پاکستان قرضے کیوں لیتا ہے؟
از، یاسر چٹھہ
قرضے بجٹ کے خسارے کو پورے کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔
(یعنی جتنی ہماری ریاست کی آمدنی ہے، اور جتنے اُس کے خرچے ہیں ان کے فرق کو پورا کرنے کے لیے۔ یہ جمع تفریق تو سادی سی ہے، لیکن اسے جادو گر گھماتے بہت ہیں۔ اس دوران لوگ غیرت وغیرہ کھا کر اپنے عقل فہم کو معطل کر لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ریاستوں کی آمدن ٹیکس وغیرہ ہوتی ہے۔ یعنی وہ جو آپ موبائل کا کارڈ لیتے وقت بھی دیتے ہیں، آپ کی وفات کے بعد کورے لٹھے کی چادر پر بھی جمع کیا جاتا ہے، اور دنیا میں زندہ بچ جانے والے کسی کے لواحقین اپنی موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتے وقت بھی مختلف ناموں سے جمع کراتے جاتے ہیں۔)
اب یہ دیکھیے کہ بجٹ میں خسارہ کیوں ہوتا ہے؟
بڑے بڑے غیر پیداواری خرچے کے مُدے کون کون سے ہیں؟
صحت؟
(صحت کمائی کرنے والوں کو کام کرنے کے قابل رکھنے کے لیے خرچہ ہوتا ہے، ورنہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی طرح کا حال ہوتا ہے۔)
تعلیم؟
(تعلیم افرادِ ریاست کو با معنی روز گار اور خود آگاہ افراد اور گروہ بنانے، ایجادیں، دریافتیں کرنے، اور ثقافتی سرمایہ تخلیق کرنے کے قابل بناتی ہے۔ عقل فہم دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔)
سبسیڈیز؟
(یہ ہونی تو معاشرے و معیشت کے پس ماندہ افراد و اسباب کو قابل، enable بنانے کے لیے ہے، لیکن اس کو بد انتظامی کی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے لیے تو انہیں استعمال کیا جا رہا؟)
تنخواہیں اور پینشنز؟
(یہ مُدا بتاتا ہے کہ کام کرنے والا کتنا کام کرتے ہیں، اور کتنا کھاتے ہیں۔ یا پھر کھاتے پیتے بھی کچھ ہیں، یا گلاس توڑ توڑ کر ہی کرچیاں پھیلاتے جاتے ہیں، اور بدل میں بارہ آنے کا لین دین ہوتا ہے۔)
یا پھر کچھ اور تو نہیں؟