(ناصر عبا س نیر)
آج مجھے ڈاکٹر کرسٹینا ’ہندی اردو بات چیت‘ کی کلاس میں لے گئیں۔ چار اساتذہ اور کوئی آٹھ طالب علم۔ ڈاکٹر کرسٹینا، منان طاہر، گوتم اور میں۔ گوتم ہندی پڑھاتے ہیں ،جب کہ باقی ہم تینوں کا تعلق اردو سے ہے۔ ہندی، اردو اکٹھی ہوئیں، مگر ندی کے دو کناروں کی طرح۔ کمرہ جماعت میں پہنچ کر محسوس ہوا کہ ہندی کا کنارہ وسیع اور طویل ہے،جب کہ اردو کا کنارہ تنگ اور مختصر ۔ زیادہ تر طالب علم ہندی بولتے اور لکھتے ہیں، صرف ایک پاکستانی نژاد طالبہ اردو لکھ رہی اور بول رہی تھی۔ یہاں ہندی کا عمل دخل زیادہ ہے۔اس شعبے میں داخلہ لینے والے تقریباً تمام طالب علم کلاسیکی اور جدید انڈالوجی کا مضمون پڑھتے ہیں؛اوّل الذکر میں سنسکرت اورآخر الذکرمیں ہندی کو شامل سمجھتے ہیں۔اب یہ ایک اکیڈمک بحث ہے کہ ارود اورہندی ایک ہی زبان تھیں ،جنھیں سیاسی اسباب سے دو میں تقسیم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ دو زبانیں ہیں،اور ایک دوسرے سے الگ تصور کرتے ہوئے پڑھایا جاتاہے۔تاہم یہ دونوں میں نحوی اور لفظیاتی اشتراک کا احساس ہی تھا ،جو دونوں زبانوں کے اساتذہ اور طلبا کو ہفتے میں ایک دن ڈیڑھ گھنٹے کے لیے اکٹھا کرتا ہے۔ یہاں زبان سکھانے کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے بات چیت، پھر ہر طالب علم سے ہندی/اردو میں خبریں (دنیا بھر سے تازہ خبریں) سننا اور آخر میں الفاظ کے جملے بنانے کو کہا جاتاہے۔
پہلے مجھے اتنا تعارف کر وانے کے لیے کیا گیا۔ پھر طالب علموں سے کہا گیا کہ وہ سوال کریں۔ میں کچھ زبردست قسم کے سوالوں کی توقع کررہا تھا۔میرا خیال تھا کہ یورپ کی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، اپنے سوالوں سے مجھے چکرا دیں گے ،لیکن جب ایک طالبہ نے دریافت کیا کہ میرے بچے کتنے ہیں تو پہلے تو میں ہنس دیا،پھر خیال آیا کہ سوال زبردست نہ سہی مگر اچھا ضرور ہے ،اور ویسا ہی ہے جیسا ہمارے یہاں ہر اجنبی سے پوچھا جاتا ہے ۔یہ سوال بتاتا ہے کہ ہماری نظر میں اہم ترین چیز انسانی رشتے ہیں۔چند دنوں میں مجھے یہ تو سمجھ آگیا ہے کہ یہاں یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کسی کے بچے کتنے ہیں،مگر بچوں کے والد سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ دوسری طالبہ نے پوچھا آپ فلیٹ میں رہتے ہیں یا گھر میں۔یہ بھی بڑا نجی قسم کا سوال تھاجس کی توقع میں یہاں بالکل نہیں کررہا تھا۔میرا خیال ہے کہ یہ طالب علم ارود ہندی پڑھ پڑھ کر ہمارے ہی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ ایک اور نے دریافت کیا کہ مجھے یورپ کیسا لگا ہے۔ اس کے جواب، میں مَیں نے کہا کہ ہر ملک دراصل دو امیج رکھتا ہے۔ ایک وہ جو میڈیا، کتابوں، رسالوں، قصے کہانیوں،سفرناموں میں نظر آتا ہے، دوسرا وہ جسے آدمی اس ملک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد قائم کرتا ہے۔ خاص طور پر میڈیا کا ملکوں کا امیج،کسی نہ کسی آئیڈیالوجی اورکئی طرح کے مفادات سے لبریز ہوتا ہے۔ پہلے یورپ کے بارے میں میرا تصور کچھ اور تھا،اور اب ذرا مختلف ہے۔ مثلاًوہاں عام تصور یہ ہے کہ یورپ مسلمانوں کے خلاف ہے، عریانی پسند ہے،یہاں صرف نائٹ کلب اور شراب خانے ہیں۔ مگر میں نے یہاں اب تک جو دیکھا ہے، اس کے مطابق عام لوگ متعصب نظر نہیں آتے یا جن سے اب تک میرا واسطہ پڑا ہے،ا ن میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب نظر نہیں آیا ۔ یہاں آ کر میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہم لباس سے لوگوں کی اخلاقیات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ لباس کا تعلق اخلاق سے زیادہ کلچر سے ہے۔ تنگ، مختصر لباس میں بھی لوگ (خاص طور پر عورتیں) جنسی بے باکی کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور اچھے خاصے ڈھیلے ڈھالے لباس میں بھی عورتیں بے باک ہو سکتی ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر کلچر چیزوں (لباس) کے الگ معانی متعین کرتا ہے، جنھیں کسی دوسرے کلچر میں غلط سمجھے جانے کا امکان خاصا ہوتا ہے۔
پاکستانی نژاد لڑکی نے پوچھا کہ کیا پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔ یہ چبھتا ہوا سوال تھا جو کسی یورپی نے نہیں کیا۔ میں نے لاشعوری طور پر پاکستان کا دفاع کیا اور کہا کہ اگر میں اپنے بچوں کو وہاں چھوڑ کر یہاں آ گیا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں بہ حفاظت رہنا ممکن ہے۔ کسی نے کہا کہ مگر وہاں اقلیتیں تومحفوظ نہیں ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ،اور ان کے ہمدرودں کے ساتھ انتہاپسندانہ سلوک ہوتا ہے۔یہ حقیقت لاجواب کر دینے والی تھی،اور سخت شرمندہ کرنے والی بھی۔میں کچھ دیر کے لیے خاموش اور شرمندہ ہوا کہ یہ دونوں واقعات میرے ملک میں ہوئے ہیں۔اگرچہ میں نے کہا کہ دیکھنا چاہیے کہ کسی ملک میں عدم رواداری کیوں پیدا ہوتی ہے؟ میں نے خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور سوویت یونین کی افغانستان میں جنگ نے یہ سب تحفے پاکستان کو دیے۔ ڈاکٹر کرسٹینا نے دھیمے انداز مگر زور دے کر کہا کہ اس میں آپ کے ملک کے لوگ ہی آلہ کار بنتے ہیں۔ مجھے اتفاق کرنے کے سوا کیا چارہ تھا۔یہ گفتگو زیادہ دیر نہیں چلی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں کے طالب علم بھی بحث مباحثے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے۔ شاید زبان رکاوٹ ہو۔ وہ ابھی اردو یا ہندی روانی سے نہیں بول سکتے۔
شام کو منان طاہر کے ساتھ سٹیشن پر گیا، جو ریل کے ذریعے دوسرے قصبے سے یہاں آتی ہیں۔ مجھے کھانے پینے کا سامان خریدناتھا۔ وہ بے حد خوش اخلاق خاتون ہیں۔ مجھے انھوں نے راستے بتائے؛ دوکانیں دکھائیں، خریداری کا طریقہ بتایا۔ سامان خرید کر میں ایک کافی شاپ پر ٹھہر گیا۔ وہاں سب سامان ناؤ نوش دستیاب تھا اور لوگ خاموشی سے شغل فرما رہے تھے۔ میں نے کافی کا آرڈر دیا۔ ابھی کافی ختم ہی کی تھی کہ ایک صاحب آئے۔ السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ میں نے دل لگی کرتے ہوئے کہا کہ کیا میری کسی حرکت سے انھیں لگا کہ میں پاکستان ہی سے ہوں؟ وہ مسکرائے ،اورمیرے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔ زبردستی کافی کا ایک اور کپ پیش کیا۔ معلوم ہوا اس دکان کے مالک چوہدری محمد شفیق ہیں۔ ن لیگ جرمنی کے صدر ہیں۔ ہم نے پاکستان سے متعلق کافی باتیں کیں۔ مجھ سے بل نہیں لیا اور ایک دوست (وہ بھی پاکستانی ہیں) کو کہا کہ وہ مجھے میری رہائش گاہ تک چھوڑ آئیں۔ ان سے مل کر عجب خوشی ہوئی اور اپنائیت کا احساس ہوا۔ اپنے ملک میں اپنے ہی ہم وطنوں سے جو فاصلے ہوتے ہیں وہ دیارِ غیر میں ایک پل میں غائب ہو جاتے ہیں۔ حسبِ معمول رات کوطاہرہ سے فون پر بات ہوئی۔ خداکا شکرادا کیا کہ وہ اور بچے سب خیریت سے ہیں۔
Website is very useful for the serious readers.it,s great effort for thirsty book lovers.I read articles of N.A.Nayyer ,articles were extremely full if wisdom.I hope readers will definitely follow this site as it concerns about bibliophile.