(فاروق احمد)
ایک فلم تھی ’’عجب پریم کی گجب کہانی‘‘۔ ایک ہلکی پھلکی خوبصورت سی فیچر فلم۔۔۔ ایک سین میں کترینہ کیف کو غنڈوں سے چھڑانے کیلئے ہیرو رنبیر کپور کے ساتھیوں کا مقابلہ بدمعاشوں سے ہوتا ہے۔ س دوران جب کترینہ کیف کا گھمایا ہوا ڈنڈا تیسری بار غنڈوں کے بجائے ہیرو کے سر پر پڑتا ہے تو وہ لڑائی کو روک کر کترینہ سے پوچھتا ہے :
’’ کیا کوئی کنفیوژن ہے، تم ہمارے ساتھ ہو یا غنڈوں کے ‘‘
کترینہ کو کنفیوژن ہو یا نہ ہو لیکن ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ شاید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اگر کنفیوزڈ نہیں تو پھر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ وہ چند لوگ سازشی ہیں اور درونِ خانہ فرقہ پرستوں انتہاپسندوں جہادیوں دہشت گردوں لشکروں کی کل کی طرح آج بھی سرپرست اور ناخدا ہیں۔ اگر کلی طور پر ایسا نہیں تو پھر دھڑے بندی کا شکار ہے کہ جہاں ایک دھڑا دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے تو دوسرا دہشت گردوں کا حامی و ناصر ہے۔
یعنی یہ گتھی کیسے سلجھے کہ ایسا کیوں ہے کہ سلمان حیدر جیسے لوگوں کو کیوں پھول ستاروں والی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے خفیہ ادارے عقب سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں جو جہادی بیانیے اور انتہاپسندی کی لن ترانیوں کے سامنے مورچہ بند ہو کر بیانیے کی انتھک جنگ لڑ رہے ہیں، آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی نظریاتی اور علمی بنیادوں کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں فوج اور خفیہ اداروں کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑ رہے ہیں۔
یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کرنے والوں کے سامنے یہ تین آپشن ہی آتے ہیں کہ یا تو حمید گل مارکہ ادارے کنفیوزڈ ہیں، یا دھڑے بندی کا شکار ہیں یا پھر پاکستانی عوام کو ڈبل کراس کر رہے ہیں۔ یہ بات تو صاف ہے کہ ایسے ادارے کنفیوزڈ نہیں ہوتے بلکہ بڑی عرق ریزی اور طویل تحقیق کے بعد اپنے مقاصد اور حکمت عملی کا تعین کرتے ہیں ۔۔
رہا سوال دھڑے بندی کا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، یہ دھڑے بندی ماضی میں بھی رہی ہے اور اس کی تصدیق آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر جیسے سابق افسران، حمید گل جیسے سابق سربراہان اور اسلم بیگ جیسے آرمی چیف بھی ببانگ دہل میڈیا میں کرتے رہے ہیں کہ کس کس طرح قیادت کی پالیسی کے برعکس معروف خفیہ ادارہ اپنی الگ ریاست چلاتا رہا ہے۔ سلمان حیدر اور دیگر درجن بھر بلاگرز کی حالیہ غیر اعلانیہ گرفتاریوں کے پیچھے اگر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے معروف خفیہ ادارے کے آئی سے غدار اور اپنی ذاتی انا کے اسیر عناصر کا ہاتھ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آئین دشمن گروہ اپنی ہی قیادت کے آپریشن ضرب عضب کی راستے کا روڑا ہے۔
اور اگر ایسا نہیں تھا کہ معروف خفیہ ادارہ یہ کارہائے نمایاں اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی منشا کے منافی جا کر کرتا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ اس کی ماورائے آئین ریشہ دوانیوں میں نان سویلین قیادت باقاعدہ طور پر ملوث رہی ہے اور یہی نان سویلین قیادت پاکستان کے آئین، سویلین آئینی قیادت اور پاکستانی عوام کو ڈبل کراس کرنے میں ملوث ہے۔ اور یہ اس ساری صورت حال کا تاریک ترین پہلو ہے۔
جہادی گروپوں کی سرپرستی کیلئے پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کا کینوس مکمل طور پر داغدار بلکہ سیاہ ہے۔ اور اس کریمینل ریکارڈ کی روشنی میں کوئی معمولی سا تفتیشی افسر بھی سلمان حیدر کی غیر اعلانیہ گرفتاری کو سلسلے میں شک کی بنیاد پر خفیہ والوں کے اس ٹولے کی پیشی طلب کر سکتا ہے۔ تمام قرائن اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر کے کچھ حلقے، سول سوسائٹی کی ان قوتوں کو آج بھی برداشت کرنے کی روادار نہیں جو جہادی بیانیے کے مخالف ہیں۔ بائیں بازو کی سیکولر لبرل آوازوں کو یک طرفہ طور پر چپ کروایا جانا اور اوریا مقبول جان جیسے انتہا پسندوں کو کھلا میدان دے دینا اس بات کا کافی ثبوت ہے۔
فی الواقع اس وقت سلمان حیدر کی سوچ والے قبیلے کے افراد نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب قلم کا ہراول دستہ ہیں اور اس ہراول دستے پر اس طرح عین جنگ کے درمیان اپنے ہی فوجیوں کی جانب سے پشت پر حملہ کیا جانا اور شب خون مارے جانا یہی ثابت کرتا ہے کہ نان سویلین قیادت کےاعلانیہ اور پوشیدہ مقاصد میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ یعنی ظاہری طور پر تو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جہادیوں اور دہشت گردوں کو کچلنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے لیکن پیٹھ پیچھے وہ انہی جہادیوں کی پیٹھ بھی ٹھونک رہی ہے اور ان کو زک پہنچانے والوں کو مورچوں سے ہٹا رہی ہے اور یہی سبب ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اپنے مقاصد کے حصول کے سماجی و معاشرتی اور بیانیے کی جہتوں والے اگلے مرحلوں کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتا ہے۔
غالباً سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کو اس حد تک ہی کٹ ٹو دی سائز کیا جائے جہاں وہ بس اپنے ہی رِنگ ماسٹروں اور سرپرستوں اور تخلیق کاروں پر چڑھ دوڑنا چھوڑ دیں۔ آپریشن ضرب عضب کی گجب کہانی شاید بس اتنی ہی سی ہے۔
زیرِ لب مسکرانے کا مقام یہ بھی ہے کہ آج تک کوئی اطلاع ایسی سامنے نہیں آئی کہ دائیں بازو کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کو بھی سلمان حیدر جیسوں کی طرح اٹھایا گیا ہو اور ان کی زباں بندی کی کوئی سعی کی گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر دائیں بازو کا گالی گلوچ مارکہ مذہبی تنگ نظر انتہا پسند پرو کمرشل جہادی عنصر پوری طرح مصروفِ عمل ہے اور کوئی ان کے بیانیوں کو لگام ڈالنے والا نہیں۔ بلکہ الٹا لگام ڈالنا تو کجا، ان کو جواب دینے والوں اور پاکستان کے لبرل اینٹی انتہاپسند بیانیہ کے مورچوں سے لڑنے والوں کو پھول ستاروں والی سرکار اٹھا لے جا رہی ہے۔
سلمان حیدر اور دیگر لبرل پاکستانیوں کا پاکستانی ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہراساں کیا جانا پاکستان کے مستقبل پر ایک بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پاکستانیوں کے ساتھ ہے یا پاکستان کے آئین کی دشمن۔ ماورائے آئین اقدامات کرنے والوں کو پاکستان اور آئین کا دشمن نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔