نیوزی لینڈ کو تو شاباش، لیکن ہالوکاسٹ اور ہماری عینک

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

نیوزی لینڈ کو تو شاباش، لیکن ہالوکاسٹ اور ہماری عینک

از، سید کاشف رضا

بعض چیزوں کی سمجھ اپنی عینک لگا کر دیکھنے سے نہیں آ سکتی۔ یہودی ہالوکاسٹ اور اس پر مغرب کی شرمندگی بھی شاید انہی میں سے ہے۔

نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمانوں کے قتل کے بعد وہاں کے شہریوں اور وزیراعظم کی ندامت، حیا اور ہم دردی کے مظاہرے ہم کئی روز سے دیکھ رہے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ توبہ نعوذ باللہ اگر یہ تعداد سیکڑوں میں ہوتی تو؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہالوکاسٹ میں کتنے یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا؟ تحقیق و تفتیش سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔ ساٹھ لاکھ! ذرا سوچیے ساٹھ لاکھ! اور اُس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تھی۔

اس ہالوکاسٹ کے بعد مغرب میں یہودیوں سے شرمندگی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں اگر کوئی ہالوکاسٹ کی تردید کرتا یا اسے جسٹی فائی کرتا تو سوچیے اس شرمندہ معاشرے میں اس سے نفرت حق بہ جانب ہوتی یا نہیں۔ اس ہالوکاسٹ کی تصدیق یہودیوں نے بھی کی، مغرب اور اتحادیوں نے بھی کی، روسی کمیونسٹوں نے بھی کی اور خود نازیوں نے بھی کی۔

یعنی اندازہ کیجیے کہ ایک خطہ ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل پر شرمندہ ہے اور آپ کو ان کی شرمندگی پر بھی اعتراض ہے؟ صرف اس لیے کہ آپ یہودیوں کو بہ طورِ قوم اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ کیا کسی کو معلوم ہے کہ خود اسرائیل کے یہودیوں کے اندر فلسطینیوں کے حقوق کی کتنی بڑی اور طویل جد و جہد چلتی رہی ہے؟ اور یہ جد و جہد وہی لوگ کرتے رہے ہیں جنہیں پاکستان میں آپ موم بتی مافیا کہہ کر ذلیل کرتے رہے ہیں؟

ان ساٹھ لاکھ یہودیوں میں سے صرف ایک این فرینک نامی چودہ سالہ لڑکی تھی۔ آپ صرف اسی کی ڈائری پڑھ لیں تو سوچیں گے کہ اتحادی فوجیں اگر ایمسٹرڈم پر قبضہ تین ماہ پہلے کر لیتیں تو وہاں محصور این فرینک بچ جاتی اور بڑی ہو کر کیسی با کمال مصنفہ بنتی۔ صرف ایک لڑکی کو بچا نہ سکنے کی شرمندگی ایسی ہے تو ساٹھ لاکھ انسانوں کو بچا نہ سکنے کی شرمندگی کتنی ہوگی؟

آج نیوزی لینڈ میں کوئی کرائسٹ چرچ سانحے کو جسٹی فائی کر سکتا ہے؟ نہیں۔ کرے گا تو اس کے سر پر کوئی ایگ بوائے egg boy انڈا پھوڑ کر اپنی نفرت کا اظہار کرے گا۔ سوچیے اگر کوئی ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل پر جسٹی فکیشن دے یا اسے deny کرے تو کیا ہمیں بھی اسے مسترد نہیں کرنا چاہیے۔

ہاں دنیا کے دو خطے ایسے ہیں جہاں کم یا وسیع پیمانے پر قتلِ عام پر شرمندگی یا soul searching کی عظیم روایت موجود نہیں۔ ایک افریقہ اور دوسرے ہمارا بر صغیر! بَل کہ شاید افریقہ کے ادیب اور اُن کا اجتماعی ضمیر اس معاملے میں ہم سے بہتر ہی ہوں۔

رنگ، نسل، زبان، فرقے، مذہب کی بنیاد پر نفرت کو خیر باد کہنا ہو گا۔

ہولوکاسٹ تردید کی مخالفت کا یہی سبق ہے۔ جیسنڈا آرڈرن کے طرزِ عمل کا یہی سبق ہے۔

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔