لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ فلاسفۂِ اخلاقیات کے حوالے سے (حصۂِ دوم) 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ فلاسفۂِ اخلاقیات کے حوالے سے (حصۂِ دوم) 

از، نصیر احمد

خود کشی کا جائزہ اخلاقیات کے چند اہم نظریات کی مدد سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ فرائضی اخلاقیات کے سلسلے میں کانٹ ایک اہم فلسفی ہیں۔ ان کی اخلاقیات کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ فرد، عمل ایسے کرے جیسے وہ پورے عالَم کے لیے قانون سازی کر رہا ہے۔ اور اس عالَمی قانون سازی میں فرد اپنے لیے کوئی استثناء تخلیق نہیں کر سکتا۔


اسی مضمون کا تناظرِ اوّل:

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟  از، نصیر احمد

سشانت سنگھ اور نجی زندگی کا سراب  از، سید کاشف رضا


کانٹ کے مطابق کہ وہی قوانین دوسرے افراد کو محض اوزار، یا ذریعہ بنانے سے روک سکتے ہیں جن کا اطلاق پورے عالَم پر ہو۔ جب آپ اپنے لیے ایک استثناء پر اصرار کرتے ہیں تو یہ عمَل دیگر افراد کو محض وسیلہ، یا ذریعہ بنا دیتا ہے جو کہ اخلاقی طور پر غلط ہے۔

اب ایک فرد کی خود کشی تمام عالم کے لیے قانون بن جائے تو اخلاقیات اور زندگی بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں تو انسانی زندگی کا خاتمہ زندگی جینے سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اور اگر خود کشی کا عمل عالمی قانون نہیں بن سکتا تو خود کشی اَخلاقی طور پر ایک غلط اقدام بن جاتا ہے۔

علاوہ اَزیں، یہ اخلاقیات خود مختاری پر استوار ہیں اور خود مختاری کو خود مختاری کے ذریعے ختم کرنا اس اخلاقیات کے خلاف ہے۔ اور پھر کانٹ کے مطابق یہ اخلاقیات خِرد سے لی گئی ہیں تو خود مختاری کے خاتمے سے فرض کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات پر یہ اخلاقیات خود کشی کی اجازت نہیں دے سکتیں۔

آزادی پسند نقطۂِ نظر سے شاید خود کُشی کا جواز بن سکتا ہے۔ مثلاً جان سٹُورٹ مل، John Stuart Mill، اپنے مضمون آزادی پہ، On Liberty میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک فرد فطری طور پر اپنے جسم کا تنہا مالک ہوتا ہے۔ اس مختاری سے یہ جواز بن جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ جو چاہے وہ کرے۔

لیکن اس نظریے سے بھی چند تحفظات منسلک ہیں کہ ایسا فرد دوسرے کو ہر گز نقصان نہ پہنچائے۔

خود کُشی ایک ایسا عمل ہے کہ اس سے دوسروں کو نقصان سے تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ ایک فرد کی خود کُشی سے اس کے کُنبے والوں، دوستوں، عاشقوں، معشوقوں، ساتھ کے شہریوں اور ریاست میں سے کسی نہ کسی کے نقصان وابستہ ہوتے ہیں۔ مثلاً جنگ لڑتا ہوا ایک ماہر جنرل، اگر خود کُشی کر لے تو ریاست کا نقصان ہو سکتا ہے۔

اگر نقصان کے اس اُصول کو اہمیت دی جائے تو اس نظریے کے مطابق بھی خود کشی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور اگر ‘ہم گئے تو کچھ نہیں’ کو زیادہ اہمیت دی جائے تو شاید اپنے جسم پر اس مکمل اختیار کی بناء پر خود کشی کا جواز بن سکتا ہے۔

افادی اخلاقیات کی بنیاد انفرادی آزادی پر نہیں ہے، بَل کہ ہر عمل کے نتیجے میں حاصل شدہ مسرَّت اور درد کی مقدار یا پھیلاؤ پر منحصر ہے۔

بابائے افادیت جیرِیمی بَینٹ-ہَم، Jeremy Bentham، کے مطابق اعمال کی دُرستی ان کی زیادہ سے زیادہ کیمیت و کیفیت کی مسرت کے فروغ پر منحصر ہوتی ہے۔ اور مسرت، لذت کی موجودگی اور درد کے غیاب کا نام ہے۔

تو ایسے اعمال کی تفہیم ان کے حقیقی یا ممکنہ نتائج کے تخمینے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ نتائج درد بڑھاتے ہیں تو ایسے اعمال سے گریز لازمی ہے، اور اگر یہ نتائج خوشی میں اضافہ کرتے ہیں تو ایسے اعمال کی انجام دہی ضروری ہے۔

سعدی شیرازی کی ایک حکایت بھی ہے جس میں ظالم بادشاہ کی نیند نعمت سمجھی گئی ہے کہ جب تک وہ سوتا رہتا ہے لوگ اس کے مظالم سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایسے بادشاہ کی خود کُشی تو اس کی نیند سے بھی کہیں بڑی نعمت ہو گی۔

لیکن افادِیتی اخلاقیات کا ایک اور اہم اصول اعمال کے نتائج کے تخمینے کے بعد عمومی قواعد سازی بھی ہے۔

اس قواعد سازی کے نتیجے میں ایک فرد کے رشتے ناتے ذہن میں رکھیں تو بہت سارے افراد کی خود کشی کے نتیجے میں درد و الَم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے مسرت کے بنیادی مقصد کا بہت زیادہ ضرر ہو گا۔ اس لیے معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کشی کی اجازت نہ دے۔


آپ کے ذوق کی نذر یہ تحریریں:

ڈیوڈ ہیوم نے کانٹ کو کس سپنے سے جگایا؟  از، نصیر احمد

ہم اور جیریمی بینٹ-ھیم (Jeremy Bentham) کی خوشی کی اقسام  از، نصیر احمد


تاہم، موجودہ دور کے بعض افادیت پسند انفرادی حقوق اور افادیت کا ایک تال میل بناتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض انتہائی صورتوں میں، جب فرد کے لیے مسرت کے امکانات ختم ہو جائیں اور درد بے پناہ ہو جائے، تو ایسے فرد کے خود کشی کے حق کی وکالت کرتے ہیں اور ایسے فرد کی زندگی کا سلسلہ توڑنے کی اس کے عزیز و اقارب کو بھی اجازت دیتے ہیں۔

لیکن اس اجازت کے ساتھ حکومت اور افراد کے جان لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کوئی حُکُومتِ بَد اس اجازت کا بد ترین استحصال کر سکتی ہے۔

خیر کی اخلاقیات کے سلسلے میں ارسطو اہم ترین فلسفی ہیں۔ ان کی اخلاقیات میں کردار سازی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ان کی اخلاقیات کے مطابق ایک اچھا کردار، درُست اعمال کی طرف رہ نُمائی کرتا ہے۔

اس میں اخلاقی مقصد اپنے آپ کو ایک اچھا انسان بنانے کا ہے۔ ایک پڑھا لکھا اچھا انسان، جسے اچھے اعمال کا بھر پُور ادراک ہے، وہ عادتاً بھی اچھے اعمال ہی کرتا ہے۔

اس نظریے کے مطابق اچھے اعمال کی فراوانی ایسی عادات کے فروغ کا سبب بنتی ہے جو اچھے کردار کی تشکیل کرتی ہے۔ خیر پر مبنی اعمال کے لیے مناسب سرگرمیوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

اس نظریے میں خود کشی کے بارے میں ایک نقطۂِ نظر واضح ہے کہ خود کشی ایک ایسا عمل ہے جس سے اعمال کے امکانات ہی ختم ہو جاتے ہیں اور اعمال کے امکانات کے خاتمے سے کردار سازی تو نہیں ہو سکتی۔

خود کشی ایک ایسی عادت بھی نہیں بن سکتی جس سے کردار سازی میں کچھ مدد مل سکے۔ جیسے سٹالن نے اپنے بیٹے سے، جب اُنھوں نے خود کشی کی ناکام کوشش کی تھی مبینہ طور پر کہا تھا کہ آپ سے تو ڈھنگ سے خود کشی بھی نہیں ہوئی۔

تو خود کشی کی متعدد ناکام کوششیں بھی ایک اچھے کردار کی تشکیل میں ناکامی کی نشان دہی کرتی ہیں۔

ویسے جملۂِ معترضہ کے طور پر عرض کرتے چلیں کہ سٹالن کے بیٹے نے اِن کا گِلہ دور کر دیا تھا، جب دوسری جنگِ عظیم میں اُنھیں نازیوں (ناٹزیوں) نے قید کیا اور سٹالن سے سودے بازی کی کوشش بھی کی، تو سٹالن کے بیٹے نے خود کشی کی ایک کام یاب کوشش کے ذریعے باپ کی لاج رکھ لی تھی۔

سٹالن بھی اس وقت قوم کے مسیحا کے روپ میں تھے۔ جب اِن کے بیٹے کی رہائی کی پیش کش ہوئی تو انھوں نے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ سوویت یونین کا ہر فوجی میرا بیٹا ہے۔

ایک اور نظریے کے مطابق فطانت انسانی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد ہے۔ اور اس کے حصول میں ناکامی کے بعد خود کشی کی مثالیں بھی ہیں۔ جیسے جاپان میں اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی جنگ میں یا کسی اور اہم شاہی فریضے کی ادائیگی میں ناکامی کے بعد خود کشی کا رواج تھا۔

پچھلے دنوں ایک جرمن وزیر نے بھی کرونا وبا کی روک تھام میں ناکامی کے احساس کے زیرِ اثر خود کشی کی ہے۔

فطانت اور شان دار کام کی مسلسل کوشش شاید ایک بہتر آپشن ہے۔ اس لیے اس معاملے میں بھی خود کشی کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ تو بنیادی طور پر خِرد پر مبنی اخلاقی خیالات خود کشی کی حمایت نہیں کرتے۔ اگر کبھی خود کشی کے خیالات ذہن میں آئیں تو  شدید جذباتی کیفیات سے جھگڑتے ہوئے خِرد سے رابطے میں رہیں اور ایک قیمتی جان بچا لیں۔