بھول بسری کتابیں: نا جانے صادق حسین کیوں نظر انداز ہوئے؟
تبصرۂِ کتاب از، خالد فتح محمد
غالباً دو سال پہلے کی بات ہے۔ ڈاکٹر وحید احمد ایک بڑے ادارے کے سربراہ تھے اور مجھے ان کے ادارے میں ایک کام آن پڑا۔ ڈاکٹر وحید احمد نے فوری طور پر ملنے کو کہا۔
دو ہفتے کا کام پندرہ منٹ میں ہوا۔ دو دن انھوں نے اپنی مہمان نوازی سے نوازا اور الوداعی تحفے کے طور پر مجھے ایک کتاب دی جو صادق حسین کے افسانوں کی کلیات تھی۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے، جسے بک ہوم، لاہور نے شائع کیا تھا۔
میری کم علمی ہی سمجھا جانا چاہیے__ گو یہ بہانہ بھی کم علمی ہی ہے__ میں نے صادق حسین کو نہیں پڑھا تھا اور فیصلہ کیا کہ موقع ملنے پر، بیچ بیچ میں سے گاہے گاہے ان کے افسانے پڑھتا جاؤں گا۔
میں پہلا افسانہ پڑھنے کا فیصلہ کرتے ہی اسے پڑھنے لگا تو دوسرا افسانہ بھی پڑھ گیا۔ یہاں آتے ہی کتاب مجھ سے گویا ہوئی:
تم مجھے نہیں جانتے؟ آگے چلو اور مجھے شناخت کرو!
ساٹھ کی دھائی میں، مَیں ایک با قاعدہ قاری تھا اور جن جرائد میں صادق حسین کی تخلیقات چھپتی رہیں، ان کا قاری رہا تھا۔
جس زمانے میں صادق حسین نے لکھنا شروع کیا وہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا، جس کے اثرات تب کے نو واردان کی طرح صادق حسین پر بھی تھے۔
یہاں یہ مماثلت ختم ہو جاتی ہے۔
صادق حسین کی پیدائش راول پنڈی کی ہے۔ ان کے ہاں پوٹھوہار کے لینڈ سکیپ کی کُھردراہٹ نہایت نرم لہجے میں نظر آتی ہے، اور وہاں کے سخت کوش لوگوں کی زندگی میں محبت سے لب ریز گوشوں میں محرومی کی رَڑَک اشک بار بھی کرتی ہے۔
مثال کے طور پر اس کلیات میں شامل افسانہ، کلیوں کی پکار، سروے آف پاکستان کے ایک چھوٹے ملازم اسلم کی کہانی ہے جس کے ہاں گیارہ سال میں دس بیٹیاں پیدا ہوئیں اور گیارہویں متوقُّع ہے۔ وہ پرانی دائی کو ڈھونڈنے نکلتا ہے لیکن وہ فوت ہو گئی ہے۔
اسلم اپنی بیوی کو کبھی جمیلہ رانی کہہ کے بلایا کرتا تھا؛ وہ ایسا اب بھی کبھی کبھار سننے کے لیے ترسنے لگی، جب کہ اسلم کی بیٹیوں کی مسلسل آمد سے کمر ٹوٹ چکی تھی۔
نئے آنے والے بچے کے پیدائشی عمل میں سہولت کے لیے دائی نہیں ملی، وہ زندگی سے اکتا چکا تھا اور اچانک اسے سب کو مار دینے کا خیال آیا کہ جمیلہ کی چیخ اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بچی پیدا ہوئی تو اسلم نے اسے اٹھا لیا۔ بچی خاموش تھی۔ “جمیلہ رانی! یہ رو نہیں رہی،” جمیلہ نے گُم شدہ تأثر کے الفاظ آج دو بارہ سنے تھے۔
اسی وقت بچی روئی، روتی رہی اور اسلم کے ہونٹوں پر زندگی سے بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
یہ بھی غور کرنے کے لائق بات ہے کہ صادق حسین نے اپنے آپ کو اس خطۂِ پوٹھوہار تک ہی محدود نہیں رکھا۔ انھوں نے اپنے ہاں بنگال (سابقہ مشرقی پاکستان) کا حسن اور ملک کے دوسرے علاقوں کے مسائل کو بھی کہانی کیا ہے۔
مثلاً، جب قوس قزح کی آنکھ کھلی رخسانہ اور چندرا وتی کی کہانی ہے جس میں رخسانہ کے خطوط قابلِ نظر ہیں۔ اے حمید کا ایک ناول بھی خطوط میں لکھا گیا ہے جن میں منظر کَشی پر توجہ ہے۔
اس افسانے میں زندگی کی تلخیوں سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ رخسانہ اور چندرا وتی بالترتیب ڈھاکہ اور کلکتہ کی رہائشی ہیں۔ چندرا وتی، جو فلسفے کی لیکچرر ہے، کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے جب کہ رخسانہ ایک عرصے سے پشاور کے گل نواز سے محبت میں ہوتی ہے۔
رخسانہ، گل نواز کے پاس جانا چاہتی ہے لیکن گل نواز نے رابطہ تو نہیں توڑا تھا لیکن بُلا بھی نہیں رہا تھا۔ ایک دن وہ پشاور چلی جاتی ہے اور گل نواز اسے اپنے گھر میں مہمان رکھتا ہے۔
رخسانہ اس کی بیوی اور چھوٹے سے بیٹے سے ملتی ہے۔ وہ اس پُر سکون گھر میں طوفان بپا کرنے سے خائف ہو جاتی ہے۔ بیٹا روتا ہے، ماں اسے اٹھا کے، شرماتے ہوئے رخسانہ کو دیکھ کے اس کے مُنھ میں دودھ دیتی ہے۔ اسی دوران رخسانہ واپس ڈھاکہ جانے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔
یہ اور اس طرح کی دیگر کہانیاں پڑھتے پڑھتے مَیں کتاب کو شناخت کرتے ہوئے گُم ہو کر اپنی ہی شناخت کے کھوج میں نکل پڑا۔ پچاس اور ساٹھ کی دھائیوں کا یہ فکشن نگار میں کیوں نہیں پڑھ سکا تھا؟
صادق حسین ایک ترقی پسند فکشن نگار ضرور ہیں، لیکن ان کے ہاں کہیں بھی بلند آہنگی نہیں۔ وہ اپنی گہرائی میں سست روی کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں۔
اس دور کا ترقی پسند ادب زندگی کے خارجی پہلُووں کو کہانی کرنے میں یقین رکھتا تھا۔ یہاں صادق حسین اپنے نظریاتی ساتھیوں سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی خارجی پہلُووں کے ساتھ انسان کے اندرون میں بھی بھی جھات ہے۔
بہ طورِ مثال افسانہ قیدی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس افسانے میں ایک نو جوان میاں بیوی پُر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ شیرا سیاسی عمل کا حصہ بن کر گرفتار ہوا اور جیل چلا گیا۔ اس کی پارٹی مریم کو، جو شیرو کی بیوی تھی، خرچہ پہنچاتی رہتی تھی۔ مریم کے ہاں بیٹا ہوا تو مریم نے نام نہیں رکھا کہ شیرا ہی آ کے رکھےگا۔
ایک رات شیرا آیا، بچے کو پیار کیا، مریم کو پیسے دیے اور واپس جانے کے لیے اٹھا کہ اسے جانا تھا۔ تو اس دوران مریم نے بیٹے کا نام پوچھا۔
اس نے بتایا کہ “قیدی”__ یہ وہ نام تھا جو ہدایت کے مطابق ہر بچے کا رکھے جانا تھا کہ ایک کو آواز دو سب آئیں گے، نظام بدلنے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ انسان کے بِھیتَر میں چھپے احساس اور درد کو نَشتر چبھو کے محسوس کرنے کے بَہ جائے ہم درد پَوروں سے مَس کرتے ہوئے اسے تسکیں پہنچاتے ہیں، وہ جراح نہیں بنتے بل کہ ایک ہم درد طبیب رہتے ہیں۔
صادق حسین میں اہم اُسلوبی رویہ یہ دکھائی دیتا یے کہ انھوں نے اپنے کسی بھی افسانے میں قاری کی رہ بَری نہیں کی، بس اپنا سروکار قصہ بیان کرنے سے رکھا ہے، جو قاری کو ساتھ لیے چلتا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے اہم مصنف کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ میرا یہ سوال محققین اور ناقدین اپنے آپ سے بھی پوچھیں!