بڑا ادب کون سا ہوتا ہے؟
از، یاسر جواد
کسی کی نقاّلی میں میں کچھ مثالیں پیش کروں گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ فرض کیجیے پہلا شخص آپ سے کہتا ہے:
’’ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟‘‘
اور کوئی دوسرا کہتا ہے:
’’بادل اور ہوا کیا چیز ہیں؟‘‘
یا آپ پہلے شخص کو کہتے ہوئے سنتے ہیں:
’’اُسے ایک صبح کو بنا جرم گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘‘ اور کوئی دوسرا کہتا ہے:
’’ایک صبح کو اُسے خواہ مخواہ حراست میں لے لیا گیا۔‘‘
یا ’’میں دِلّی کی طرف اُسی طرح واپس آتا ہوں جیسے غیر ممالک میں رنڈی بازی…۔‘‘
اور کوئی دوسرا کہتا ہے، ’’میں اپنے شہر میں واپس آتا ہوں تو یوں لگتا ہے…۔‘‘
آپ کو پتا چل جائے گا کہ پہلے شخص نے بِالتَّرتیب غالب کا مصرع پڑھا، یا کافکا کے ناول کی پہلی لائن بولی، یا خوش ونت سنگھ کے ناول دِلی کی پہلی لائن دُہرائی۔ آپ مڑ کر دیکھتے ہیں کہ یہ کون ہے ادبی ذوق والا؟
الفاظ کی ایک خاص ترتیب، روزمرہ سے اجنبی بنائی گئی ترتیب، آپ کو اُس کے ادبی ہونے کا احساس دلاتی ہے؟ اگر آپ کو غالب یا کافکا یا خوش ونت سنگھ سے کوئی تعارف نہیں تو ابر کیا چیز ہے پر آپ چون٘کیں گے نہیں۔
سو زبان کا اجنبی ترتیب میں پیش کیا جانا ادبی پن قرار پاتا ہے؟
پہلے کچھ چیزیں ادب نہیں تھیں، لیکن اب بن گئی ہیں۔ اِس میں آپ کا نسلی تعصّب بھی کام دکھاتا ہے، اور تفسیر کرنے کے رجحانات بھی۔ کیا میرا بائی اور کبیر کے دوہے پانچ چھ سو سال پہلے ’’ادب‘‘ تھے؟ شیکسپیئر اپنے دور میں بھی ایک عظیم ڈرامہ نگار تھے؟ سعدی نے ’’ادب‘‘ تخلیق کیا؟ مکان کا کرایہ دینے کے لیے ناول کی قسطیں جلدی جلدی لکھ کر دینے والے دستوئیفسکی ’’عظیم ادب‘‘ تخلیق کر رہا تھے؟
اگر فارسی زبان طویل عرصے تک ہندوستانیوں پر راج نہ کرتی تو کیا تب بھی سعدی ہمارے لیے بہت بڑے ادیب ہوتے؟ دو چار لوگ نہ ہوتے تو شاید کامیو، سارتر اور کافکا سے متعارف ہونے میں ہمیں مزید کچھ عشرے لگ جاتے۔ یہی معاملہ میلان کنڈیرا اور گابریئل گارشیا کا ہے۔
میں اپنے مطالَعے کی بنیاد پر چند ایک باتیں کہہ سکتا ہو جو بڑے ادب کو بڑا یا محض ادب بھی بناتی ہیں۔ اس میں آپ کی اور ہماری ریاست، لسانی ترجیحات اور نسلی عوامل کا بھی بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر اردو، پاکستان کی سرکاری زبان نہ ہوتی تو کئی چاند تھے سرِ آسمان بجھے ہوئے ملتے۔ اس کی بَہ جائے نین سکھ جیسے پنجابی ادیبوں کو زیادہ وقعت ملتی۔ سکھ مذہبی بنیادوں پر گوربانی کو وقعت نہ دیتے اور عجیب و غریب کلام کی نت نئی تفاسیر نہ کرتے تو گورو نانک اور بابا فرید کہاں جاتے؟
مجھے لگتا ہے کہ بہ طورِ انسان ہماری ترجیحات اور اَقدار ادب کے تعیُّن میں بہت کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن بڑا ادب غالباً وہ ہے جو آپ کے سوچے ہوئے رویوں کو چیلنج کرے، ادھیڑے، آپ میں بے ک٘لی اور بے چینی پیدا کرے، بہ قولِ کافکا، ’’آپ کے اندر منجمد سمندر پر کلھاڑے‘‘ جیسا کام کرے۔ بشریٰ رحمان اور اشفاق احمد اور مستنصر حسین تارڑ اس لیے بڑے لکھاری نہیں کیوں کہ وہ آپ کی توثیق کرتے ہیں، چیلنج نہیں۔
یہ خیالات خوش ونت کے ناول دلی کا ترجمہ کرنے کے دوران بار بار آتے رہے، سوچا شیئر کروں اور دعوتِ فکر دوں۔
پسِ تحریر: ترجمے کے بَہ غیر کوئی ادب، بڑا ادب نہیں بنتا، خواہ وہ ترجمہ کتنا ہی خراب ہو۔