نظریہ جب خبط بن جائے
از، طارق احمد صدیقی
جب تک کسی نظریہ یا عقیدہ کی طرف چند لوگوں کا محض مَیلان ہو تب تک اس کے مفید اور مُضر اثرات دنیا کو اپنی طرف متوجُّہ نہیں کرتے۔ لیکن جب وہ مَیلان شوق میں بدل جائے تو اس کے گرد و پیش کے دوسرے لوگ اس عقیدہ کی افادیت کے قائل ہو جاتے ہیں۔
حالاں کہ اس کے مُضر اثرات بھی متوازی طور پر پڑتے رہتے ہیں لیکن چُوں کہ شوق بَہ ذاتِ خود ایک دل فریب کیفیت ہوتی ہے، اس لیے لوگ اُس کے اثراتِ بد سے بے پروا ہوتے ہیں۔
جب ان کا شوق خبط میں بدل جائے تو پھر عام لوگوں کو اس عقیدہ کی خرابیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں اور اس کے حاملین کی کسی قدر مذمت بھی لوگ کرنے لگتے ہیں۔ خبط چُوں کہ بَہ ظاہر صرف خبطیوں کے لیے مُضر ہوتا ہے اس لیے عام لوگوں کو اس کی کچھ فکر نہیں ہوتی کہ اس عقیدہ کے حاملین کس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
بات اس وقت بگڑتی ہے جب حاملینِ عقیدہ کا خبط جنون میں بدل جائے۔ اس وقت ساری دنیا کی نظر جنونیوں پر ہوتی ہے اور کچھ لوگوں میں اس جنون کے بَر عکس ایک جنون پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس عقیدہ کے مخالف ہو کر بد کلامی کرتے ہیں اور اس کے استیصال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
اس کارِرَوائی کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو ابھی مَیلان، شوق اور خبط کے مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ چُناں چہ ہر ایک مرحلے کے لوگ استیصال کی اس کارِرَوائی کی مزاحمت کرتے ہیں جو فطری چیز ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ نظر میں رہے کہ محض چند لوگوں کے خبط اور جنون کی وجہ سے یہ حالت ہوئی ہے۔
اس پورے معاملے میں حکمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ جو یہ ہے کہ لوگوں کے اندر کسی عقیدہ کے مَیلان و شوق سے آگے خبط اور جنون کی حالتیں نہ پیدا ہوں۔ اگر اس سلسلے میں اپنے عقیدہ کی تنقید کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے ورنہ پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
مَیلان، شوق، خبط اور جنون ان چار کے علاوہ صورتیں اور مراحل بھی ہو سکتے ہیں۔ میں نے محض بات کہنے کی آسانی کے لیے ان چار الفاظ کو منتخب کیا ہے، انہیں علمِ نفسیات کے پسِ منظر میں نہ سمجھا جائے۔