سٹالن کو گورکی کی کیا ضرورت تھی

ایک آمر کا طرز عمل

Naseer Ahmed, the writer

سٹالن کو گورکی کی کیا ضرورت تھی

ھاھا، کبھی کبھار تو کوئی ایسا آرٹیکل سامنے آ جاتا ہے کہ پڑھ لیں تو تتر مٹھی (ہُن آرام ای ٹائپ stuff) ہو جاتی ہے۔ ابھی تک ادھر تو 1930 کا پراوڈا (سوویت یونین کا اکلوتا اخبار) چل رہا ہے۔

اس طرح کے اشتراکی تو جماعتِ اسلامی سے بھی زیادہ کٹر ہوتے ہیں۔ اب سٹالن کی مرضی کے بَہ غیر گورکی کا بیٹا کون قتل کر سکتا تھا؟ بے چارہ، یاگوڈا ہمارے آپ کے لیے عِفرِیت ہو گا، بدی کے سامنے تو کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک دفعہ چیکا اور این کے وی ڈی (سٹالن کی خفیہ ایجنسیاں) کے طریقۂِ تفتیش پر ہی نگاہ ڈال لیں تو بات سمجھ آ جائے گی۔ سٹالن چنچل نہیں راکھشس بالک تھے؛ ہاتھوں سے کھلونے گھڑتے تھے، اور جب جی چاہتا تھا توڑ دیتے تھے۔

اور حضرت گورکی بی کوئی بات بڑے ولی نہیں تھے۔ دولت، شہرت اور تعریف کے لالچ میں پھنس گئے تھے۔ سٹالن کو ان کی آرزوؤں سے آگاہی تھی اور انہیں اپنی آمریت کے لیے ایک اچھے چہرے کی ضرورت تھی، انہوں نے حضرت گورکی کو پھانس لیا۔

پھر حضرت اپنی مرضی سے کچھ نہ کہہ سکے، ہرا ہی دیکھتے رہے اور سٹالن کے قصیدے کہتے رہے۔ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اور امیر کلاک (چھوٹے موٹے زمین دار) بھی کوئی اتنے امیر نہیں تھے۔ وہ تو بس کسانوں سے غلّہ لوٹنے کا اک بہانہ تھا، تا کِہ غلّہ بیچ کر صنعتی ترقی کی رفتار بڑھائی جائے، اور محنت کَشوں کا بھی ایک بڑے پیمانے پر صفایا کر دیا جائے۔

اس لیے جس پر ذرا سا شک ہو، کسی پڑوسی کی دشمنی ہو، شکل اچھی نہ لگے، یا صرف تعداد پوری کرنے کے لیے لوگوں کولاک کی فہرست میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اور یا تو قتل کر دیا جاتا تھا، یہ بے گاری کیمپوں میں کنبے سمیت دھکیل دیا جاتا ہے اور ان کیمپوں کے حالات غیر انسانی تو کیا غیر حیوانی سے بھی پرے تھے۔ وہ جماعتِ اسلامی والا تو پھر بھی سوچ میں پڑ گیا تھا، ادھر تو کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔


متبادل رائے:

میکسم گورکی، جوزف اسٹالن اور لیون ٹراٹسکی  از، شاداب مرتضٰی


کرسچاؤ نے کہا تھا کہ سٹالن کہتے تھے، ناچو اور ہم ناچتے تھے۔ شاید کرسچاؤ چاہتے تھے کہ سارا الزام سٹالن پر جائے، لیکن اگر سٹالن کے بارے میں ہلکی سے بھی جان کاری ہو تو یہ بات سچی بھی تھی۔ ادھر تو جناب لینن بھی اپنے آخری دنوں میں محفوظ نہیں تھے۔ لینن کی بیوی کرپسکیا کو گالیاں پڑتی تھیں اور جناب لینن سٹالن کو ہٹانے کی کوشش بھی کرتے رہے تھے، لیکن نا کام رہے۔

پھر ٹراٹسکی نے کوشش کی لیکن درجہ بَہ درجہ یعنی پہلے پارٹی میں حکم چِھن گیا، پھر رائے چِھن گئی، پھر پارٹی سے نکال دیا گیا؛ پھر ملک بدر ہوا، اور آخر میں اس کی آنکھوں میں سوا گھونپ کر ہلاک کر دیا گیا۔ پھر کامینف کی باری آئی، اور زوال کے سب درجوں سے گزرتا ہوا، معافی نامے لکھتے ہوئے، وہ بھی قتل ہوئے۔ پھر بخارن بھی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے، جعلی مقدموں کی نظر ہوئے۔ اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کا بھی یہی حشر ہوا۔

یہ سب بد ترین لوگ تھے لیکن بدی کا سب سے اچھا فلسفی اور سب سے اچھا عامل تھا۔ اور انقلاب اس کی بدی کا ذریعۂِ اظہار بن گیا تھا۔ ہمارے ہاں بھی معاملات اشتراکی طرز کی نظریاتی بدی پر استوار ہیں، اس لیے مغربی سازشوں کی آڑ میں نظریاتی بدی کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔

لیکن بات اتنی سی ہے، جب کسی کا احتساب نہ کیا جاسکے، اور عوام اسے منتخب بھی نہ کریں، اور وہ شکی بھی ہو، سنگ دل بھی ہو، اور اس کے پاس ساری سیاسی، فوجی، معاشرتی اور انتظامی طاقت بھی ہو، پھر اس سے خیر کی توقع رکھنا بے وقوفی ہی ہوتا ہے اور سٹالن اس طرح کی بے وقوفیوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے تھے۔

کچھ تو ان سارے شک، تفتیش، تشدد اور اعتراف کے سب مرحلوں سے گزرنے کے بعد بھی یہ امید رکھتے تھے کہ کامریڈ سٹالن کو اس ظلم و ستم کی خبر نہیں ہے؛ لیکن یہ امید ہی تھی کہ وہ تو اپنی آمریت کی ساری ستم کاری کا مرکز تھے، اور انہیں سب خبر تھی کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اپنے دشمنوں کی بد حالی سے تو وہ مزے لیا کرتے تھے۔

اصل میں جب آمر کی آرزو قانون بن جائے تو معاشرے میں زندگی کی ہر سطح پر آمر ہی پائے جاتے ہیں، جو معاشرے کے سب سے بڑے آمر کے غلام ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر غلامی نہ کریں تو ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اشتراکی آمروں کی پہلی جینریشن کے ساتھ ہوا۔ وہ اپنی صفوں میں بد ترین سے ہار جاتے ہیں۔

اس طرح کی آمریت سے جمہوریت، معاشی ترقی، شہریت، انسانی حقوق اور قانون کے احترام پر مبنی ایک ثقافت کے فروغ سے ہی کیا جا سکتا ہے، ورنہ بدی کا ایک مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کو انسان ہر صورت میں ہار جاتا ہے اور کبھی اس ہار سے بچنے کے لیے انسانیت کو بھی ہرا دیتا ہے لیکن پھر بھی ہار جاتا ہے۔

اور کامریڈ سٹالن بھی ایک بڑی سلطنت کےسب سے طاقت ور آدمی ہونے کے با وُجُود دو تین دن تنہا تڑپتے تڑپتے مر گئے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک ایسا نظام ترتیب دیا تھا، جس کے مطابق ان کے انتہائی کرب کے عالم میں ان کی مدد ہی نہیں کی جا سکی۔

ان کے محافظوں کو ان کمرے میں جانے کی اجازت نہ تھی، اس لیے ان کی تکلیف کی اطلاع تب ہوئی جب بات بہت بڑھ چکی تھی، پھر ان کے درباری ان کی زندگی اور موت دونوں سے اتنے خوف زدہ تھے۔ ڈاکٹر بلوانے کے لیے بحث مباحثے میں کچھ، وقت اور تاخیر ہو گئی، اور جو اچھے ڈاکٹر تھے ان کو کامریڈ سٹالن پہلے اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے الزام میں جیلوں میں بھجوا چکے تھے۔

کچھ لوگ اسے ان کے وزراء بیریا اور کرسچاؤ کی سازش کہتے ہیں، لیکن اگرہ وہ بھی ملوث ہیں تو وہ بھی کامریڈ سٹالن کی پالیسیوں کا نتیجہ ہی تھا کہ وہ سب خوف زدہ تھے کہ اس دفعہ کی صفائیوں میں(کامریڈ سٹالن اس طرح کی اعلیٰ اور ادنیٰ سطحوں پر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی صفائیاں کرتے رہتے تھے) ان کا نام نہ آ جائے۔ اس لیے انھوں نے دھیرے دھیرے اثر کرنے والے زہر کے ذریعے کامریڈ سٹالن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

از، نصیر احمد