تمھیں لکھنا نہیں چاہیے تھا؟
از، نصیر احمد
ہاہا، وہ تو شاید ہمیں ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔ رشتے داری نظام میں کبھی کبھار ہمیں مٹی کا مادُھو یا صوفیانہ صفر بنا دیا جاتا ہے۔ تمھیں تو پتا ہی ہے کہ اس نظام میں کیسے کیسے ناٹک اور ڈھونگ کر کے ایسے حالات بنا دیے جاتے ہیں کہ کوئی اچھی، بہتر، اعلیٰ اور سچی بات نہ ہو سکے یا کوئی بھی ایسی بات نہ ہو سکے جو رشتے دار سننا نہیں چاہتے ہوں۔
اس کے لیے ان کے پاس بڑے ہتھ کنڈے ہوتے ہیں۔ کبھی شور و غوغا، کبھی بے رخی، کبھی اتحادی نظام، کبھی سازش، کبھی سفارش، کبھی خوشامد، کبھی محبت، کبھی مِعیار گرانے کی دھمکی، کبھی کوئی نقصان پہنچانے کی دھمکی، کبھی دین داری کا استعمال، کبھی جمہوریت کا استعمال، کبھی پ٘ند و نصائح، کبھی آپ کو معاملات سے باہر کر دینا، کبھی آپ کے خلاف ایک ماحول سا بنا دینا، کبھی اخلاقیات کو مُہر سی بنا دینا، کبھی ایسے کسی کو آپ پر چڑھا دینا جس کو بَہ وجۂِ احسان مندی یا محبت یا دونوں کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکیں، یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے کچھ نہ سکیں۔
کبھی پرے دیکھ کر ہنستے ہوئے، کبھی ٹکریں مارتے ہوئے، کبھی مُنھ بناتے ہوئے، کبھی گِریہ زاری کرتے ہوئے، کبھی طعنے دیتے ہوئے، کبھی تمسخُر اڑاتے ہوئے، کبھی غصہ دکھاتے ہوئے، کبھی بہت زیادہ دانا بنتے ہوئے، کبھی بَہ ذریعۂِ حساسیت منہ بند کراتے ہوئے۔
اتنے اوزار، ذرائع اور وسیلے ہیں کہ گنتی ہی نہیں ہو پاتی۔ اور کچھ نہیں بن پاتا تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہماری ماتم ہوئی ہے اور تم کو فلسفے سوجھ رہے ہیں۔ دوست لوگ بھی یہ سب ہنر آزماتے ہیں لیکن رشتے داروں کے مقابلے میں کم کام یاب ہوتے ہیں۔
معشوقائیں بھی یہ ہنر آزماتی ہیں، لیکن ان کی کام یابی کا ریٹ بھی اتنا زیادہ نہیں ہے۔ کام کاج پر بھی کبھی کبھار جَتھے سے بن جاتے ہیں، وہ بھی یہ سب کرتے رہے ہیں۔ اور ان کی کام یابی کا ریٹ بھی ہمارے معاملے میں کچھ خاص نہیں ہے۔
مخالفین بھی یہ کارِ روائیاں کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی اتنے کام یاب نہیں ہوئے۔ کچھ لوگ ناکام زندگی کے تھان کے تھان بھی کھول کر پھیلانے لگتے ہیں کہ دیکھو سارا مال ہی بے کار ہے۔ یہ مسلسل چلتا رہتا ہے اور کون ہر وقت جھگڑے کی بِناء پر کبھی کبھی ہم بھی مٹی کے مادُھو اور صوفیانہ صفر ہو جاتے ہیں اور تب ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کچھ بھی اچھا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سب کارِ فضول اور الفت ناکام ہے۔
لیکن اس کیفیت میں ہم زیادہ دیر رہ نہیں پاتے۔ بہت قریبی آدمی بھی یہ ناٹک ڈھونگ کرے تو اس سے ایک دوری سی ہو جاتی ہے لیکن جو ہمیں ٹھیک لگتا ہے وہ کہتے کرتے رہتے ہیں۔ اور ٹھیک کے لیے کیس بھی اچھے بناتے ہیں۔ کہ کیس کے بغیر ٹھیک تو گپ شپ ہی ہوتی ہے۔
تو پھر لکھنے کا کیس کیا ہے؟
ہمیں اچھا لگتا ہے اور اس میں ہماری خوشی بھی ہے ہماری انسانی، شہری، انفرادی، اخلاقی اور کائناتی ذمے داری بھی ہے اور ہم سچائی کے لیے، تفہیم کے لیے، جمہوریت کے لیے، تفریح کے لیے، ابلاغ کے لیے، بہترین کے لیے، اعلیٰ کے لیے، عوام کے لیے، شجر ِظلمت یعنی کاملیت اور بدی کی دیگر شکلوں کے کیس ناتواں کرنے کے لیے، فردا کے لیے، عشق و محبت کے لیے، حقوق اور فرائض کے فروغ کے لیے، سطحی اور گھٹیا کے خلاف معیار کی موجودگی پر اصرار کے لیے اور اس قسم کی دیگر وجوہات کی بنا پر لکھتے ہیں۔
لیکن مجھے تمھاری ناقدری کا دکھ ہے اس لیے کہا۔
اس کا دکھ ہمیں بھی کبھی کبھی ہوتا ہے، لیکن ہمارے افکار، حالات، مزاج، عادات، معاشرہ اور لٹریری سین ایسا آمیزہ بناتے ہیں کہ ہماری قدر کم ہی ہو سکتی تھی۔ لیکن جو لوگ کرتے ہیں، وہ بہت زیادہ کرتے ہیں۔
ناقدری کے اس دشت میں کبھی مدّاحی کی کوئی لیلیٰ آ ہی جاتی ہے۔ پھر جب آپ کرتیویہ نبھا رہے ہوں، تو قدرو بے قدری کا کیا دیکھنا۔
اب ادھر لوٹے ہیں تو رشتے داروں سے اور جاننے والوں اور ذرا دور پار کے دوستوں سے معاملے رہتے ہیں اور ان سب کی بھاری اکثریت (اور شاید ہلکی سی اقلیت بھی ہماری ب٘ہ وجوہ محبت دل داری ہی کرتی ہے) اور بہت کچھ سمجھنے کے ساتھ ساتھ انتہائی ناکام ترین شخص بھی سمجھتی ہے۔
اس تفہیم کا ابلاغ بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسی باتوں پر ہم بہت زیادہ دُکھیا ہوتے تو کب کے مٹی کے مادھو اور صوفیانہ صفر ہو چکے ہوتے۔
ارے تم نے تو تقریر ہی کر دی، ادھر تو جیسے تم کہتے ہو ہنسی ٹھٹھولی ہی ہو رہی تھی۔
تو ٹھٹھولی اس معاملے پر کرو ناں، جس پر ہمیں کچھ بے یقینی اور تشکیک سی ہو۔ ہاہا، چلو پھر سہی۔