جب جموں سرخ ہوا
از، حسین جاوید افروز
1947 میں جب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تو بڑے پیمانے پر ہجرت کا سلسلہ چل نکلا اور جس طرح ہندو اور سکھ آبادی بڑی تعداد میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب سے ہندوستان کی سرحد عبور کر گئی ویسے ہی مغربی بنگال، بہار، اترپردیش، مشرقی پنجاب سے مسلم آبادی پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئی۔ لیکن یہ سارا عمل خصوصاً پنجاب اور ریاست کشمیر بالخصوص جموں ریجن سے نہایت ہی کربناک انداز میں مکمل ہوا جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آج بھی جب کہ تقسیم کو ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر پرانے بابے اب بھی دلی اور مشرقی پنجاب میں بیٹھ کر لائل پور، راولپنڈی، لاہور اور سیالکوٹ کو فراموش نہیں سکے۔ اسی طرح جو خاندان یوپی، جالندھر، دلی، لکھنو، ہوشیار پور، گورداسپور اور امرتسر سے اپنے گھر بار، کھیت کھلیان، بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر پاکستان میں جا بسے ان کو بھی امرتسر کی شڑپ شڑپ کرتی ہوئی بارش، لکھنو کی حویلیاں اور آموں کے باغات بھلائے نہیں بھولتے۔ کچھ ایسی ہی بے انتہا لگن جموں ریجن کے ان مسلمانوں میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے جو اکتوبر تا نومبر 1947 جموں سے نہایت بدترین حالات میں ہجرت کرتے ہوئے بھوک، اور خوف کے آسیب تلے سیالکوٹ پہنچنے پر مجبور ہوگئے۔
ان کے دلوں میں بھی شوالک کی پہاڑیوں پر قائم جموں شہر میں واقع مست گڑھ محلہ، بازار قصاباں، ریزیڈینسی روڈ، جموں کی مشہور زمانہ نہر جو اکھنور کے مقام پر دریائے چناب سے نکالی گئی، باہو فورٹ، تالاب کٹھیکاں، اردو بازار ہمیشہ کے لیے رچ بس چکے ہیں۔ مگر وہ لمحے جموں کے مسلمانوں پر قیامت ڈھا رہے تھے جب اکتوبر کے اوائل میں جموں کو مغربی پنجاب سے ملانے والی سرحد سیل کردی گئی۔ یاد رہے اس سے قبل چند ہزار مسلم گھرانے ہی سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ حالات اس وقت شدید خراب ہوگئے جب دیوا کے علاقے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بنفس نفیس خود غریب مسلم افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گویا اب خونی مہم شروع ہوچکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نفرت اور موت کا یہ ننگا ناچ آتما پور، ہیرانگر، راج پورہ، کوہاٹہ اور بنڈور کے علاقوں سے ہوتا ہوا جموں شہر اور اس کے مضافات میں پھیل گیا۔ اس خون کی ہولی میں نابھہ اور پٹیالہ سے آئے سکھ جتھوں نے بھی ڈوگرا فوج، پولیس اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے ساتھ مل کر گھناؤنا کردار ادا کیا۔ یہ وادی کشمیر کی شدید بدقسمتی رہی کہ اس کی تقدیر میں ڈوگرا راج لکھ دیا گیا۔ چُناں چِہ گلاب سنگھ کے جنگل راج سے لے کر پرتاپ سنگھ، رنبیر سنگھ کا کشمیر پر تسلط کشمیری اور جموال مسلمان کے لیے بے حد اذیت ناک رہا۔
مزید دیکھیے: ملیحہ لودھی صاحبہ رقص و سرور کی محفل میں اور کشمیری قوم از، شازیہ نیئر
ان کو معاشی، سماجی طور پر بے دست و پا کر کے غلامی کے تاریک غار میں دھکیل دیا گیا جہاں تقریباً سو سال تک ان کی عزت و نفس کو پامال کیا جاتا رہا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے میں ریاست کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لی تو اس کی رسم تاجپوشی بہت دھوم دھام سے منائی گئی کیوں کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی بیان جاری کیا کہ اب اس کا مذہب انصاف ہوگا۔ مگر یہ تمام بلند و بالا دعوے محض مٹی کا گھروندا ہی ثابت ہوئے اور جلد ہی وہ بھی اپنے پرکھوں کی روایتی ظالمانہ ڈوگرہ خصلت پر اتر آیا اور اس نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم کی بدولت بیدار ہوتے کشمیری مسلمانوں پر بے جا سختیاں شروع کر دی۔ مگر شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس کی سیاسی جدوجہد نے ڈوگرہ راج کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب قبائلیوں نے چوبیس اکتوبر کو مظفر آباد فتح کیا اور وہ سرینگر کی جانب بڑھنے لگے تو مہاراجہ ہری سنگھ بوکھلاہٹ میں جموں کی طرف فرار ہوگیا۔ وہ اس قدر خوفزدہ ہوچکا تھا کہ دوران سفر ایک ریسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران اس نے مسلم باورچی کے ہاتھ کا کھانا کھانے سے بھی انکار کردیا۔ جموں ریجن میں مسلم فوبیا اتنا سرایت کرچکا تھا کہ سرینگر سے جموں آنے والے مسلم تانگہ والوں اور جموں میں مسلم گوالوں کو بھی جاں بحق کیا جانے لگا۔
اسی دوران نومبر کے اوائل میں سردار پٹیل اور سردار بلدیو سنگھ نے مہاراجہ سے ملاقات کی اور اس کے بعد سے جموں کے مسلمانوں گویا قہر برسنا شروع ہوگیا۔ مسلمان پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی اور ڈوگرہ انتظامیہ میں چن چن کر متعصب افراد کو تعینات کیا گیا یوں مہا راجہ مکمل طور پر مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کے منصوبے پر کاربند ہو گیا۔ بد قسمتی سے مسلم کانفرنس کا نیٹ ورک جموں ریجن میں خاصا کمزور تھا جس کی وجہ سے وہ ان پیش آنے والے مہیب حالات کا اندازہ نہیں لگا سکی۔ جب کہ دوسری جانب انتہا پسند ہندو تنظیمیں کامل منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے تو ہتھیاروں کا انبار لگاتی رہی پھر ریاستی انتظامیہ کی ملی بھگت سے تمام اہم سرحدی راستوں کی بھی ناکہ بندی کرلی گئی۔ اب ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ گاؤں کی مسلم آبادی کو دھمکا کر کھلی جگہ جمع کیا جائے اور اس کے بعد عورتوں اور مال غنیمت کی بندر بانٹ کے بعد مردوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے۔
یاد رہے کہ تقسیم کے وقت مسلمان جموں ریجن میں 60 فیصد تھے اور ان کی آبادی 5 لاکھ کے نزدیک تھی مگر جب وحشیانہ انداز سے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ٹائمز لندن کے مطابق تقریباً 2 لاکھ 37 ہزار مسلمان بیدردی سے شہید کیے گئے۔ جموں شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں جیسے سانبہ، رنبیر سنگھ پورہ، کٹھوعہ، مہوہ میں بربریت کے دلخراش مناظر سامنے آئے۔ سب سے زیادہ خون آشام کاروائیاں پانچ اور چھ نومبر کو کی گئیں جب پہلے تو جموں اور اس کے مضافات سے مسلم آبادی کو جمع کر کے پاکستان پہنچانے کے بہانے میدان میں جمع کیا گیا اور ان کو لاریوں اور ٹرکوں کے ذریعے سچیت گڑھ بارڈر کی جانب روانہ کیا گیا۔ لیکن پھر اچانک گاڑیوں کا رخ سرحد سے ہٹ کر کٹھوعہ روڈ پر جنگل کی جانب موڑا گیا اور پھرکیسے کنبے کے کنبے کاٹ ڈالے گئے؟
کیسے بے گناہ مردوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھون دیا گیا اور مال غنیمت جیسے نقدی، زیورات اور مستورات بے رحمی سے بانٹے گئے۔ یوں ہزاروں کے بجائے محض چند سو افراد ہی لٹے پھٹے سیالکوٹ بارڈر کراس کر سکے۔ جب کہ ریڈ کراس کے نمائندوں کے مطابق انہوں نے جموں شہر سے سرحد تک انسانی جسم کے کٹے پھٹے اعضا دیکھے جن کو آنے جانے والی گاڑیاں کچلتی جارہی تھیں، اب اس سے بڑھ کر قیامت خیز منظر اور کیا ہو سکتا تھا؟
کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر جے ریڈی کے مطابق، وہ جموں میں رات ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا اور اسی رات اس کے سامنے جموں کے اطراف کے 47 گاؤں نذر آتش کر دیے گئے جہاں مسلم اکثریت رہائش پذیر تھی۔ ساری رات چیخوں اور فائرنگ کی آوازیں سنتے ہی گزر گئی۔ جب کہ راج پور کے گاؤں میں مہاراجہ کشمیر کی ریاستی انتظامیہ بھی ڈوگروں کو مکمل ہلہ شیری دے رہی تھی کہ جم کر مسلمانوں کا صفایا کرو اوران بیرونی حملہ آوروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ اس سارے عمل میں ہندو، سکھ اور ڈوگرے مشترکہ طور پر مسلم نسل کشی کے گھناؤنے فعل میں مصروف عمل رہے۔ جب کہ آئن سٹیفن کی کتاب Horned Moon میں کھل کر بیان کیا گیا ہے کہ کیسے جموں ریجن کی پانچ لاکھ مسلم آبادی میں محض دو لاکھ ہی سیالکوٹ بارڈر کراس کر سکے اور باقی ماندہ تاریک راہوں میں شہید کیے گئے۔
اس کے علاوہ آلیسٹر لیمب اپنی کتاب crises in Kashmir میں رقم طراز ہیں کہ یہ قتل و غارت محض تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہیجان کا نتیجہ نہیں تھا بَل کہ جموں میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈوگرا حکومت اور ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا صفایا کرنے کا پلان بنایا جس کی شروعات جولائی 1947 سے ہی ہوچکی تھی۔ ان فسادات کے بعد شیخ عبداللہ کی ہدایت پر بخشی غلام محمد نے دن رات ایک کر کے بیشمار مغوی مسلم خواتین کو بازیاب کرایا اور کسی حد تک زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کی۔ آج جموں ریجن میں ریاسی، راجوری اور پونچھ کے اضلاع ہی ایسے رہ گئے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ورنہ مجموعی طور پر جموں میں مسلم آبادی کا تناسب محض تیس فیصد ہی رہ گیا ہے۔
آج بھی سیالکوٹ شہر سے جموں کی شوالک پہاڑیوں کا نظارہ با آسانی کیا جاسکتا ہے اور سیالکوٹ کے بابے اب بھی جموں کی رنگینوں سے بھرپور زندگی کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ان 2 لاکھ37 ہزارشہدائے جموں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو پاکستان کی محبت میں اپنے جموں کو قربان کر کے اس کے ہمراہ چلے توتھے مگر وقت کی بے رحم موجوں میں گم ہوگئے۔ قوم ان گمنام شہدائے جموں کو دل کی گہرائیوں سے ہم خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔