وٹس ایپ پر پیغامات کا کھوج لگانا ممکن؟
(بی بی سی اردو)
وٹس ایپ اپلیکیشن صارفین کو پیغام، آڈیو اور ویڈیو کالز بھیجنے کے علاوہ، تصاویر، ویڈیوز اور اپنی لوکیشن دکھانے کی اجازت دیتی ہے۔
حال ہی میں وٹس ایپ نے اپنے پیغامات کی اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن کرنا شروع کر دی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی تیسری پارٹی دو لوگوں کے درمیان بھیجے جانے والے پیغامات کو پڑھ نہیں سکتی۔
وٹس ایپ نے کہا ہے: ‘جب آپ کا پیغام اینڈ ٹو اینڈ انسكرپٹ ہوتا ہے تو آپ کے پیغامات، تصاویر، ویڈیوز، وائس میسیجز، ڈاکیومنٹس، سٹیٹس اپ ڈیٹ اور کال غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ جاتی ہے۔
‘وٹس ایپ کے اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سے آپ اور آپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں، صرف وہی بات چیت کر پائیں گے، دوسروں کوئی نہیں، وٹس ایپ بھی نہیں۔’
‘آپ کا پیغام ایک تالے کی مدد سے محفوظ ہے، صرف آپ اور آپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں، ان کے پاس اس تالے کو کھولنے اور پیغام پڑھنے کی خصوصی چابی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تحفظ کے لیے ہر بھیجے جانے والے پیغام کے لیے مختلف تالے اور چابیاں ہوتی ہیں۔’
ایسی صورت میں جب کوئی غلط اکسانے والا پیغام یا ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے جسے روکا جانا چاہیے کیا یہ کھوج لگانا ممکن ہے کہ اس ویڈیو یا پیغام کو سب سے پہلے وٹس ایپ میں کس نے ڈالا، اس کا ذریعہ کیا تھا؟
فیس بک کے ایک ترجمان نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پتہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ کسی ویڈیو کو کس نے اور کہاں سب سے پہلے وٹس ایپ میں ڈالا۔
وجہ ظاہر ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا سرور کو بچا کر نہیں رکھتی۔
کمپیوٹر ہیکر رضوان شیخ کو بھی کمپنی کی بات پر یقین ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر سکیورٹی ایجنسیاں چاہیں تو وہ یہ سراغ لگا سکتی ہیں کہ میسج کس کس موبائل پر گیا اور اسے آگے فارورڈ کیا گیا، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ ہر بار ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘ایک پیغام وٹس ایپ اپلیکیشن پر چند گھنٹوں میں وائرل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ پیغام کو پھیلنے سے روکنا چاہتے ہیں یا تلاش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا، تو ایسا کرنے کے لیے ابتدائی گھنٹے میں ہی کارروائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔’
وٹس ایپ نے زبان کی حدیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ ویڈیو گرافکس کے ذریعے پیغام تیزی سے پھیل جاتے ہیں۔
سنہ 2015 میں خبر آئی کہ انڈین ایئر فورس کا ایک طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ پولیس نے چترکوٹ کے ارد گرد کے دس کلو میٹر کے حصے کو چھان مارا لیکن کچھ نہیں چلا. تب پولیس کو شک ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔
چترکوٹ کے اس وقت کے ایس پی پون کمار نے بتایا کہ یہ بات وٹس ایپ میں ایک تصویر کی وجہ سے پھیلی۔
مقامی صحافی ضمیر اگروال کہتے ہیں کہ خبر کرنے کی جلدی کی وجہ سے کسی نے بھی اس کے درست ہونے کی تفتیش نہیں کی۔
کمار بتاتے ہیں کہ یہ تصویر دراصل مدھیہ پردیش سے آئی تھی۔
ایک اور صحافی، جس نے اس حوالے سے خبر چلائی، کے مطابق یہ تصویر راجستھان سے آئی تھی۔
ایسی صورت میں یہ معلوم کرنا كي کسی تصویر یا ویڈیو کی اصل کہاں سے ہوئی، انتہائی مشکل ہے۔
سینٹر آف انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کے سنیل ابراہیم کے پاس وٹس ایپ سے منسلک کچھ سوالات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان تو اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سب سے بہتر کام کرتا ہے لیکن گروپ بات چیت میں کیا ہوتا ہے؟
‘دو فریقوں کے درمیان اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن سب سے بہتر کام کرتا ہے تاہم ایک گروپ میں ایک پیغام کو کئی اطراف بھیجا جاتا ہے۔ مجھے یہ یقین کرنے میں پریشانی ہے کہ ایک پیغام کو جب 100 ارکان پر مشتمل گروپ میں بھیجا جاتا ہے تو وہ پیغام 100 بار خفیہ ہوتا ہے اور پھر گروپ کے ہر رکن کو حاصل ہوتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ٹیکنالوجی اس طرح کام کرتی ہے۔’
ان کا خیال ہے کہ وٹس ایپ کے پاس اس سوال کے جواب ہونے چاہییں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق وٹس ایپ نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نشر کیے جانے والے جنسی تشدد کے ویڈیو اپنی سروس پر نشر ہونے سے روکنے کے لیے مدد کرے گا۔
اینڈ ٹو اینڈ انسكرپشن کے ماحول میں یہ کیسے ہو گا، یہ واضح نہیں ہے۔