مغربی ناول کا ہیرو، حصہ دوم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
جین آسٹن کے ناول ’’پرائڈ اینڈ پریجوڈس‘‘ میں یہ نظریہ مرکزی حیثیت کا حامل ہے کہ محبت اگرچہ ایک فوری جذبہ ہے مگر تدریج کا عمل اس میں استواری لاتا ہے۔ ناول کا ہیرو فٹزولیم ڈارسی (Fitzwilliam Darcy) اسی نظریے کا کرداری روپ ہے۔ ابتدا میں وہ اپنے رویّے کی رعونت اور ناموافقت کے سبب بالکل ولن نظر آتاہے۔ ریاستی منصب کا غرور اور معاشرتی برتری کا تفاخر اس منفی تأثر کو اور بھی تقویت دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ طیش انگیز اور قابلِ نفرت کردار کے طور پر ابھرتا ہے مگر اپنے تشخص ومقدر میں پنہاں بعض عمدہ صفات کے سبب وہ سزا کا مستحق نہیں گردانا جاتا۔ ناول کے الفاظ میں اس کا کردار طے شدہ تھامگر الزبتھ سے اظہار محبت کے بعد اس کی شخصیت میں تبدیلی کے آثار ہویدا ہونے لگتے ہیں، دھیرے دھیرے اس کی رائے میں پختگی‘ انداز میں رواداری، عمل میں ہمت اور ذات میں حساسیت آ جاتی ہے اور واقعی وہ قدرتی طریقے پر ارتقا کر کے ایک بہتر انسان بن جاتا ہے۔ اس حد تک بہتر بلکہ خود آگاہ انسان کہ دوسروں کے عیوب سے درگزر کر کے ان سے مطابقت پیدا کر سکے ۔ ڈارسی کے ہیروانہ تصوّ ر پر غور کریں تو اس مطابقت کے پیچھے اصلاحی تقابل کا پورا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈارسی کی کایا کلپ کا اثرایلزبتھ پر بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے تعصّب سے جان چھڑا لیتی ہے۔گویا دو طبقے مثبت تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
حسن و عشق کے روایتی تصوّر کو توڑنے کے حوالے سے ’’جین آئر‘‘ کا ہیرو روچسٹر(Rochester) بھی قابلِ توجہ ہے۔ شارلٹ برونٹے کے عہد اور اس عہد کے ناولوں میں جنسی کشش اور رومانی جوش کو خوبصورتی صحت مندی اور نوجوانی سے مشروط سمجھا جاتا تھا لیکن شارلٹ نے اپنے ناول کے ہیرو اور ہیروئن کو ولن کے مقابلے میں ان اوصاف سے محروم رکھا اور ایک اعصابی تناؤ کی فضا میں یہ دکھایا کہ محبت ان اوصاف کے بغیر بھی طوفانی ہو سکتی ہے۔ محبت پروان چڑھے یا نہ چڑھے، اصل چیز جذباتی لگاؤ ہوتا ہے جو دو پریمیوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے۔ جین آئر روچسٹر کے گھر کی گورنس ہے۔ ناک نقشے اور چہرے مہرے کے اعتبار سے اسے خوبصورت نہیں کہا جا سکتا۔ یہی حال روچسٹر کا ہے، اس کی بیوی پاگل ہے جس کے آسیبی قہقہے تھارن فیلڈ کی بالائی منزل میں گونجتے رہتے ہیں اور اس باعث روچسٹرکے گرد اسرار کا ایک ہالہ تنہا رہتا ہے۔ روچسٹر ہیروئن سے بیس برس بڑا ہے۔ یوں سمجھئے کہ اس کے باپ کی عمر کا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خوش شکل ولن کی طرف سے شادی کا پیغام ملنے کے باوجود ہیروئن اسی کی طرف ملتفت رہتی ہے۔ جے ایم لائبر (J.M.Lyber) کے بقول یہی التفات روچسٹر کی متمرد اور خود سر فطرت میں نرمی لاتا ہے جس کے سبب وہ خود کو پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
’’ود رنگ ہائٹس‘‘ میں ایملی برونٹے نے ایک ولن نما ہیرو کا تصور پیش کیا ہے جسے ماحول کی کربناکی اور عشق کی بلاخیزی انسان کے قدری منصب سے معزول کر کے حیوانوں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ مادی تصرفات حاصل کر لینے کے باوجود جب اس شقی القلب سورما کی محرومیوں کا دکھ زائل نہیں ہوتا تو نیم دیوانگی کے عالم میں موت ہی اس کا علاج قرار پاتی ہے۔
ہیتھ کلف (Heathcliff) کی زندگی کا آغاز لیور پول کی گلیوں میں بھٹکنے والے ایک بے خانماں یتیم بچے کے طور پر ہوتا ہے۔ جب ایملی نے ۱۸۴۰ء میں یہ ناول لکھا تو انگلستان کی معیشت ایک بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ لیور پول جیسے صنعتی علاقے میں فیکٹری ورکروں کی حالت خاصی ہولناک ہو چکی تھی جس نے بالائی طبقے کو خوفزدہ کر دیا تھا لہٰذا وہ فیکٹری ورکروں میں ہمدردی اور خوف کے ملے جلے جذبات ابھار کر ان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس زمانے کے فکشن ہی نہیں، سارے ادب میں دھویں سے گھرے ہوئے فیکٹری قصبات کا منظر عام تھا جسے جہنم کی مذہبی اصطلاح کے تقابل میں پیش کیا جاتا تھا۔ مشہور شاعر ولیم بلیک (William Blake) نے اسے ’’تاریک شیطانی ملوں‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ہیتھ کلف کی پہچان ناول کے دیگر کرداروں کے بیچ ایک خبیث روح، آسیبی ہستی یا ابلیسی عفریت کے طور پر بھی ممکن ہو جاتی ہے اور ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) کے بقول ہیتھ کلف واقعی اس اعصابی تشنج کی تجسیم نظر آتا ہے جو بالائی طبقے کے لوگوں میں مزدوروں اور ملازموں کے لیے ہوتا ہے ۔
ہیتھ کلف کے ساتھ ہماری ہمدردی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک وہ ایک کمزور اور محکوم بچے کے طور پر نظر آتا ہے لیکن جب وہ ولن بن جاتا ہے‘ اسے طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ بے پناہ دولت کے ساتھ ایک مہذب اور شریف آدمی کا بہروپ بھر کر ود رنگ ہائٹس لوٹتا ہے تو اس کے کردار میں ایسی ہی ذو گرفتگی آ جاتی ہے جو بالائی طبقہ انتہائے غربت پر زندہ رہنے والے نچلے طبقے کے افراد کے لیے محسوس کرتا ہے اور ایک خیراتی تحریک کے ساتھ ان کی طرف ملتفت ہوتا ہے لیکن اسے یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ ذرا سی خوشحالی پا کر کہیں یہ لوگ سیاسی، سماجی یا معاشی طاقت ہی نہ حاصل کر لیں اور اپنے ہولناک حالات پر قابوہی نہ پا لیں۔ بہرکیف ہیتھ کلف اپنے ہیروانہ تصور کے اعتبار سے دکھ، انتقام اور دیوانگی کا مجموعہ نظر آتا ہے۔
’’دی گریٹ ایکس پکٹیشن‘‘ کا ہیرو اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے عملی اقدام کے ذریعے خود اصلاحی کی ممکنہ صورتوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔ پہلی صورت اخلاقی سطح پر خود اصلاحی کی ہے۔ جب پپ اپنی ذات میں کجیاں اور کمیاں دیکھتا ہے اور غیر اخلاقی حرکات اسے احساس جرم میں مبتلا کر دیتی ہیں تو وہ بہتر عمل کی طرف راغب ہونے کے لیے خود پر خارجی طور پر سختی کرتا ہے۔ دوسری صورت معاشرتی اصلاح کی ہے، اسٹیلا کے ساتھ رشتۂ محبت جوڑ کر وہ اشرافیہ کا رُکن بننے کی تمنا کرتا ہے۔ تیسری صورت تعلیمی سطح پر خود اصلاحی کی ہے۔ جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ناخواندہ ہے تو لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ خواہش اس کی معاشرتی ترقی کی ترغیب ہی سے جڑی ہوئی ہے۔
اسٹیلا سے شادی کر کے مہذب آدمی یعنی جنٹل مین بننے کے لیے تعلیم کا حصول ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ’’ڈیوڈ کوپر فیلڈ‘‘ کے ہیرو کی طرح پپ کا نظر اندازہ شدہ بچپن ٹھوکروں، سزاؤں اور تلخیوں کا اندوہناک نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ cash nexus تھی ۔وہ جنگ زرگری یا چوہا دوڑ جسے ڈکنز تمام برائیوں کی جڑ سمجھتا تھا۔پپ ایک ایسا ہیرو ہے جو اپنی لاپروائی، پسماندگی اور بداخلاقی کو فہم میں لا کر خود کو بدلنا چاہتا ہے۔ غور کریں تو اس حوالے سے پپ کی مسابقتی یا اصلاحی جدوجہد سمجھ میں آتی ہے۔ خود اصلاحی کی اس مثالی جدوجہد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی اور تعلیمی اصلاح آدمی کی حقیقی قابلیت کے لیے ایک غیر متعلقہ چیز ہے۔ کامیابی کے لیے فرد کا جذباتی ادراک اور قلبی التفات ہی کام آتا ہے جو اس کے عمل اور نیت کی اخلاقی حیثیت پر فیصلہ صادر کرتا ہے۔ پپ جان جاتا ہے کہ معاشرتی ترقی، دولت اور طبقاتی رتبے کے مقابلے میں صاحبِ احساس ہونا زیادہ بہتر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ پوری طرح ’’جنٹل مین‘‘ بن جاتا ہے تو دوستوں کے لیے اس کے رویے میں سرد مہری آ جاتی ہے۔ بہرحال وہ ایک ایسا ہیرو ہے جسے انگریزی سماج کے بحرانی دور میں خود اصلاحانہ شعور کا مرقع کہا جا سکتا ہے۔ تھیکرے اورتھامس ہارڈی کے ہیروبھی اس بحرانی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
تھامس ہارڈی کے نظریات میں انسان کی بربادی ایک مسلمہ اصول کا درجہ رکھتی ہے جسے انسان کے مقدر اور ماحول سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہارڈی کی حساس اور حزنیہ طبیعت اسے اور بھی محکم کرتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو ہارڈی کا ہیروانہ تصور قنوطیت، تقدیر پرستی اور حالات کے آمیزے سے پھوٹتا ہے اور سماج میں فرد کی کشمکش کا اعلامیہ بن جاتا ہے۔ ہارڈی کے ہیرو کا بنیادی قضیہ محبت ہے جو انسان کی جذباتی و جبلی ضرورت ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو انسان کی زندگی میں مفہوم پیدا کرتا ہے اور اثبات وجود اور بقائے ذات کی ضمانت دیتا ہے۔ اس رخ سے دیکھیں تو ہارڈی کا ہیرو بقائے ذات کے ان تقاضوں کی پروا نہیں کرتا جو زندگی کی ثروت مندیوں اور کامیابیوں سے منسلک ہوتے ہیں مگر وہ تقاضے جو اجتماعیت کے دائرے میں فرد کو سماج کے رسمی قوانین اور ریاست کی مقتدرہ کا پابند بناتے ہیں اور اس کی فطری و انفرادی خواہشات کو دباتے ہیں،ہارڈی کا ہیرو ان سے نباہ نہیں کر پاتا اور اس دائرے کو توڑ کر باہر نکلنے کی کوشش میں رنج اٹھاتا ہے۔ خود کو غلط یا صحیح سمجھنے کی کشمکش میں موت کی تمنا کرتا ہے یا مارا جاتا ہے۔ ایسی موت یا موت کی ایسی تمنا میں ڈی ایچ لارنس کو اخلاق حیات کا وہ عظیم اور ناقابل تسخیر دباؤ نظر نہیں آتا جس کے سامنے ایڈی پس، ہیملٹ اور میکبتھ ڈٹ گئے اور مارے گئے جبکہ ہارڈی کا ہیرو مغلوب ہو جاتا ہے۔ہنچرڈ اور جوڈاس مغلوبیت کی نمایاں مثال ہیں۔ جوڈ ایک dreamer ہے مگر اس کے خواب اسے کچھ نہیں دے پاتے۔ رسوم و رواج اور رائے عامہ کی دیواریں ان کی تعبیر میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور اس کی خوشیوں کو ملیامیٹ کر دیتی ہیں۔ جوڈ ہارڈی کی اپنی ہی شخصیت کا ایک عکس ہے۔ وہ ایک ایسا ہیرو ہے جو مکمل طور پر non-confirmist ہے اور نہ ہی confirmist۔ بغاوت اوراطاعت کے بیچ اس کی ہستی کہیں جھول رہی ہے۔ کنفرمسٹ ہیرو عام طور پر معاشرے کے مروجہ قوانین کے مطابق سوچتا ہے جبکہ نان کنفرمسٹ ہیرو ان قوانین کی پروا نہیں کرتا۔ بنیادی طور پر ہارڈی کا ہیرو رومانی ہے اور سپیوی (Spevy) کے مطابق اس کا المیہ ہے کہ وہ کسی بلند ترین روحانی حالت کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔شیکسپیئر اور ہارڈی کے ہیروانہ تصور میں فرق یہ ہے کہ ایک کے ہاں ہیرو کا المیہ fatal flaw یعنی کسی مہلک خامی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے ہاں بحرانی حالات میں ہیرو کی اپنی ہی ذاتی منشا المیے کا سبب بنتی ہے۔
’’ہارٹ آف ڈارک نس‘‘ کو جوزف کانریڈ کا اہم ترین ناول سمجھا جاتا ہے تاہم لارڈ جم کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ہیرو جم کی خواہش ہی ہیرو بننے کی ہے۔ جوز ف کانریڈکسی گمراہ کن بشارت کا قائل نہیں تھا جو انسانی فطرت کو کھولنے کے بجائے اس سے اغماض برتنے کا پیش خیمہ بن جاتی، لہٰذا وہ اعلیٰ اقدار میں ایمان رکھنے کے باوجود دل کی تاریک ترین حقیقتوں یا تاریک ترین حقیقتوں کے دل تک رسائی پانے کا آرزو مند تھا۔ اس آرزو کا شاخسانہ تھا کہ اس کے ناول ’’ہارٹ آف ڈارک نس‘‘ کا کبیری کردار کرٹز یورپ کی سامراجی زندگی اور اخلاق باختگی کی علامت بن گیا۔
کرٹز (Kurtz) ایسا آرکی ٹائپل ہیرو ہے جو تشدد کے خبط میں مبتلا ہے۔ اسے اپنی سفاک منصوبہ بندیوں کی بنا پر نابغۂ شر بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر گوئٹے کے فاؤسٹ، ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ‘کے شیطان، موبی ڈک کے اہاب اور ودرنگ ہائٹس کے ہیتھ کلف جیسی ہستیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ خاص طور پر متناقضانہ رنگ میں شیطان کے ساتھ اس کی نسلی قرابت داری کا موازنہ کیا جاتا ہے۔
پھر جوزف کانریڈ کا اسلوب جس طرح بدی کی توثیق کرتا ہے اس سے کرٹز کا شکُوہ اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ دراصل کرٹز اچھائی یا برائی کے تصور سے زیادہ جنگل کے اس قانون پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ ہلاک کر دو یا ہلاک ہو جاؤ۔تاہم کرٹز کے کردار میں کچھ خوبیاں بھی ہیں۔ اسے موسیقی اور مصوری کا خداداد ملکہ حاصل ہے۔ اس کی فصیح البیانی اور کرشماتی اہلیت لوگوں پر بے انتہا اثر ڈالتی ہے اور انھیں اپنا تابع بنا لیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ مارلو تک کے لیے ایک چیستان بنا رہتا ہے۔ اس کے زوال میں بھی خود اس کی مرضی شامل ہوتی ہے جس کے تحت وہ حاکمیت کے ان ریاکارانہ طریقوں کو نظر انداز کر دیتا ہے جن پر یورپ کا نوآبادیاتی نظام ٹکا ہوا تھا۔ کرٹز بعض مقامی لوگوں سے برادرانہ تعلقات قائم کر لیتا ہے گو کہ اس طرح اسے بے پناہ کامیابی حاصل ہوتی ہے مگریہی بات اس کو اپنے ہی سفید فام ساتھی حاکموں کو طیش دلانے کا سبب بن جاتی ہے اور اسے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔
’’ہارٹ آف ڈارک نس‘‘ کے حوالے سے جب ہیرو کی بحث ہوتی ہے تو مارلو کو protagonist کا درجہ دیا جاتا ہے اور کرٹز کو antagonist کا‘ اور وجہ بتائی جاتی ہے کہ مارلو مقامی آبادی کی پُرتشدد و غلامانہ اور موت نما زندگی کو ایک فلسفی کی متشککانہ نظر سے دیکھتا ہے اور چونکہ وہ ناول کا فصیح البیان راوی بھی ہے جوزف کانریڈ کی دیگر تصانیف میں ظاہر ہونے کی وجہ سے شاید مصنف کی روح کا قائم مقام یا surrogate بھی، اس لیے قارئین کرٹز کے بجائے اس کے وجود میں اپنی شناخت پانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ ہر چند کہ اس کی مہمات کے عقب میں امپیریلزم کو بطور ایک پراجیکٹ کے درست ثابت کرنے کا موروثی تعصب بھی پایا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کرٹز اپنے تشدد و تمرد میں اتنا ایماندار ہے کہ صاف صاف بتاتا ہے کہ اس کا مقصد تجارت کرنا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں مقامی باشندوں پر زبردستی کر کے ہاتھی دانت حاصل کرنا ہے، پھر بھی مارلو کے مشاہدات و تجربات میں امریکی دنیا کی اتنی بھیانک تصویر ضرور آ جاتی ہے جو سفید فاموں کی سامراجی ذہنیت کو کافی حد تک آشکار کر دیتی ہے۔
وہ نقاد جو مہم برائے مہم کے بجائے مہم برائے ذہن کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مارلو کرٹز پر فوقیت حاصل کر جاتا ہے۔ اس حوالے سے لارڈ جم کو بھی ہیرو نہیں مانا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس کہانی کو تفہیم میں لانے کی صلاحیت ہی سے معذور تھا جس میں وہ بذات خود مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ ایف آر لیوس نے بھی اپنی مشہور کتاب ’’دی گریٹ ٹریڈیشن‘‘ (The Great Tradition) میں جوزف کانریڈ کو انگریزی ناول کی عظیم روایت کا ستون قرار دینے کے باوجود لارڈ جم کو تسلیم نہیں کیا۔
استاں دال نے ’’ریڈ اینڈ بلیک‘‘ میں ایسے ہیرو کا تصور پیش کیا جو فوج اورکلیسا کی اقتداری خواہش کے مابین فرانسیسی معاشرے میں ترقی کرنے کا خواب دیکھتا ہے اور اس راہ میں اپنی محبوباؤں، اپنے محسنوں حتیٰ کہ اپنے مذہب تک کو مرتبے کے حصول کا ایک زینہ خیال کرتا ہے۔ نپولین ژولیاں سوریل (Julien Sorel) کا ہیرو ہے جس کی ذہنی اقتدا اس کو ارادے کا دھنی بناتی ہے اور حقیقی جذبات کو چھپانے میں مدد دیتی ہے۔ وہی عسکری طریقے اور جنگی فارمولے جو نپولین نے اقتدار کے حصول کے لیے اپنائے تھے ژولیاں عورتوں کو جنسی ترغیب میں پھانسنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔