محبِ وطن کون ہے؟

 

(شیخ خالد زاہد)

ایک انتہائی احمقانہ سوال ذہن میں رہ رہ کر کچوکے لگا رہا ہے (جی ہاں بلکل درست کہا آپ نے احمقانہ سوال احمق کے دماغ میں نہیں تو!) سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حصول کی جدوجہد کرنے والے لوگوں کو آزادی سے محبت تھی نفاذِ اسلام سے یا پھر وہ صرف علیحدگی چاہتے تھے یعنی دوقومی نظریہ کی بنیاد؟

ان تمام مفروضوں میں “محبت” ایک مشترکہ جذبہ ہے یعنی “آزادی سے محبت” یا “اسلام اور اسلامی اقدار سے محبت” یا ” معاشرت سے محبت”۔ اس محبت کی تکمیل کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے جان مال عزت آبرو جیسی بھی قربانی کی ضرورت پڑی بے دریغ دے دی اور پاکستان کے حصول کو یقینی بنایا۔ پاکستان ایسے لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو محبت کرنے والے لوگ تھے کیونکہ دنیا کی کسی بھی ثقافت اٹھا کر دیکھ لو محبت قربانی دیتی ملے گی۔ یہ تو طے ہوگیا کہ پاکستان کیلئے حقیقی جدوجہد کرنے والے لوگ محبتوں کے امین تھے۔ ہمیں یہ ثبوت بھی بہت واضح طور پر ملتے ہیں کہ قربانی دینے والے نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میری قربانی کا کیا صلہ ملے گا یا میری قربانی کسی کو یاد بھی رہے گی۔ محبت تھی تو بس قربان ہوگئے۔

قربانی دینے والے محبت کرنے والے لوگ زمین کی محبت میں ایسے گم تھے کہ انہیں کسی شے کی کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ یہ اپنے رب کے حضور سجدہ شکر میں مصروف تھے۔ محبت کرنے والے لوگ زبان سے بھلے نا کہیں مگر شکرگزاری اپنے عمل ضرور واضح کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے اہل و عیال کو تلواروں اور برچھیوں سے کاٹا گیا جن کی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوئیں جنہوں نے روپے پیسے پر لعنت بھیجی یہ در حقیقت یہی وہ لوگ تھے جو محبت کے جذبے سے سرشار تھے اور انکی اس سرشاری کی بدولت ہی پاکستان کا وجود ممکن ہوسکا۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔

دوسری طرف ایک وہ طبقہ تھا جو پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں میں پہلے ہی سے مقیم تھے ان لوگوں نے تقسیم کے بعد آنے والوں کو خوش آمدید کہنا تھا اور کہا۔ لیکن کیا اس طبقے کو بھی پاکستان سے ایسی ہی محبت ہوسکتی تھی جو جیسی وہاں سے آنے والوں کوتھی۔ میری کم عقلی اور مادہ پرستی مجھ سے یہ کہہ رہی ہے کہ یہ لوگ اس محبت کی دھول بھی نہیں چھو سکتے جیسی محبت مہاجرین کی تھی۔ کیونکہ یہاں مقیم لوگوں نے شائد کسی قسم کی قربانی نہیں دی تھی قربانی سے میری مراد طبعی قربانی سے ہے۔

اب کیا ہم مذکورہ تشخیص کو پاکستان سے محبت کرنے اور نا کرنے والوں کا پیمانہ بنا سکتے ہیں؟ (یقیناً یہ بھی ایک انتہائی نامعقول سوال ہوگا اور جواب “نا” ہوگا) مگر حالات و واقعات اس طرح کی سوچ پیدا کر دیتی ہے کہ انسان کسی بھی سوال کا جواب طلب کرنے کیلئے کھوج شروع کردیتا ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً سات دہائیاں بیتنے کو ہیں۔ جس شے سے بھی محبت ہوتی ہے اس کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اسے سنوارا، سجایا جاتا ہے اسے برے اور نامناسب رویوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے یہ کہہ لیجئے کہ اگر محبت ہوتی ہے تو سب خیال ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ محبت کی اگر مکمل نہیں تو تقریباً تشریح اس سے مختلف نہیں ہوگی۔

اب ہمارے لئے باعث تشویش بات یہ ہے کہ اگر تو سب ہی محبِ وطن اور محب پاکستان ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں تو پاکستان کے اور پاکستان میں بسنے والوں کے حالات بد سے بدتر کیوں ہوتے چلے گئے۔ کیا آپ اپنے گھر کی مرمت نہیں کرواتے کیا آپ اپنے گھر میں کسی بھی نوعیت کا کام ہو، نہیں کرواتے۔ سالانہ رنگ روغن نہیں کرواتے۔ کرواتے ہیں سارے کے سارے گھر والے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ یہ اچھا نہیں لگ رہا اسکی مرمت یا ٹھیک کروائیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی صورتِ حال بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کہیں صفائی ستھرائی جیسے بنیادی مسائل حل نہیں کئے جا رہے تو کہیں پانی کی ترسیل کا مسئلہ درپیش کسی کو نوکری نہیں ملی تو خودکشی کر لی کسی کی آبروریزی ہوگئی تو اسنے خود کشی کرلی کسی نے بچوں سے گھر کی ذمہ داریاں نا نبھا پانے پر خود کشی کرلی اور کسی نے محبت نا ملنے پر خودکشی کرلی۔ان سب کا جواب ہے کسی کہ پاس؟

الحمدللہ ہم نے دفاع کے شعبے میں کمال مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ ہماری افواج دنیا کی صفہ اول کے فوجی دستوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ہم نے ایٹم بنا رکھا ہے اور دنیا کی گنتی کی ایٹمی ریاستوں میں ہمارا بھی شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج کہ سربراہ کو متحدہ اسلامی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ہماری سرحدوں کی حفاظت دنیا کے محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے۔ یہ پاکستان کا مثبت چہرہ ہے اس چہرے کی بدولت ہماری جانب کوئی میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ساری دنیا نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ہمارے پڑوسی کی گستاخی پر ملنے والے جواب سے ہماری چابک دستی اور ہنر مندی کا اندازہ لگا چکی ہوگی۔

محبت کا تذکرہ ابھی باقی ہے، کیا محبت کرنے والے لوگ کیا محبت زدہ لوگ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ نہیں کبھی بھی نہیں، مگر یہ کیسے لوگ ہیں جو پچھلے 70 سالوں سے پاکستان سے محبت کے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں اور پاکستان ان کی محبت کے طفیل کمزور سے کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے کیا یہ پاکستان کیلئے دیمک یا جونک بن گئے ہیں۔ محبت خاک نشینوں کا شیوا ہے۔ جو محبت کے دعوے کرتے ہیں وہ محبت نہیں کرتے انہیں تو عرضِ پاک کی خاکی رنگت بھی نہیں معلوم۔ کبھی یہ خاک نشینوں سے روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرتے ہیں ہم خاک نشین محبت زدہ لوگ ان کے جھوٹے وعدوں میں ان کے بہلاوے میں آتے رہے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں۔ کبھی کوئی موٹروے کہ ذریعے ترقی کے راستے بنانے کا دعویٰ کرتے رہے اور بناتے رہے، موٹروے بھی بن گئیں ان پر ہری پیلی گاڑیاں بھی بٹ گئیں چل گئیں مگر خاک نشین خاک نشین ہی رہے، کون ترقی کرتا رہا کس کی ترقی ہوتی رہی ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔

کسی نے مذہب کا نام لے کر دھوکا دیا تو کسی نے لسانیت کی ڈگڈگی بجائی یہ خاک نشین سب سے محبت کرتے رہے کیونکہ یہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہیں جو کوئی بھی کہتا ہے میں پاکستان کی خدمت کرونگا یہ اس کو پاکستان کا سچا اور مخلص سمجھ لیتے ہیں اور اسکے لئے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ یہ لوگ گدھ کی بن چکے ہیں اور گدھ مردار پسند کرتا ہے، ان لوگون نے اور ان لوگوں کے جھوٹ سے بولے گئے ہیں کہ اب یہ سچ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے کسی حد تک محروم ہوچکے ہیں، اب یہ اتنے بدظن ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہی مارنے لگتے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ یہ محبت کرنے والے محبت زدہ لوگ بھی گدھ والے کام نا شروع کردیں جو دوسرے لوگوں کی طرح پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں جو پاکستان کی آبروریزی کر رہے ہیں۔ لیکن نہیں یہ لوگ ایسے نہیں ہوسکتے ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون انہیں ایسا نہیں کرنے دیگا۔ یہ پاکستان کیلئےجب بھی ضرورت پڑے گی یہی قربانی دینگے کیونکہ ان لوگوں کا ٹھکانا تو کسی اور دیس ہوتا ہے یہاں تو یہ اپنی روزی روٹی کیلئے آتےہیں۔ کوئی سعودی عرب چلا جاتا ہے کوئی دبئی اور لندن کی راہ لیتا ہے کسی کا دیس امریکہ ہے۔

پاکستانی تو میں اور آپ ہیں یہ نہیں جو اپنے اوپر صاف ستھرے اجلے کپڑوں میں ملبوس گندے اور بدبودار جسم چھپائے پھرتےہیں، ہمارے کپڑے ضرور گندے ہوتے ہیں مگر ہمارے جسم اور ہماری روح بالکل اجلی ہوتی ہے۔ جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں انہیں سچ سننے کی عادت نہیں ہوتی وہ جھوٹ ہی سننا چاہتے ہیں جیسے کہ “آپ سے بہتر کوئی حکمران ہو ہی نہیں سکتا، آپ کے دور کو مورخ سکون اور چین کی شاندار مثال لکھے گا، وغیرہ وغیرہ”۔ اگر کوئی سچ بولتا ہے تو راہ چلتے غائب کر لیا جاتا ہے اور اس کے گھروالے اسکی سچائی کا خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں۔

پاکستان کو پاک و صاف کرنے کی ذمہ داری بھی ہمیں ہی اٹھانی ہوگی اور ہمیں اپنا حقِ رائے دہی استعال کرتے ہوئے یہ سب باتیں ذہن میں رکھنی ہونگی کہ پاکستان سے سچی محبت کون کرتا ہے یا کرسکتا ہے کس کے اعمال سے ثابت ہوتا ہے یا کس کا شجرہ نصب کہاں سے ملتا ہے ۔ یہ دعوؤں کی محبت اور عملی محبت میں فرق سمجھنا ہوگا کون خدمت اور مفادات کے حصول کیلئے سیاست کرنا چاہتا ہے ۔ ہم خاک نشین پاکستان سے ہر طرح سے محبت کرتے ہیں اور کرتے رہینگے، چاہے وہ محبت پاکستان کی آزادی سے متعلق ہو یا اسلام سے متعلق ہو یا معاشرتی حوالے سے ہو۔ ہمیں ہر حال میں پاکستان کی بقاء چاہئے اور وہ بھی رہتی دنیا تک۔ اور کوئی ہو نا ہو ہم تو محبِ وطن ہیں۔