیں مگر وہ ایسا آدمی ہے جس نے بڑی حد تک معاشرے کے مصنوعی، فراری اور تجریدی دباؤ سے آزادی حاصل کر لی ہے۔میلرس اور کونی کے معاشقے سے باور آتا ہے کہ لارنس جنسی وظیفے سے زندگی کی توقیر و تحسین میں اضافے کا خواہاں تھا۔ وہ جنس اور حسن کو ایک مربوط اکائی میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر محمد یاسین کے بقول وہ اس کثیف پردے کو ہٹانا چاہتا تھا جو عورت اور مرد کے معصوم تعلق پر پڑا رہتا ہے۔ لارنس جانتا تھا کہ انسانی جسم کی ساخت میں تغیر نہیں آ سکتا لہٰذا جسم اپنے لمس میں کبھی فریب دہی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔یہی وہ فہم تھا جس کی بنا پر وہ ذہن کی بہ نسبت جسم کی اصلیت کو ترجیح دیتا تھا اور اس کے فطری بہاؤ کو تسلیم کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ’’ذہن غلط راہوں پر جا سکتے ہیں مگر خون ہمیشہ سچ بولتا ہے‘‘۔ اس نظریے کی رو سے صاف نظر آتا ہے کہ کلیفورڈ ذی حس جسم ہونے کے بجائے محض ایک تاجرانہ دماغ ہے جو کھوکھلی برتری کے کوڑھ میں مبتلا ہے جبکہ میلرس اشرافیہ کی نظر میں نچلے طبقے کا ’’غیر مہذب آدمی‘‘ اور ’’بدی کا مظہر‘‘ ہو کر بھی زندگی کی امنگوں اور توانائیوں سے مالامال ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ وکٹورین اخلاقیات کی بنجر اور بانجھ فضا میں نمو کا سرچشمہ اور جسم کی پُر اسرار دنیاؤں کا اعلامیہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ لارنس کو ایسے ہی جبلی سطح کے ہیرو کی جستجو تھی۔ مظفر علی سیّدکا کہنا ہے کہ لارنس کو اپنے دور میں کسی زبردست ہیرو کی تلاش تھی اور ناول اس کشمکش کا اور اس کشمکش کے المیے کا اظہار نہ کرے تو اسے پسند ہی نہیں آتا تھا۔ میلرس ان معنوں میں حسیاتی ہیرو ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے مرض سے آگاہ ہے اور زندگی کی اصل خوشی کی طرف لوٹنے کا منتظر ہے۔