مسلمان فلسفی آخر کافر ہی کیوں بنتا رہا
سیکولر ازم کا نظریہ مغرب میں پیدا ہوا۔ لیکن اسلامی معاشروں میں اس کو مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر ازم اسلامی معاشروں کی پیدا وار ہی نہیں ہے۔ ایک چیز جو انسان کے اپنے دماغ سے نکلتی ہے وہ اسی کی بہ رضا و رغبت پا بندی کر سکتا ہے۔ جو دوسروں کے دماغ سے نکلے، نہ وہ اس کو سمجھ سکتا ہے اور نہ اس پر صدقِ دل سے چل سکتا ہے۔
مغربی قوموں نے جب یہ دیکھا کہ مذہب ان کی زندگی کے مختلف معاملات میں بے جا دخل دیتا ہے اور انہیں ہمہ وقت باہمی جنگ و جدال کی کیفیت میں مصروف رکھتا ہے، تو انہوں نے اس کے علاج کا طریقہ ڈھونڈ لیا۔ وہ یہ کہ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے اور مذہب کو انسان کا شخصی معاملہ بنا دیا جائے۔ یہ فکر مغربی افراد کے اپنے ذہن سے نکلی تھی، اس لیے یہ ان کے لیے قابلِ قبول تھی۔
اس کے بر عکس اسلامی ممالک میں سیکولر ازم ایک در آمد شدہ نظریہ تھا۔ اور مغربی قوموں کی دیکھا دیکھی وجود میں آیا تھا۔ اسلامی معاشروں میں سیکولر نقطۂِ نظر مسلمان افراد کے اپنے ذہن سے نہیں نکلا تھا، اس لیے عام مسلمان کی نظر میں سیکولر ازم ایک تھوپی گئی صورتِ حال تھی۔ اور اسی لیے وہ اس پر صدقِ دل سے نہیں چل سکتے تھے۔ حالاں کہ وہ بھی مذہب کے نام پر باہمی جھگڑوں میں ہی مبتلا تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلمان معاشروں کے افراد میں مذہبی جھگڑوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مذہب کی بے جا مداخلتوں کے خلاف کوئی ویسا ہی رد عمل کیوں پیدا نہیں ہوا جیسا کہ مغربی معاشروں میں دیکھنے میں آیا؟
عمر کے لحاظ سے دیکھیں تو عیسائیت اور اسلام دونوں مذاہب میں چھ سو سال سے زیادہ کا فرق نہیں ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ یورپی نشاۃِ ثانیہ پر فارابی، ابن سینا، ابن رشد اور دیگر مبینہ مسلمان فلسفیوں کے بھی اثرات رہے اور یورپ کی علمی، سائنسی اور صنعتی ترقی ان نام نہاد مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کے کارناموں کے بَہ غیر وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔
پھر کیا وجہ ہے کہ اہالیانِ اسلام ویسی ترقی نہیں کر سکے با وُجُود اس کے کہ ان کے معاشروں میں اتنے عظیم فلسفیوں کا ظہور ہوا؟
اسے بھی دیکھیے:
گلیلیو کی شہرت: سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے! از، یاسر چٹھہ
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسی نئی قوم تھے جس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں ڈالی تھی۔ امتِ محمدیہ کا تاریخی رشتہ قدیم یونان، قدیم ایران اور قدیم ہندوستان کی فلسفیانہ روایتوں سے نہیں تھا۔
حالاں کہ اس کے با وُجُود مسلمانوں نے ان قدیم تاریخی ملکوں کے علم سے بہت فائدہ اٹھایا اور بے پناہ علمی ترقیاں کیں لیکن بنیادی طور پر عرب قوم کا تاریخی و روایتی تعلق ان قوموں سے نہیں تھا۔
جب عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمان قدیم یونانی افکار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم سے علم و فضل میں آگے بڑھ گئے ہیں تو ان کو ہوش آیا۔ اور وہ کچھ اسی جذبے میں مبتلا ہو گئے جس میں اقبال مبتلا ہوئے تھے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
کہتے ہیں ابنِ سینا کی کتاب القانون فی الطب مغرب میں ایک ہزار سال تک داخلِ نصاب رہی۔ اسی قسم کی باتوں نے اقبال کو ایسا شعر کہنے پر مجبور کیا۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کے کارناموں کے قصے سن کر خوش ہوتا ہے اور اس کو رغبت ہوتی ہے۔
ایسی ہی رغبت عیسائیوں کو بھی ہوئی جب انہوں نے مسلمانوں کو ارسطو و افلاطون کی کتابیں پڑھتے اور بامِ عروج تک پہنچتے ہوئے دیکھا۔ پس، انہوں نے ماضی کی اپنی تاریخ اور اپنے علم سے رجوع کیا۔ اور مسلمانوں سے زیادہ ارسطو و افلاطون اور دیگر یونانی فلسفیوں کو پڑھنا شروع کیا، اور اس میں مسلمانوں سے آگے بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ یورپی نشاۃِ ثانیہ، اصلاحِ مذہب اور صنعتی انقلابات اور دیگر عظیم تحریکات کا ظہور یورپ میں ہوا۔
لیکن اس سب کی بنیاد میں اہالیانِ مغرب کا اپنی قدیم تہذیب کے بہانے یونانی فلسفہ سے وابستہ ہونا اصل اور مِحوَری سبب تھا جس نے انہیں ترقی کے اس درجے پر لا کھڑا کیا۔
مسلمانوں کے پاس اپنی قدیم تاریخی تہذیب سے وابستہ ہونے کا بہانہ تو نہیں تھا، لیکن اس کے با وُجُود وہ یونانی اور دیگر عجمی فلسفوں سے وابستہ ہوئے۔ اور جتنی علمی ترقی انہوں نے کی، جس کو بعد میں یورپ نے اپنایا، وہ سب کا سب فلسفہ سے ہی وابستگی کے سبب ظہور میں آیا۔
چناں چِہ آپ دیکھتے ہیں کہ تمام جیّد اسلامی فلسفیوں کا عقیدہ وہ نہیں تھا جو امام ابو جنیفہ و شافعی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی علماء نے فارابی اور ابنِ سینا کی تکفیر کی ہے، بَل کہ فلسفہ سے لگاؤ کے سبب انہوں نے پہلے پہل تو علامہ غزالی کو بھی نہیں چھوڑا تھا اور ان کی بھی تکفیر کی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو در حقیقت اپنے آدمی ہیں، تب جا کر بے چارے علامہ غزالی کی جان چھوٹی۔
یہی حال شروع شروع میں امام رازی کا بھی ہوا لیکن بعد کو انہیں بھی قبول کر لیا گیا اور صحیح العقیدہ کے رجسٹر میں ان کا نام درج کر لیا گیا۔ عالمِ اسلام میں جس قدر تکفیر و سرزنش آپ دیکھتے ہیں اس کا سبب یونانی و دیگر عجمی افکار کا مسلمانوں کے ذریعے اپنانا اور صحیح العقیدگی کے دائرے سے نکل جانا ہے۔ لیکن اس دائرے سے نکلے بَہ غیر علمی ترقی کوئی سچا خواب نہیں کہ اس کی حقیقی تعبیر ممکن ہو۔
جو رُوداد میں نے انتہائی اختصار کے ساتھ سنائی ہے، آپ اس کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ انسان کی ترقی کا اصل مِحوَر یہ ہے کہ وہ سقراط، ارسطو، افلاطون، فارابی، ابنِ سینا، ابنِ رشد جیسے فلسفیوں کی طرح فلسفہ میں پیش قدمی کرے، اس کے نتیجے میں فلسفیانہ بنیادوں پر ہی ایک ایسا تجرباتی نوعیت کا علم اس کو حاصل ہوتا ہے جس کو سائنس کہتے ہیں۔ اور سائنس میں پیش قدمی کے نتیجے میں ٹیکنالوجی حاصل ہوتی ہے۔
فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی یہ تینوں چیزیں آسمان سے نازل نہیں ہوئیں۔ اسی دنیا میں انسانوں نے ان کی بنیاد ڈالی ہے اور انسانوں نے ہی انہیں ترقی دی ہے۔ ان تینوں کا تعلق کسی خاص قوم کے مذہب سے نہیں ہے، لیکن دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے مذہب کو اگر فائدہ پہنچانا ہے تو مذہب کے دائرے سے نکل کر ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مذہب کو اپنا نقطہِ نظر اور بھی وسیع کرنا ہو گا اور فلسفیوں کو اجازت دینی ہو گی کہ وہ اس کے دائرے سے نکل کر آزادانہ تحقیق کریں۔ یقین جانیے، اگر مذہب نے اس کی اجازت دے دی، تو اس سے خود اسی کو فائدہ ہو گا۔ دنیا کا جو مذہب اپنے اندر اتنی روا داری پیدا کر لے گا، اسی کے ماننے والے اس دنیا میں ترقی کی نئی اونچائیوں کو چھو سکیں گے۔
واضح رہے کہ مذہب کے دائرے سے نکلنا، اور مذہب کے خلاف تعصب رکھنا، دو باتیں ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب یا عقیدے کے خلاف تعصب رکھنا، خواہ وہ توحید کا عقیدہ ہو یا صنم پرستی کا، یا انکارِ خدا پر مبنی ہو، نظامِ عقائد کے فہم سے دور کر دیتا ہے۔
دنیا میں کوئی بھی عقیدہ قائم بِالذّات نہیں، بَل کہ قائم بِالغیر ہے، یعنی دوسرے عقیدے سے باہم مختلف و متمیز ہونے کی بناء پر قائم ہے۔ کوئی عقیدہ خود مختار و خود کفیل نہیں کہ صرف وہی حق ہو اور بقیہ سب باطل ہوں۔
از، طارق احمد صدیقی