ہمارے یار نے جب کتاب لکھی
طالبِ علمی کے زمانے میں ہمارے ایک دوست کو مصنف بننے کا شوق ہوا اور انہوں نے اپنی ایک کتاب چھاپی۔ وہ کتاب نہ صرف جب تک لکھے جانے اور چھپنے کے عمل سے گزرتی رہی تب تک ہم طعنے سنتے رہے، بَل کہ ڈینگیں جو سننی پڑیں وہ اس کے علاوہ بونس میں نصیب ہوئیں:
بڑے شاعر بنے پھرتے ہو پتا نہیں کس کس کی چرا کر اپنے نام سے سناتے ہو۔
اب آ رہی ہے کتاب تم بھی کل کہو گے کہ فلاں کتاب جو ہے نا اس کا لکھنے والا ہمارا دوست ہے۔
ہم خیر سر پھینک کر سنتے رہے۔ جب کتاب آئی اور انہوں نے ہمیں دینی چاہی تو ہم نے انکار کر دیا اور کہا، نہیں بھئی کتاب تو ہم خرید کر پڑھیں گے۔
اب ہمارے دوست کتاب لکھیں تو ایسا بھی نہیں کہ ہم خریدیں بھی نا۔ خیر یہ بہانہ زیادہ دیر نہیں چل سکا اور انہوں نے ایک دن زَبر دستی کتاب ہمیں تھما دی اور بولے:
تم تو سموسے بھی کینٹین سے ادھار کھاتے ہو، کتاب خریدنے والی شکل تمہاری ہرگز نہیں ہے۔ میں تمہیں جانتا ہوں لو پڑھو۔
جیسا کہ رواج ہے ہم دوستوں کو کتاب اس تاکید کے ساتھ دی گئی کہ بھئی پڑھ کر رائے ضرور دینا۔ ہم چُوں کہ ان کے ساٹھ اٹھتے بیٹھتے تھے، اس لیے اندازہ تھا کہ کتاب میں کیا ہو گا۔
خدشہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف کتاب کے بارے میں پوچھیں گے، بَل کہ، سرِ عام پوچھیں گے۔ اس لیے ہم نے دو احتیاطی تدابیر کیں۔
ایک تو یہ کہ کتاب نہیں پڑھی اور دوسری یہ کہ ابواب کی فہرست پڑھ لی۔ حسبِ توقع انہوں نے آٹھ دس دوستوں کے بیچ پوچھا تو مُروّت اور لحاظ میں کہا کہ اچھی ہے اگر چِہ آپ اور اچھا لکھ سکتے ہیں اور ایک آدھ باب کا نام لے دیا کہ وہ خاص طور پر پسند آیا۔
اس سے ملتے جلتے تبصرے جب تین چار دوست پکا سا مُنھ بنا کر کر چکے تو ایک ایسے دوست کی باری آ گئی جو غلطی سے تمام طعنے اور ڈینگیں سننے کے بعد کتاب پڑھ بیٹھے تھے اور یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے کہ کتاب اور لکھنے والے دونوں میں سے زیادہ گھٹیا کون ہے۔
انہوں نے تبصرہ کرنے کے بَہ جائے پوچھا:
یار یہ بتائیے کتاب چھپوانے پر کتنے پیسے لگتے ہیں۔
نوزائیدہ مصنف دوست نے کہا:
یار زیادہ نہیں، لاکھ سوا لاکھ میں چھپ جاتی ہے۔
تبصرہ کرنے والے نے رقم سن کر کہا:
اگر تو آپ پچاس ہزار دے کر کسی سے لکھوا لیتے تو کتاب تو شاید اتنی ہی فضول ہوتی جتنی اب ہے، لیکن دو فائدے ہوتے: ایک تو یہ کہ باقی کے پچاس ہزار میں یہ آدھی چھپتیں؛ اور دوسرا یہ کہ ہم لوگ لکھنے والے کو گالی دیتے تو آپ کو برا نہ لگتا۔
از، سلمان حیدر