عورت خاوند سے کیوں ڈرتی ہے
از، طارق احمد صدیقی
بیوی خاوند سے کیوں ڈرتی ہے؟ اس لیے کہ وہ کہیں اس کو چھوڑ نہ دے۔ شوہر کا ساتھ چھوٹنے سے وہ کیوں ڈرتی ہے؟ اس سے محبت کرتی ہے، کیا اس لیے؟
نہیں، کیوں کہ اگر بات محبت کی ہوتی تو شوہر سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اگر ڈر کا سبب محبت ہوتا تو شوہر بھی اپنی بیوی سے اسی طرح ڈرتا جس طرح بیوی اپنے شوہر سے ڈرتی ہے۔
عورت اپنے مرد سے اس لیے ڈرتی ہے کہ اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو اس کے رزق کا واحد ذریعہ ختم ہو جائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرد عورت کا اَن داتا ہے۔
اب اس پوری situation کا gender equality کے فلسفے کی رُو سے جائزہ لیجیے۔
کیا عورت کو مرد کو اَن داتا کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیے؟ اگر ہاں تو کیوں اور نہیں تو کیوں؟
عورت اور مرد اگر برابر ہیں تو ان میں سے کوئی ایک شخص دوسرے کا اَن داتا کیوں بنے؟
اس پر دوسرے فریق کو نان و نَفقَہ دینے کی ذمے داری کیوں ہو؟
ہے ان سوالوں کا کوئی جواب مساواتِ مرد و زن کے عَلَم برداروں کے پاس؟
ایک طرف تو نکاح کے دوران، یا طلاق کے بعد عورت کا نان و نَفقَہ مرد سے چاہنا اور دوسری طرف gender equality کی بات کرنا کیا متضاد رویہ نہیں ہے؟
عورت اور مالک رام از، انوار حسین حقی
میری نظر میں عورت ہرگز کم زور نہیں ہے کہ اسے مرد کے معاشی سہارے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ لیکن جو لوگ اس کے بر عکس خیال رکھتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے مرد کو باہر کا اور عورت کو گھر کا کام کرنے کی ہدایت نازل فرمائی ہے، تو ایسے لوگ در اصل اس فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ مرد پر عورت کی پرورش کرنے، نان و نَفقَہ دینے کا بار بھی خدا کی طرف سے ہی ڈالا گیا ہے۔
پھر جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں، انھیں یہ بھی ماننا چاہیے کہ مرد کا عورت کو طلاق دینا در اصل عورت کی روزی روٹی چھین لینا، اس کو اس کے گھریلو روزگار سے محروم کر کے سڑک پر پھیک دینا ہے۔
اس لیے، جو لوگ مرد کو فطری طور پر خدا کی طرف سے مقرر کردہ قوّام_ یعنی رسد لانے والا_ مانتے ہیں ان کا طلاق کا حامی ہونا بڑا عجیب فعل معلوم ہوتا ہے۔
خدا ایک طرف مرد کو عورت کا اَن داتا بھی بنائے اور دوسری طرف مرد کو بَہ ذریعہ طلاق عورت کا رزق چھین لینے کا مَن مانا حق بھی عطا کرے، یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔
الحاصل، اگر آپ صنفی مساوات میں یقین رکھتے ہیں تو کوئی کسی کا اَن داتا نہیں اور کوئی بھی اپنی طرف سے کبھی بھی کسی معقول، یا غیر معقول سبب کے اپنے رفیقِ حیات کو چھوڑ کر جہاں چاہے جا سکتا ہے۔
اور اگر آپ صنفی مساوات میں یقین نہیں رکھتے اور مرد کو خدا کی طرف سے مقرر کردہ قَوّام و کفیل مانتے ہیں تو اسے اپنی عورت کو طلاق کی آزادی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ ایسا کر کے وہ ایک ایسی عورت کو رزق سے محروم کر رہا ہے جس کو گھر سے باہر نکل کر اپنا رزق خود کمانے کی سہولتیں نہیں فراہم کی گئیں اور اس کے باہر نکلنے پر ایک عدد مَحرم کو ساتھ رکھنے جیسی قُیود لگائی گئیں۔ ظاہر ہے ایسی مجبور و بے سہارا عورت کو عمر کے کسی بھی مرحلے میں گھر اور روزگار سے محروم کر دینے کی کھلی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یا تو عورت کو مکمل آزادی فراہم کرو تا کِہ وہ ٹھیک مرد کی طرح باہر نکل کر ہر کام کر سکے اور اپنا رزق خود کما سکے اور اپنے شوہر کی محتاج نہ رہے۔
یا اسے بَہ دستور محجُوب و پس ماندہ بنائے رکھنا ہے اور اس کے چلنے پھرنے اور کام کرنے پر پابندیاں لگاتے رہنا ہے تو پھر ایک بار اس سے نکاح ہو جانے پر اس کو طلاق دے کر ہَر گز بے سہارا نہ بناؤ۔
اور اگر طلاق دو تو اس کو پورے عزت و احترام کے ساتھ شادی شدہ زندگی جیسا نان و نَفقہ بھی دو، یہاں تک کہ اس کی دوسری شادی ہو جائے۔ ہمارے سامنے یہ دو ہی آپشن ہیں۔ تیسری کوئی راہ نہیں۔