اگر چِلّی میں کسی کو جبری گم شدہ کیا جاتا تھا
از، ڈاکٹر محمد مشتاق
چِلّی برِّ اعظم جنوبی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ انیس سو ستر کی دھائی میں وہاں فوجی آمریت آئی جس کے بعد جبری گم شدگیوں کا بڑا سنگین مسئلہ پیدا ہوا۔ بہت سارے لوگ گم شدہ کر دیے گئے۔
گم شدہ کیے جانے والوں کے لواحقین کو خوف ہوتا کہ اگر وہ گم شدگی کے خلاف آواز اٹھائیں گے، تو انھیں بھی گم کر دیا جائے گا، یا گم کیے گئے شخص کی واپسی نا ممکن ہو جائے گی۔
پھر بھی اگر کوئی ہمت کر کے، یا تنگ آمد بَہ جنگ آمد کے مِصداق، رپورٹ درج کرانے کی کوشش کرتا تو پولیس کی جانب سے مشورہ یہی دیا جاتا کہ رپورٹ درج نہ کرائیں ورنہ بندہ کی واپسی کی کوئی امید نہ رکھیں۔
پھر کچھ لوگ عدالت میں چلے جاتے کہ پولیس کو رپورٹ درج کرانے کا حکم دیں۔ عدالت میں تاریخ پر تاریخ بدلتی اور اس دوران میں مقدمہ درج کرانے کی کوشش کرنے والے پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جاتا۔ بہت سے لوگ درمیان میں ہی ہمت ہار جاتے۔
کچھ ایسے ہوتے جو ہمت نہ ہارتے اور ہر تاریخ پر اس امید کے ساتھ آتے کہ آج تو عدالت مقدمہ درج کرانے کا حکم دے لے گی۔ بالآخر عدالت سمجھ لیتی کہ یہ بعض لوگ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہے۔ چُناں چِہ وہ پولیس کو مقدمہ درج کرانے کا حکم دے لیتی۔
اب مقدمہ تو درج ہو گیا، لیکن بات آگے نہیں بڑھ رہی۔ عدالت میں جائیں تو عدالت پولیس کی طرف بھیجتی ہے؛ پولیس کہتی ہے کہ کوئی سراغ نہیں مل رہا تو ہم کیا کریں؟ کوئی افیئر ہو گا، کوئی دشمنی ہو گی، کوئی پھڈا ہو گا؛ ویسے تو کوئی کسی کو غائب نہیں کرتا۔
بعض لوگ حکومتی ایجنسیوں پر الزام رکھتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ نت نئے حادثے بھی ہو جاتے۔ پھر بھی ان میں کچھ دُھن کے پکے ہوتے اور لگے ہی رہتے۔ انھیں بعض اوقات اِدھر اُدھر سے کچھ شواہد مل جاتے، جیسے کالی گاڑی میں لوگ آئے اور بندہ اٹھا کر لے گئے، یا فلاں بندے کو چھوڑا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ یہ بندہ بھی ایجینسیوں کی قید میں تھا۔
اب یہ لوگ یہ چیزیں لے کر عدالت میں پیش کر دیتے۔ عدالت پھر تاریخ پر تاریخ دیتی، لیکن کبھی کبھار کسی عدالت میں کوئی احمق جج بھی بیٹھا ہوتا جو ایجینسیوں سے پوچھنا شروع کر دیتا۔ ایسے ججز کے ساتھ بھی عجیب قسم کے حادثات ہونے لگتے، لیکن پھر بھی بعض جج باز نہ آتے۔
چُناں چِہ حکومت نے بعض قوانین ایسے بنوائے جن کے ذریعے قومی سلامتی کے نام پر لوگوں کو گرفتار کرنے اور عدالت میں پیش نہ کرنے کو جواز دیا گیا۔
اب ہوتا یہ کہ کسی شخص کا معاملہ عدالت تک پہنچ بھی جاتا تو ایجینسیوں کی جانب سے ایک سر بَہ مُہر لفافہ عدالت میں پیش کیا جاتا۔ اس سر بَہ مُہر لفافے میں بس ایک صفحے کا (بل کہ آدھے صفحے کا) خط ہوتا جس میں عدالت سے کہا گیا ہوتا کہ یہ شخص ہماری تحویل میں ہے، لیکن ہم نہیں بتا سکتے کہ اس کو تحویل میں لینے کا سبب کیا ہے، کیوں کہ یہ قومی سلامتی کے خلاف ہے۔ چناں چہ عدالت فیصلہ سنا دیتی کہ بندہ لا پتا نہیں ہے اور کیس ختم ہو گیا!
کبھی کبھار کوئی پاگل جج اس سر بَہ مُہر لفافے کو قبول کرنے کے بَہ جاے حکم جاری کرتا کہ بندہ پیش کیا جائے۔ ایسے میں کبھی جج کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جاتا، یا کبھی اس شخص ہی کی لاش مل جاتی۔ بعض اوقات تو لاش بھی نہ ملتی اور یہ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت ہوتی۔
پس نوشت:
یہ کہانی واقعی برِّ اعظم جنوبی امریکا کے ملک چلی کی ہے جہاں ایسے کئی واقعات انیس سو ستر کی دھائی میں رُو نُما ہوئے۔