(ملک محمد بلال)
ربیع الاول کی وجہ سے شائد آج بابا جی کے آستانے پر معمول سے زیادہ رش تھا۔ مجھ سمیت کئی لوگ بابا جی سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ بابا جی کا اصل نام تو ناجانے کیا تھا لیکن لوگ انہیں بابا جی کے نام سے ہی جانتے تھے۔ عمر پچاس کے پیٹے میں، درمیانہ قد، نورانی بارعب چہرہ جسے چمکدار آنکھیں مزید بارعب بناتی تھیں۔ بابا جی کا آستانہ گاؤں سے ذرا باہر الگ تھلگ بنا ہوا تھا۔ آستانہ کیا تھا ایک 16 بائی 18 کا برآمدہ جس کی چھت میں پرانی طرز کے شہتیر ڈالے گئے تھے۔ آستانے میں اس وقت رش اپنی پیک کو پہنچا ہوا تھا اور بابا جی اس وقت آستانے پہ موجود لوگوں کے مسائل سن رہے تھے۔
بابا جی کوئی بہت پہنچی ہوئی ہستی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے بارے مشہور ہے کہ بے دھیانی میں بھی کوئی کہہ بات کہہ دیں تو اللہ اسے بھی رد نہیں کرتا اور اگر کسی کے لیے ہاتھ اٹھا دیں تو اللہ دعا قبول کرتا ہے۔ میرے علاوہ اس وقت آستانے پر موجود تمام لوگ بابا جی سے اپنے لیے دعائیں کروانے ہی آئے تھے۔ میں ایک نکڑ میں بیٹھا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ کب رش ختم ہو اور میں بابا جی کے پاس جا کے بیٹھوں۔ کیونکہ مجھے اُن سے کوئی دعا نہیں کروانا۔ بلکہ وہ طریقہ پوچھنے تھا جسے اپنانے سے دعائیں رد نہیں ہوتیں۔
آہستہ آہستہ ہجوم چھٹ رہا تھا اور میں کھسک کھسک کے بابا جی کے نزدیک ہورہا تھا۔ بابا جی کے آستانے کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ یہاں مستورات کا داخلہ سختی سے ممنوع ہے اور شائد یہی وہ عمل ہے۔ جس کی وجہ سے بابا جی کے عقیدت مندوں میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں آنے والے ستر فیصد لوگ اپنی بات کا آغاز یہ کہہ کے کرتے ہیں کہ “میری بیوی کہہ رہی تھی، یا پھر میری والدہ یہ کہہ رہی تھیں۔”
بات دور نکل گئی، اب رش بالکل ختم ہوچکا تھا اور تمام لوگ جاچکے تو بابا جی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں مزید کھسک کے ان کی نزدیک ہوگیا کہ میرا ،گھٹنا ان کے گھٹنے سے جا لگا۔ بابا جی بولے
“ہاں بیٹا خیریت سے آئے ہو؟” میں نے کہا، “بابا جی مجھے کسی قسم کی دعا تو نہیں کروانا لیکن مجھے آپ سے دعاؤں کی قبولیت کا راز جاننا ہے؟”
بابا جی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مخاطب ہوئے، “بیٹا اتنا آسان نہیں ہے۔ لیکن اگر کرسکو تو اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔” میں نے کہا، “بتائیں تو سہی!”
بابا جی بولے، “جھوٹ بولنا ترک کردو” میں نے حیرانی سے سوال کیا، “بابا جی جھوٹ کا دعاؤں کی قبولیت سے کیا تعلق؟”
بابا جی نے پاس پڑے مگ سے گرم دودھ کا ایک بڑا گھونٹ بھرتے ہوئے بات شروع کی، “دیکھو بیٹا! جب آپ جھوٹ بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور لوگ بھی آپ کو سچا اور امانت دار سمجھنا شروع کردیتے ہیں تو پھر جب کبھی آپ کے منہ سے انجانے میں بھی کوئی جھوٹ نکل جائے تو اللہ تمہارے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اسے بھی سچ بنا دیتا ہے۔ بس یہی طریقہ ہے کچھ سمجھ آیا؟” میں نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔
تو بابا جی ایک دفعہ پھر مسکرا کے بولے، “اب دھیان سے سننا۔ ایک انسان جب اللہ کی رضا کے لیے جھوٹ بولنا ترک کردیتا ہے اور اللہ سمجھتا ہے کہ یہ میرا بندہ محض میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جھوٹ سے گریز کرتا ہے اور اس انسان کے ارد گرد لوگ بھی اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ فلاں انسان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ تو یہی وہ مقام ہوتا ہے جب وہ شخص بے دھیانی میں بھی کچھ بول دے تو اللہ اسے بھی رد نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی رسوا نہیں ہونے دیتا۔ ہم کبھی دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ایسی بات کر جاتا ہے۔ جو بظاہر نا ممکن نظر آتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ تو اس کے پیچھے وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہوتا اور اب اگر نادانستگی میں بولا بیٹھتا ہے تو اللہ ناممکن کو بھی ممکن کردکھاتا ہے۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ یہ کہہ کر بابا جی بولے بیٹا کچھ سمجھ آئی؟”
میں نے کہا، “جی بابا جی آگئی ہے اور وہاں سے اٹھ آیا۔ اس عزم کے ساتھ کہ اب کے مجھے ویسا بندہ بننا ہے جس پر اُس کائنات کے رب کے انعامات کی بارش ہوتی ہے۔ شائد وہی لوگ ہیں جن سے وہ راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔”