(حسن جعفر زیدی)
(اس مضمون کا حصہ اول اور سوئم ان لنکس پر کلک کرنے پر میسر ہیں: 1۔ لنک برائے حصہ اول 2۔ لنک برائے حصہ سوئم)
انیسویں صدی کے اواخر تک ہندوؤں نے انگریزوں کو آنکھیں دکھانی شروع کردی تھیں۔ وہ انڈین نیشنلزم اور جمہوری حقوق کے نام پر اقتدار اور انتظامی ڈھانچے میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے مطالبات کررہے تھے۔ 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس خود ایک انگریز لارڈ ہیوم نے قائم کردی تھی۔ تاکہ زیادنہ مراعات کے حصول کی تحریک ایک بورژوا جمہوری پلیٹ فارم سے ہو اور کہیں یہ تشدد کا راستہ نہ اختیار کرلے۔ یاد رہے کہ انڈین نیشنلزم کا کوئی وجود ہندوستان کی تاریخ میں نہیں رہا۔ برصغیر کبھی ایک سلطنت یا ملک کے طور پر موجود نہیں رہا۔ خصوصاً جنوبی ہند ہمیشہ ایک الگ دنیا تھا اور شمالی و مغربی ہند ایک دوسری دنیا۔ یہاں تک کہ ہندومت بھی مختلف علاقوں میں مختلف تھا۔ مختلف علاقوں کے دیوی دیوتا بھی اور رسوم و رواج بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ مگر اس وقت ہندو اپنے مادی مفادات کے حصول اور اپنے غلبہ کے احیاء کے لیے انڈین نیشنلزم کے نعرے کو فروغ دے رہے تھے۔ بنگال کا سریندر رناتھ بینرجی اور پونا کا بال گنگا دھر تلک اس سودیشی تحریک میں پیش پیش تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمان بھی اپنی بقا کی جدلیات کے تقاضے پورے کرنے میدان میں اتر آئے تھے۔
سرسیداحمد خاں کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان ایک کثیر الاقوام برصغیر ہے۔ یہ ایک ملک نہیں ہے اور نہ یہاں رہنے والے ایک مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرسید نے برصغیر کا یورپ سے موازنہ کیا کہ جیسے یورپ میں کئی اقوام ہیں ویسے ہی برصغیر ہندوستان میں کئی اقوام ہیں اور یہاں انڈیشن نیشنل کانگریس کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ ہندو اکثریت کے مفاد کی نمائندگی کررہی ہے۔ 1905ء کی تقسیم بنگال پر کانگریس کی جانب سے شدید ایجی ٹیشن نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمانوں کے فائدے میں ہونے والی کسی انتظامی تبدیلی یا اقدام پر کانگریس کا رویہ کیا ہوگا۔ جس کے بعد 1906ء میں سرآغا خاں اور دوسرے مسلم زعماء نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا اور سرسید کی تعلیمی تحریک ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔
بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو برصغیر میں تینوں قوتوں کے مابین جدلیات کی کشمکش کچھ یوں تھی۔ اسٹرکچر میں دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ کوئی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہیں ہے، سب ہندوستانی ہیں۔ وہ ان کی قومی شناخت کا انکار کرکے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گزشتہ ایک ہزار سال کا بدلا بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورتحال میں اپنی بقا کی جدوجہد کررہے تھے۔
مسلمان انڈین نیشنلزم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ہندوستان میں آباد دونوں بڑی قوموں کے وجود کو تسلیم کیا جائے اور وہ آپس میں معاملات طے کرکے انڈین نیشنلزم کے لیے کام کریں۔ ان کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حقوق تسلیم کیے جائیں اور ہر سطح پر انہیں ان کا حصہ دیا جائے۔ برصغیر کے مغرب اور مشرق کے وسیع علاقوں میں وہ اکثریت میں تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حیثیت کو منوانا چاہتے تھے۔
ادھر انگریز اپنی بین الاقوامی سامراجی سیاست میں اتارچڑھاؤ کا شکار تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم اور دونوں جنگوں کے درمیانی عرصہ میں ان کی کوشش رہی تھی کہ ہندوستان میں داخلی امن رہے اور وہ جنگی تیاریوں میں ہندوستان کے وسائل کا بھرپور استعمال کرسکیں۔ اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی اصلاحات کا ایک پیکیج لاتے تھے۔ لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو۔مسلم تضاد شدید ہوجاتا تھا۔ وجہ یہ ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بلاشرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی، خود کو پورے ہندوستان کے عوام کا واحد نمائندہ ثابت کرتی جبکہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ میں رکاوٹ بن کرکھڑی ہوجاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس سے اٹھتا چلا گیا اور ہندو۔ مسلم جدلیات کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمائندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ چونکہ کانگریس آبادی کے لحاظ سے بڑے حصے کی نمائندہ تھی اور اس کی ایجی ٹیشن کی قوت بھی زیادہ تھی اس لیے وہ انگریزوں سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجاتی تھی۔1905ء میں تقسیم بنگال سے لے کر 1947ء کی تقسیم ہندوستان تک جدلیات کی یہ مثلث اسی کشمکش کا شکار رہی۔
کانگریس کی سودیشی تحریک کے دباؤ سے 1912ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کردی گئی اور مسلمانوں کو اس کے عارضی سیاسی و معاشی ثمرات سے محروم کردیا گیا۔ 1909ء کی منٹو۔مورلے اصلاحات اور 1919ء کی مانٹیگو۔چیمسفورڈ اصلاحات کے نتیجے میں بننے والی لیجسلیٹو کونسلوں میں جداگانہ نمائندگی کا اصول تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو نمائندگی دے دی گئی تھی لیکن وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی اپنی آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم تھی۔ تاہم مسلمان نمائندوں کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ محمد علی جناح بمبئی کونسل کے رکن تھے اور مسلم لیگ اور کانگرس دونوں میں شامل تھے۔ وہ 1916ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور میثاق لکھنؤ طے کرانے کی وجہ سے ہندو۔مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔ 20ء کے عشرے میں لیگ اور کانگرس نے سیلف رول یعنی سوراج کے لیے مشترکہ کوشش شروع کی اور لگا کہ جدلیات کی مثلت کے دو نقطے ایک دوسرے کے قریب ہوکر زیادہ قوت سے سوراج حاصل کرلیں گے۔
پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ، ترکی کی شکست اور خلافت کا خاتمہ، 20ء کے عشرے میں برصغیر کے مسلمانوں کی تمام تر توانائیاں تحریک خلافت میں بہا لے گیا۔ اس تحریک کا مقصد تو پورا نہ ہوا کیونکہ اتاترک نے خلافت کی بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی تھی۔ مگر برصغیر میں سیاسی مولویوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہوگئی۔ ان کا کردار ہندو۔مسلم۔انگریر جدلیات میں زیادہ تر مثبت کردار کے بجائے منفی کردار ادا کرنے کا تھا۔ وہ مسلمانوں کو قرون وسطیٰ کے احیائے اسلام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے اور برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے کانگرس کا ساتھ دینے کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حقوق کے تحفظ کی مسلم لیگ کی جدوجہد کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔
20ء کے عشرے کے اواخر میں دوسری عالمی جنگ کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔ حکومت برطانیہ نے اگلا آئینی پیکیج لانے کے لیے ہندوستانی لیڈروں سے مشورے کے لیے سائمن کمیشن بھیجا جو 1927ء اور 1928ء میں دو مرتبہ ہندوستان آیا۔ ایک مرتبہ پھر ہندو۔مسلم۔انگریز کی جدلیات کی مثلث میں کشمکش تیز ہوگئی۔ مسلمان متحدہ ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی، معاشی، معاشرتی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔ مسلم اکثریت کے علاقوں میں مکمل صوبہ کا درجہ صرف پنجاب اور بنگال کو حاصل تھا۔ سندھ صوبہ بمبئی کے حصہ تھا۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت مرکز سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ بلوچستان میں جو علاقہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا وہ ایک چیف کمشنری کا درجہ رکھتا تھا۔ باقی قلات اور دوسری ریاستوں پر مشتمل تھا۔ چنانچہ اس وقت مسلمانوں کی جدوجہد دراصل صوبائی خودمختاری کی تحریک کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ ان کے اولین مطالبات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنا، صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مکمل صوبہ کا درجہ دینا شامل تھا۔ مزید برآں وہ ایک فیڈریشن کا ڈھانچہ چاہتے تھے جس میں صوبوں کے پاس زیادہ اختیارات ہوں اور مرکز کے پاس چند ضروری مرکزی محکمے ہوں۔ جبکہ کانگرس مضبوط مرکز کی حامی تھی اور صوبوں کو کم سے کم اختیارات دینا چاہتی تھی۔ اس طرح مسلم۔ ہندو جدلیات کی کشمکش اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے مضبوط مرکز اور ڈھیلے ڈھالے وفاق کے مطالبوں کی شکل اختیار کرگئی تھی۔
ان حالات میں 1928ء اور 1927ء کے دو سال میں سیاسی کشمکش میں تیزی آئی۔ جناح کی تجاویز دہلی سامنے آئیں پھر کانگرس اور لیگ سمیت آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اور موتی لال نہرو کو سب کے مشترکہ مطالبات پر مبنی رپورٹ بنانے کا کام سونپا گیا تاکہ سائمن کمیشن کے ذریعے حکومت برطانیہ کو آئینی فارمولے کا ایک مشترکہ چارٹر پیش کردیا جائے مگر نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے فائدے کے تمام مطالبات کو یکسر نظرانداز کرکے ایک مضبوط مرکز پر مبنی وحدانی طرز حکومت کا منصوبہ پیش کردیا۔ مسلمان سخت مایوس ہوئے اور انہوں نے آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کرکے اپنا مطالبات کا -علیحدہ چارٹر پیش کردیا جسے قائداعظم کے چودہ نکات کہا جاتا ہے۔ محمد علی جناح حالات سے مایوس ہوکر انگلستان چلے گئے۔
یہاں تک یہ واضح ہوجاتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ کیا تھا اور وہ کسی قسم کی کشمکش سے دوچار تھے۔ مسئلہ نظریاتی ریاست کے حصول کا نہیں تھا بلکہ سیاسی و معاشی تحفظات کی کشمکش کا تھا۔ پاور سٹرکچر کے تینوں فریق یعنی انگریز، ہندو اور مسلمان ایک جدل میں ایک دوسرے کے ساتھ نبردآزما تھے۔ لیکن ہمارے نظریاتی ریاست کے علمبردار اسے صرف ایک نظریاتی ریاست کے حصول کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے 1930ء کے مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے سالانہ اجلاس میں علامہ محمد اقبال کے خطبہ صدارت کو بنیاد بناتے ہیں۔ آیئے اس خطبے کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس خطبے کا پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کا مکمل متن نہ تو پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں سے صرف ایک جملہ اپنے سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ جو یوں ہے کہ:
’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کردیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ، خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘
اردو درسی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ ’’خودمختار‘‘، اور انگریزی درسی کتابوں میں “autonomous” کے لفظ کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے جوکہ اصل خطبہ میں نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ علامہ کا مذکورہ خطبہ 1927-28ء کے پس منظر میں ہے جس میں آل پارٹیز کانفرنس، نہرو رپورٹ اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور قائداعظم کے چودہ نکات پیش ہوئے تھے۔ یہ پورا خطبہ ایک متحدہ ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک فیڈریشن پر مبنی ہے جو مسلمانوں کا عمومی مطالبہ تھا اس فیڈریشن کے اندر آپ نے سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے ساتھ ضم کرکے ریاست بطور ایک فیڈرل یونٹ یعنی صوبہ کے طور پر مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی آپ کا نیا مطالبہ نہیں ہے بلکہ آپ خود اس خطبے میں فرماتے ہیں کہ:
’’یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی۔ اس نے اس بنا پر اس تجویز کو رد کردیا تھا کہ اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہوگی جس کا انتظام کرنا دشوار ہوگا۔‘‘ اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا، نکال دیا جائے تو یہ مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہوجائے گا۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبے کے شروع کا حصہ مسلم قومیت کے تصور پر صرف کیا اور زور دیا کہ انڈین نیشنلزم برصغیر میں آباد قوموں کے وجود سے انکار میں نہیں، بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ انڈین نیشنلزم کی یہ تعریف سرسید سے لے کر جناح تک تمام مسلم رہنما کرتے تھے اور اس بنیاد پر متحدہ ہندوستان میں ڈھیلے ڈھالے وفاق کے قیام کے خواہاں تھے۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا:
’’اگر اکبر کا دین الٰہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہوجاتی لیکن تجربہ بتلاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کرکے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کرلیں۔ قومیت ہند کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘
آگے چل کر کہا:
’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کرلیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘
آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری مضبوط ہوگا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پاسکیں تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا:
’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہوجائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غبرجانبدار فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہوگا۔‘‘
علامہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کیا جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی مسلم لیگ پہلے سے کررہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کرکے ایک صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی مخالفت کی اور کہا کہ:
’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘
آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ:
’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔‘‘
آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا کہ:
(باوجودیکہ اسلام میں سود لینا حرام ہے، مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘(2’’
ان اقتباسات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس خطبہ میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن یعنی sovereign state کے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔ خود علامہ نے 1934ء میں اس کی تردید فرمائی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 1930-32ء کے دوران گول میز کانفرنسوں کے انعقاد کے دوران کیمبرج کے طلبہ کے گروپ نے چودھری رحمت علی کی قیادت میں پمفلٹ شائع کیا جس میں پاکستان کے نام سے شمالی مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کے ملک کا نقشہ شائع کیا گیا تھا۔ 1934ء میں علامہ اقبال کی کتاب رموزخود ی کے انگریزی ترجمے پر ان کے پروفیسر ای۔جے ٹامپسن نے تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الہ آباد کو چودھری رحمت علی کی پاکستان کی تجویز سے منسلک کردیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر ٹامپسن کے خطوط کے مجموعہ میں شامل ہے جسے علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا:
’’۔۔۔آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہوگا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیٰحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘(3(
یہ امر بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ خود قائداعظم محمدعلی جناح نے اپنے کسی بیان میں اور مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرارداد میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ 1938ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ دسمبر 1938ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات مولانا شوکت علی، کمال اتاترک اور علامہ اقبال کے بارے میں قائداعظم نے اپنے صدارتی خطبہ کے اختتام پر تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا:
“His death too is an irreparable loss to Muslim India. He was personal friend of mine and a singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His able poetry interprets the true aspiration of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us”.(4)
ترجمہ : ’’ اٖن کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ میرے ذاتی دوست تھے۔ اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔ آپ کی پرمغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ شاعری ہمارے لئے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لئے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘‘
آپ نے ان کی شاعری اسلام سے وابستگی اور ذاتی دوستی کے حوالے سے خراج تحسین پیش کیا۔ علامہ کے بارے میں بطور سیاست دان یا فلسفی کے کچھ نہیں کہا۔ اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے تصور کے خالق کا تو دور دور کوئی ذکر نہیں ہے۔
اسی اجلاس میں مسلم لیگ نے تعزیتی قرارداد بھی منظور کی۔ اس میں بھی آپ کو اسلام کے سنجیدہ فلسفی “a sage philosopher of Islam” اور عظیم قومی شاعر”great national poet” کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔(5(
گویا گزشتہ 8 سال سے لیگ کو یہ علم نہیں تھا کہ علامہ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کررکھا ہے اور اس حوالے سے آپ کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ایسا تھا ہی نہیں۔
مارچ 1940ء میں لاہور کا مسلم لیگ کا اجلاس جس میں پہلی بار مسلم لیگ نے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مبنی مکمل آزاد مملکتوں sovereign states کے قیام کا مطالبہ کیا، اس جلسے میں قائداعظم سمیت کسی مقرر نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا۔ چہ جائیکہ ان کے تصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے کوئی ذکر کیا جاتا۔ حالانکہ جس جگہ پر جلسہ ہورہا تھا وہاں سے نصف کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر علامہ اقبال کا مزار ان دنوں زیرتعمیر تھا۔
یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ قائد اعظم نے اپنی طویل افتتاحی تقریر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کی حمایت میں ماضی کا جو حوالہ دیا وہ پنجاب کے مہاسبھائی لیڈر لالہ لاجپت رائے کا تھا۔ جس نے 1924ء میں اخبار ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سکیم پیش کی تھی۔ غالباً یہ برصغیر میں پہلی بار تھا کہ ایسی کوئی سکیم پیش کی گئی تھی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ’’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی۔ (1( پٹھانوں کا صوبہ یا شمال مغربی سرحد۔ (2) مغربی پنجاب (3) سندھ اور (4) مشرقی بنگال۔ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہوگا۔ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیرمسلم انڈیا میں تقسیم ہوگا۔‘‘ 6
قائداعظم نے مارچ 40ء کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے انہی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لاجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو اس نے 16 جون 1925ء کو کانگرس کے صدر سی۔آر۔داس کو لکھا تھا۔ قائداعظم نے یہ پورا خط پڑھ کر سنایا جس میں لاجپت رائے نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ:
’’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیے کوئی راہ نجات نکالنی چا ہیے۔‘‘ 7
مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی تو اس کی تائید میں چودھری خلیق الزمان کے علاوہ مولانا ظفرعلی خان نے بھی تقریر کی۔ ان کے علاوہ جن اصحاب نے تقریر کی ان میں سردار اورنگ زیب (سرحد)، سر عبداللہ ہارون (سندھ)، نواب محمد اسماعیل (بہار)، محمد عیسیٰ خان (بلوچستان)، عبدالحمید خاں (مدراس)، اسماعیل چندریگر (بمبئی)، عبدالرؤف شاہ (سی پی) اور ڈاکٹر محمد عالم شامل تھے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ ایسی ہی سکیم غدرپارٹی کے بھائی پرمانند نے 1914-15ء میں بھی پیش کی تھی۔ (8( لاہور کے رہنے والے مولانا ظفرعلی خان سمیت کسی نے بھی حوالہ نہ دیا کہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصور علامہ اقبال نے 10 سال پہلے پیش کیا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کی یادداشت کمزور تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ ایسا ہوا ہی نہیں تھا میں نے 1940ء سے 1947ء میں قیام پاکستان تک مسلم لیگ کے تمام اجلاسوں کی کارروائیاں کا بغور مطالعہ کیا۔
1942ء میں مسلم لیگ نے لفظ پاکستان کو قرارداد لاہور کے ساتھ منسلک کرلیا۔ پھر 1945-46ء کے انتخابات میں مطالبہ پاکستان مسلم لیگ کا انتخابی منشور کا حصہ بن گیا۔ لیکن ان سات برس کی تمام کارروائیوں میں کسی ایک جگہ بھی اس مطالبے کے ساتھ علامہ اقبال کو منسوب نہیں کیا گیا۔ حالانکہ 1943ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی میں انورقریشی نے جلسہ کے شروع میں ترانہ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا‘‘ پڑھ کر سنایا اور اسی اجلاس میں جی ایم سید نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال کیا۔ اور پھر قائداعظم نے صدارتی تقریر کی۔ مگر علامہ کا تصور پاکستان کے خلاق کے طور پر کسی نے ذکر نہ کیا۔(9 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد اپنے انتقال ستمبر 1948ء تک اپنے کسی بیان میں قائداعظم کی جانب سے اس کا اظہار نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اس دوران 21 اپریل 1948ء کو یوم اقبال بھی آیا جسے اس وقت تک سرکاری طور پر نہیں منایا جاتا تھا۔ لوگ اپنے طور پر منایا کرتے تھے۔
یہ بات تحقیق طلب ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کب اور کہاں شروع کیا گیا۔ غیر سرکاری طور پر پنجاب کے مسلم لیگی حلقوں میں 1945-46ء کے انتخابات میں اس کا ذکر شروع کردیا گیا تھا۔ اس میں اخبار نوائے وقت پیش پیش تھا۔ لیکن سرکاری طور پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے یہ سلسلہ بہت بعد میں شروع کیا۔ یہ تاریخی مغالطہ دور کرنا ضروری تھا اس لیے بحث بہت دور تک چلی گئی۔ بتانا صرف یہ تھا کہ قیام پاکستان نظریوں یا تصورات یا خوابوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ برصغیر میں ہندو۔مسلم۔انگریز کی جدلیات کی مثلث میں جو کشمکش چل رہی تھی، اس کے نتیجے میں ایک انجام تک پہنچا تھا۔
حواشی:
1- Al-Beruni, Abu Rehan, Indica, Translated by Edward Sachau, Munshiram Manoharlal Publishers, New Delhi, 3rd Edition 1992, pp.17-24
2- (i) For complete original in English of Allama Iqbal’s presidential address in the Annual Session All India Muslim League at Allahabad, December 1930, See
(i) Foundations of Pakistan, All India Muslim League Documents: 1906-1947, Edited by Syed Sharifuddin Pirzada, Vol II (1924-47), National Publishing House, Karachi, 1970, pp. 154-171
(ii) Syed Abdul Vahid, Thoughts and Reflections of Iqbal, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1973, pp.161-194
(iii) اردو میں علامہ اقبال کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد ، 1930ء کے خطبہ صدارت کا مکمل متن دیکھئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد 5 ۔ مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء (1849-1947ء)۔ زاہد چودھری/حسن جعفرزیدی۔ ادارہ مطالعہ تاریخ۔ 1991ء۔ ص ص 395-417
3- S.Hassan Ahmad, Iqbal: His Political Ideas at Crossroads, Print Well Publications, Aligarh 1979, p.80 (p.94)
اردو متن کے لیے دیکھئے۔ زاہد چودھری/حسن جعفرزیدی۔ محولہ بالا ص 418
4- Foundations of Pakistan, op, cit, see 26th session. Patna, 1938, p. 303
5- Ilid . p 303
6- M.H. Saiyid, Muhammed Ali Jinnah, A Political Study, Elite Publisher, Karachi, 2nd Ed. Reprinted 1962, p.109
7- Foundation of Pakistan, op.cit, 27th session, Lahore 1940, pp. 335-336
8- ibid. pp. 343-345
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.