ہم مارکس سے خائف کیوں ہیں ؟
(عامر رضا)
بہاولپور میں ایم فل کا تھیس جلد کروانے دکان پر پہنچا تو دونوں وراق (جلد ساز) کام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف اور رمضان میں ہر چینل پر آنے والے مولانا کا بیان سن رہے تھے۔ مولانا کا جوش خطابت عروج پر تھا۔مولانا فرما رہے تھے کہ ’کچھ لوگوں کے قلم سے سیاہی پھیلتی ہے اور کچھ لوگوں کے قلم سے اجالا‘ یہ سنسنے کی دیر تھی کہ میں بھی مولانا کی طرف متوجہ ہوگیا۔فرمانے لگے ’کارل مارکس کو دیکھیں اس کے قلم سے کیسی سیاسی پھیلی اور اقبال کو دیکھیں اس کے قلم سے کیسا اجالا پھیلا‘۔(انہوں نے اور بھی نام لیے تھے لیکن مجھے صرف مارکس اور اقبال ہی یاد رہے۔)جس اقبال کے قلم سے اجالا پھیلا وہ بھی مارکس سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ ضرور کہتے ہیں۔وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیبنیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاباسی طرح جاوید نامہ میں کہتے ہیں کہصاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل ہمارے پبلک ڈسکورس میں مارکس ایک ملحد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عقل و خرد کے مقابلے میں مذہب سب سے بڑی دلیل ہے، دلیل بھی ایسی جو مخالف کو چاروں شانے چت گرا دے اور اگر وہ کوئی جواب دینے کی کوشش کرے تو پھر بپھرے ہجوم کے ہاتھوں سنگساری سے لے کر، زندہ جلا دینے اور پھانسی کے پھندے تک بہت سے حربے ہیں جو اسے ہمیشہ کے لیےچپ کروا سکتے ہیں۔ مشعال خان کو ہی لیں۔ ہجوم کے ہاتھوں انسانیت سوز سلوک اور درس ناک موت، اور اس کے کمرے سے نکلا تو کیا نکلا: دیوار پر لگی ہوئی کارل مارکس کی تصویر ۔۔۔چینلز پر جو فوٹیج قتل کے فوری بعد آئی اس میں وہ تصویر موجود تھی لیکن اس کے بعد کی فوٹیجز میں وہ تصویر موجود نہیں ہے۔شاید کسی نے سوچا ہو کہ جس کے قلم سے سیاہی پھیلتی ہو اسے ہٹا دینا ہی مناسب ہے۔مارکس کے قلم سے سیاسی پھیلنے والی دلیل اور اس سے لوگوں کو متنفر کر کے مولانا کس کا کام آسان کر رہے ہیں۔اس طبقے کا جس کے بڑی بڑی گیٹڈ کمیونیٹیز میں بنی ہوئی عالیشان مساجد میں وہ جمعہ کی نمازیں پڑھا تے ہیں۔مولانا یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ ان کمیونیٹز کا تو سلمز (کچی آبادیوں ) نے محاصرہ کیا ہوا ہے، جہاں کے باسی ان آبادیوں میں محصور ہیں اور حفاظت کے لیے گارڈ رکھ چھوڑے ہیں۔صرف ایک مولانا ہی کیا یونیورسٹی اساتذہ، لبرل اور رائٹ کے حضرات کی اکثریت یہ بات مانتی ہے کہ مارکسزم ناکام ہو گیا۔ ہمارے دوست اپنے دعوے کے حق میں سوویت یونین کی ’ناکامی‘ کی مثال دیتے ہیں۔اس کا جواب ٹیری ایگلٹن نے اپنی کتاب ’وائے مارکس واز رائٹ‘ ( مارکس کا موقف کیوں ٹھیک ثابت ہوا؟) میں دیا ہے۔ کتاب میں اس نے مارکس کے ناقدین کے دس بڑے اعتراضات کو لیا ہے اور دس ابواب میں ان کے جوابات دیے ہیں کہ مارکس کیوں ٹھیک تھا اور موجودہ دور میں بھی کیوں درست ہے اور آنے والا وقت کیوں اس کی حقانیت ثابت کرے گا۔سرمایہ داری آج جس معراج پر ہے شاید مارکس کے وقت اسے اتنا عروج حاصل نہیں ہوا تھا۔2001ء کے ورلڈ بنک کے اعداو شمار کے مطابق دنیا میں دو ارب 70 کروڑ سے زائد افراد ایک ڈالر کے کم آمدن رکھتے تھے۔ 2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی آبادی کا 10 فی صد سے زیادہ حصہ ایک ڈالر سے کم کی آمدن رکھتا ہے۔ تبدیلی ہے مگر سست روی کا شکار اور جتنے زیادہ لوگ اس غربت کے دائرے سے نکلتے ہیں اتنے ہی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔جو لوگ انتہائی غربت میں رہتے ہیں ان تک زندگی کی بنیادی سہولتیں پہچنا ہی دشوار ہے، 2030ء تک ان کی زندگی میں تبدیلی کی کوئی امید نہیں کوئی صورت نہیں۔شہروں میں آباد ہوتے ہوئے سلمز کی صورت حال ان سلمز سے بہتر نہیں جن کا حال انجیلز نے اپنی کتاب ’کنڈیشن آف ورکنگ کلاس ان انگلینڈ‘ ( انگلینڈ میں کارکنوں کی حالت زار) میں بیاں کیا تھا۔یہ سلمز غربت، بھوک، بے روزگاری اور بیماریوں کی آماجگاہ ہیں۔شہروں کے ان علاقوں میں اموات کی شرح شہر کے پوش علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔دولت اور طاقت کا بڑھتا ہوا ارتکاز، بڑھتی ہوئی سامراجی جنگیں، شدت پسندی کا عفریت اور استحصال کے نت نئے طریقے، یہ سبھی کچھ وہی ہے جن کی طرف مارکس نے 200 سال پہلے نشاندہی کر دی تھی۔اس وقت انگلیڈ کی ورکنگ کلاس ان کسانوں سے تشکیل پا رہی تھی جو شہروں میں روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کے لیے مجبور تھے۔کیا یہ عمل رکا؟ نہیں بالکل نہیں؟برازیل، چین، روس، انڈیا اور پاکستان میں آج بھی بے حال کسان شہروں کی فیکٹروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں جو عالمی برانڈ کی کمپنیوں کے مال تیار کرتے ہیں۔ جہاں وہ ہیلتھ، سوشل سکیورٹی اور دیگر مراعات کے بنا کام کرتے ہیں۔ جن کی خبر کارپوریٹ میڈیا پر صرف اس وقت آتی ہے جب وہ حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔وہ بڑی بڑی غیرملکی برانڈز کی کمپنیاں ان کی موت کا معاوضہ تک ادا نہیں کرتیں۔ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے بعد بھی ملکی میڈیا پر اتنا ٹائم حاصل کر نہیں کر سکتیں جتنا وقت کتے اور بلیوں کے کرتبوں کی ویڈیوز حاصل کرتی ہیں۔کسان سے فیکٹری مزدور بننے کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔منشی پریم چند کے ناول ’گاو دان‘ کا مرکزی کردار استحصال سے گزرتا ہوا مزدور بن جاتا ہے جس کی زندگی کا خاتمہ نامناسب خوارک اور دوا کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔فلم ’پپلی لائیو‘ کا کردار نتھا خود کشی سے بچ جاتا ہے لیکن اس کا انجام شہر میں مزدوری کی شکل میں ہوتا ہے۔کچھ ایسا انجام فلم ’دوبیگھہ زمیں‘ میں شمبھو مہتو کا ہوتا ہے جس کی رہن شدہ زمین کو زمیندار نئی فیکٹری لگانے کے بیچ دیتا ہے اور شمبھو کسان سے کلتکہ کا ہتھ رکشہ کھینچنے والا ڈرائیور بن جاتا ہے اور باقی کے زندگی سلمز میں غربت ،بھوک اور بیماریوں سے لڑنے میں گزار دیتا ہے۔مارکس آج سے دو سو سال پہلے جتنا درست تھا آج بھی اتنا ہی درست ہے، کل بھی اس کے جنوں سے ہر قبا تارتار ہو رہی تھی آج بھی ہر گریبان چاک ہے۔مارکس کو ملحد قرار دے کر اس سے لوگوں کو دور رکھنا، یونیورسٹیوں میں اس کے فکر و فلسفہ کا راستہ روکنا اور ادب میں مارکسی کرداروں کو منفی طریقے سے پیش کرنا، سوویت یونین کی ناکامی کو مارکسزم کی ناکامی سے جوڑنا ۔۔۔ یہ سب اس ملک کے سیاسی اور مذہبی مقتدر حلقوں کو وارے کھاتا ہے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی وہ فکر ہے جو ان کی سیاسی اور مذہبی عمارت کو زمین بوس کر سکتی ہے۔یہی فلسفہ ہے جو گیٹڈ کمیونٹی کے اردگرد بسنے والی کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو اکسا سکتا ہے۔اس لیے وہ مارکس سے خائف رہتے ہیں۔