روسو اور ڈیوڈ ہیوم کی دوستی کیوں نہ چل سکی
از، نصیر احمد
خرد افروزی کے زمانے کے دو اہم فلسفیوں ڈیوڈ ہیوم اور ژان ژاک روسو کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دوستی ہو تو گئی تھی کہ روسو کو ہیوم کی ضرورت تھی اور یہ دوستی ہیوم کی معشوقہ کی آرزو تھی۔
‘ہیوم کی معشوقہ’ شاید ہمیں نہیں کہنا چاہیے کہ ہیوم کہیں برا ہی نہ مان جائیں کہ شدید جذبات کو بَہ قول افتی بھائی جیسے بلی کبوتر کو دبوچتی ہے دبوچتے عمر گزر گئی ہے، پھر بھی ‘ہیوم کی معشوقہ؟’ ساری محنت رائیگاں کر دی۔
لیکن روسو کے حامی کہتے ہیں کہ سینٹ ڈیوڈ ہیوم فرانس کی امیر کبیر خِرد افروزیوں کے لیے محافل سجانے والی امیر کبیر حسیناؤں نے ہیوم کی دھیمی طبیعت کو کچھ تند تو کر دیا ہو گا کہ ان حسیناؤں کی جانب روانہ کیے ہوئے ناموں میں روسو کے بارے میں ایک تُندی تو موجود ہے۔
اس معاملے میں روسو کے حامی ہیوم کی ڈھلتی عمر، ان کے موٹاپے اور ان کے حلیے کی بھی ہنسی اڑاتے ہیں۔
ہیوم اپنے بارے میں خود ایسے لکھتے ہی:
میں دھیمی طبیعت کا مالک ہوں، مجھے اپنے جذبات پر قابو ہے، میرا مزاج کُھلّا ڈُّلا، معاشرت پسند اور پُر مسرت ہے۔
اور روسو اپنے بارے میں یوں لکھتے ہیں: ‘پورے یورپ میں اک بے نظیر تند صدا پھیل گئی، ‘میں کافر تھا، دہریہ تھا، جنونی تھا، پاگل تھا، وحشی جناور تھا، اور ایک بھیڑیا تھا۔’
روسو کافر اور دہریے تو نہیں تھے، لیکن جنونی پاگل اور وحشی جناور تو تھے۔ انقلابِ فرانس اور دیگر انقلابوں پر ان کی فکر اور رویے کے اثرات تو یہی بتاتے ہیں۔
جو بھی ہو فکر اور شخصیت کا فرق اتنا تھا کہ دوستی چل نہیں سکتی تھی۔ خِرد اور جنون کا قدیمی جھگڑا تھا۔ عقل پسندی اور رومان کی مخاصمت تھی۔ اشرف وحشی اور تہذیب کی جنگ تھی۔ اور اس دوستی کے بارے میں دانش وروں کی پیش گوئیاں بھی تھیں۔
فرانس کے مشہور خِرد افروز والٹیئر جن کے نشانے پر اپنی رومانی حسرتوں کی وجہ سے روسو اکثر نشانے پر رہا کرتے تھے، انھوں نے اس دوستی ٹوٹنے پر یہ بیان دیا تھا:
‘میں نے ایک ہی دعا تو خدا سے مانگی ہے۔ بہت ہی مختصر، ایسے۔ اے خدا میرے دشمنوں کو دنیا زمانے کے احمق دکھا دے۔’
دوستی کی شروعات میں ایک اور فلسفی نے ہیوم سے کہا تھا کہ تم اپنی آستین میں ایک سانپ پال رہے ہو۔
دوستی کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ سِنہ 1765 میں روسو کی تحریروں کی وجہ سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقے روسو کے مخالف ہو گئے تھے۔
ہیوم بھی اپنے ملک میں اتنے پسندیدہ نہیں تھے۔ یونی ورسٹی کی نوکری بھی نہیں ملی۔ ایڈم سمتھ نے ہیوم کے مرنے کے بعد ہیوم کی فلسفیانہ تشکیک کی مرگ کے مقابلے میں بہادری کی کچھ تعریف کی تھی اور شکوے کرنے لگے کہ زندگی میں اتنی گالیاں نہیں ملیں جتنی ہیوم کی موت کا احوال لکھنے کے بعد ملیں۔
لیکن جب ہیوم فرانس میں گئے تو خِرد افروز دانش ور مذہب کے خلاف سرگرم تھے۔ وہاں ہیوم کی تشکیک پسندی کا سامنا کٹر قسم کی مذہب دشمنی کا سامنا ہوا تو ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی دھیمی طبیعت، پُر مسرت مزاج، حسِّ مزاح اور اعتدال پسندی کی وجہ سے ہیوم وہاں ہر قسم کے دانش وروں میں مقبول ہو گئے۔
ایک محفل میں تو کچھ یوں ہوا کہ ہیوم نے شکوہ کیا کہ میں نے تو اپنی زندگی میں کوئی دہریہ نہیں دیکھا۔ تو ایک طرف سے جواب آیا، تو دیکھ لیں، انیس دہریے تو یہیں بیٹھے ہیں۔ محفل میں ہیوم سمیت بیس آدمی تھے۔
آپ کے ذوق کی نذر کچھ مزید:
والٹیئر کو روسو کی کون سی بات پسند نا آئی از، نصیر احمد
ڈیوڈ ہیوم نے کانٹ کو کس سپنے سے جگایا از، نصیر احمد
ایڈم سمتھ کا خط ترجمہ از، نصیر احمد
اپنے سنسکاروں کی وجہ سے وہ سیلونوں کی خواتین کے بھی بہت زیادہ پسندیدہ ہو گئے۔ ہیوم سے عدم شناسائی ایک طرح کی سماجی موت ہو گئی۔ پیرس میں کسی رئیس زادی کی زینت ہیوم کی موجودگی کے بَہ غیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔
اور ہیوم کو پردیس میں یہ پسندیدگی، اتنی محبت، اتنی چاہت بہت اچھی لگی۔ انھوں نے ایک شہرت قائم کر لی تھی اور وہ یہ شہرت قائم بھی رکھنا چاہتے تھے۔
ہیوم نے فرانس سے اپنے ایک دوست کو کچھ یوں لکھا تھا۔
یہی کہہ سکتا ہوں میں تو یہاں بس شہد بہشت تناول کرتا ہوں، محض اَمرَت پیتا ہوں اور صرف بَخُور سونگھتا ہوں۔
ان حالات میں ایک خاتون دوست نے ہیوم سے فرمائش کی کہ وہ روسو کو اپنے ساتھ انگلینڈ لے جائیں تا کہ روسو کی یورپ میں اپنے مخالفوں سے جان چھوٹے۔
ہیوم انکار نہ کر سکے اور روسو کو اپنے ساتھ انگلینڈ لے گئے۔
شروع میں تو خوب گاڑھی چَھنی۔ ہیوم کو روسو بہت دھیمے، نرم مزاج اور معتدل لگے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہیوم روسو میں اپنا آپ ہی دیکھ رہے تھے ورنہ روسو میں جتنی بھی خوبیاں تھیں اس کے بر عکس تھیں۔ وہ جھگڑالُو، بد مزاج اور محسن کُش پہلے سے ہی مشہور تھے۔
روسو کو شہر کا ماحول اچھا نہیں لگا تو ہیوم نے انھیں مضافات میں رہائش لے دی اور بادشاہ جارج سوم سے ان کی پینشن کے حصول کی کوششیں کرنے لگے۔
روسو کو یہ انتظام اچھا نہیں لگا۔ اس کے علاوہ اس بات کا مطالبہ کرنے لگے کہ ان کا کتا سلطان اور ان کی معشوقہ کو بھی انگلینڈ بلوائے جائیں۔ ہیوم نے دونوں بلوا دیے۔
کتے اور معشوقہ دونوں کے بارے میں ہیوم نے ایک اور دوست کو کچھ یوں لکھا۔
‘ایک ایسے فلسفی کے ساتھ ہوں جو اپنے کتے اور اپنی معشوقہ کو برابری کی بنیادوں پر اپنے پر حکومت کرنے دیتا ہے۔’
پھر پینشن کے سلسلے میں روسو کو شک ہو گیا کہ ہیوم ان کی انگلینڈ میں مقبولیت سے جل گئے ہیں؛ ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور ان کو خرد افروز دانش وروں میں بد نام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ہیوم کو دانش وروں میں اپنی شہرت بہت عزیز تھی۔ وہ جتنی اپنی صفائی پیش کرتے، اتنا ہی روسو کو شک بڑھتا۔ اور جتنا روسو کا شک بڑھتا اتنے ہی وہ ہیوم کے خلاف درد بھرے دل توڑ دینے والے نامے لکھتے۔
ہیوم اس طرح کی جذباتیت کے عادی نہ تھے۔ وہ وہی دلائل اور ثبوت پر مبنی بات چیت کرنے کی کوشش کرتے۔ روسو اس طرح کی بات چیت کے عادی نہیں تھے۔ ایک دفعہ تو انھوں نے یہ ثبوت دیا کہ میں نے ہیوم کو نیند میں یوں بڑبڑاتے سنا کہ روسو میرے پاس ہے (اس کے روسو نے یہ معنی لیے کہ ہیوم کے کہنے کا مطلب تھا کہ روسو میری مٹھی میں ہیں)۔ اس طرح کی باتیں کہ مسٹر ہیوم میری شہرت تمھاری مٹھی میں ہے مگر میری شجاعت اور دیانت پر تم قابو نہیں پا سکتے۔
ہیوم اس ڈرامے کا مقابلہ کہاں کر سکتے تھے۔ سازش وغیرہ بھی وہ کیا کر سکتے تھے اور کرنا بھی ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا۔ وہ بس اس طرح کی باتیں ہی کہتے رہے:
‘یہ (روسو) سارا جیون صرف محسوس ہی کرتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں ان کے محسوسات اتنے شور انگیز ہو جاتے ہیں جس کی مثال میں نے اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھی۔ لیکن اس سے انھیں مسرت کم اور اذیت زیادہ ہوتی ہے۔
‘یہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہیں جس نے نہ صرف اپنے کپڑے، بَل کہ کھال بھی اتار دی ہو۔ اس حالت میں گستاخی اور ہنگامے کے عناصر کے زیرِ اثر لڑنے چل دیا ہو۔’
کچھ دنوں یہ جھگڑا چلا جس میں دونوں طرف سے باتیں ہوتی رہیں۔ ایک طرف سے شور انگیز الزامات اور دوسری طرف اپنی ساکھ بچانے کی ایک عقل مندانہ کوشش۔ آخرِ کار روسو ناراض ہو کر انگلینڈ سے چل دیے۔
وہ خِرد افروزی کے عُرُوج کا زمانہ تھا۔ اس لیے ہیوم کی بات دانش وروں میں زیادہ سچ سمجھی جاتی رہی۔ لیکن آج کل ہیوم کی مخالفت میں بھی کیس بنتا رہتا ہے کہ ہیوم نے شاہِ جذبات کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ حسد میں مبتلا ہو کر ایسے حالات پیدا کیے ہیں جس کا مقابلہ ایک عظیم لیکن الجھی ہوئی شخصیت نہیں کر سکی۔
لیکن، ہمارے خیال میں، زیادہ تر رومانوی طبیعتیں ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جن کا ہیوم جیسے مزاج کے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ہیوم انسان ہی تھے، انھیں اس بات کا دکھ بھی ہوا ہو گا کہ لوگوں کے سمجھانے کے با وُجود ایک ایسے آدمی کی مدد کی جس کے لیے اس کے واہمے ہر اچھائی سے معتبر تھے۔
دوستوں سے روسو کی نا رَوائی کی شکایت بھی کی ہو گی۔ روسو کا کچھ ہنسی مذاق بھی اڑایا ہو گا، لیکن ایک بات تو دیکھنے کی ہے کہ مدد اس میں ہیوم کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھ انگلینڈ لا رہے ہیں، گھر دلوا رہے ہیں۔ کتا اور معشوقہ بلوا رہے ہیں، پینشن دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سازش بھی نہیں کر رہے۔ وہی رومان کا مسئلہ__ لیکن یہی ہےکہ جذباتیت کا حقائق سے کوئی ناتا نہیں اور سب کچھ روا ہو جاتا ہے۔
اور اس طرح کی جذباتیت کے اثرات ہوئے۔ برٹرینڈ رسل کے مطابق روسو کی فکر کا انجام ہٹلر ہے۔
انقلابِ فرانس، سوویت انقلاب، ناٹزی (ناژی) انقلاب اور انقلابِ ایران پر روسو کے اثرات ہیں۔
افادیت پسندی کے نتیجے میں ہونے والی قانون سازی پر ہیوم کے اثرات ہیں۔ ایڈم سمتھ کی معاشیات پر ہیوم کے اثرات ہیں۔ فلسفے میں منطقی مثبیت پر ہیوم کے اثرات ہیں۔
اور ایک تشکیک جو علم اور تنقید کے لیے ضروری ہے اس پر بھی ہیوم کے اثرات ہیں۔
ہمارے خیال میں آزادی کے سنگ، خِرد انسانی زندگی کی تعمیر میں زیادہ کار آمد ہوتی ہے۔ اور غلامی کے سنگ، جنون تخریب جنون کا ایک نتیجہ ہے ۔
جذبات اور خرد کے ایک توازن کا حصول بہت ضروری ہے اور اس کے لیے جذبات کی جنون کی طرف پیش رفت کی روک تھام بہت ضروری ہے۔
اور خِرد کو جذبات سے تہی کرنا بھی نا دانی ہے کہ اس سے خرد انسانی فلاح میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکے گی۔
حوالہ جات
ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی، برٹرینڈ رسل
اینلائٹنڈ اینیمیز، ڈیونڈ ایڈمنڈز اینڈ جان ایڈینو، دی گارڈین، 29 اپریل 2006
انٹرنیٹ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی (ژان ژاک روسو)
انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا (ڈیوڈ ہیوم سکاٹش فلاسفر)
ڈیو ایٹ ژان ژاک، ٹم میڈیگان، فلاسفی ناؤ، مارچ/اپریل 2011