بیوہ اور اس کا بچہ از، خلیل جبران
از، خلیل جبران
ترجمہ از، خلیل الرحمٰن
تمثیل: بیوہ اور اس کا بچہ
کتاب: آنسو اور مسکراہٹ (1914)
رات کی گہری تاریکی چھا چکی تھی اور شمالی لبنان کی وادئِ قادیشا میں برف کی چادر نے ارد گرد کے سارے دیہاتوں کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا تھا؛ کھلیانوں میدانوں پر ایک ایسی دبیز چادر پھیلا دی تھی جس پر فطرت اپنی سوزَن کاری کے نمونے کندہ کر رہی تھی۔ جب خاموشی نے رات کو اپنی آغوش میں لیا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آ چکے تھے۔
انہی دیہاتوں میں سے ایک الگ تھلگ سے گھر میں ایک خاتون رہتی تھی جو کہ آتش دان کے پاس بیٹھی اُون بُن رہی تھی، جس کے پاس ہی اس کا بچہ بیٹھا ہوا کبھی آگ کو تکتا تو کبھی اپنی ماں کو۔
بادلوں کی دل دہلا دینے والی گرج سن کر چھوٹا لڑکا ڈر کے مارے کانپ اٹھا۔ اُس نے اپنی بانہیں اپنی ماں کے گرد حمائل کیں، تا کہ وہ فطرت کی ہول ناکی سے بچ کر اس کی ممتا میں پناہ گزیں ہو سکے۔ ماں نے اسے سینے سے لگا کر چوما؛ اپنی گودی میں بٹھایا اور بولی، ”میرے بچے! ڈرو مت، یہ تو فطرت اپنی عظیم طاقت کا انسان کی بے بسی کے ساتھ محض موازنہ کر رہی ہے۔ برف کے اڑتے ہوئے گالوں، بھاری بَھرکم بادلوں کی گھن گرج اور طوفانی ہواؤں کے اس پار ایک عظیم ہستی ہے اور وہ اہلِ زمین کی ضروریات سے آگاہ ہے جو کہ اسی کی اپنی ہی تخلیق ہیں؛ وہ کم زوروں کو اپنی مہربان آنکھوں سے تکتا ہے۔”
یہ بھی ملاحظہ کیجیے:
دُور کی بستیوں کی آوازیں: کولمبیا کے ویتُو آپُشنا کی شاعری ترجمہ: یاسر چٹھہ
”بہادر بنو، میرے پیارے بیٹے، فطرت بہار میں مسکراتی ہے، گرمیوں میں کِھلکِھلاتی ہے اور خزاں میں جمائی لیتی ہے؛ لیکن اب وہ رو رہی ہے اور اس کے یہی آنسو پھر زندگی سِینچتے ہیں؛ زندگی جو کہ زمین کی تہوں میں کہیں پنہاں ہوتی ہے۔”
”سو جاؤ میرے لختِ جگر؛ تمہارے بابا ہمیں ابدیت کے اس پار سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ یَک بستہ برف اور بادلوں کی گھن گرج ہمیں اس وقت ان کے بہت قریب کر رہی ہے۔”
”سو جاؤ میری جان کہ برف کا یہ سفید کمبل جو کہ ہمیں سردی سے ٹِھٹھراتا ہے، یہی زیرِ زمین بیج کو گرمی پہنچاتا ہے اور جب نسیان (Nisan) شروع ہو گا تو یہی ہول ناک چیزیں دھرتی پر خوب صورت اور رنگا رنگ پھول اگائیں گی۔”
”تو، میرے بچے، جب تک انسان غم و آلام سے رُو شناس نہ ہو، ہجر کی سختیاں نہ جھیلے، صبر آزما حالات اور مصائب سے آشکار نہ ہو، تب تک وہ محبت کی فصل نہیں کاٹ سکتا۔ اب سو جاؤ، میرے ننھے فرزند، سو جاؤ، تا کِہ تمہاری روح، جو کہ کالی رات کی مہیب تاریکی اور کاٹ کھانے والی ٹھنڈ سے خوف زدہ ہے، وہ حسین خواب دیکھ پائے۔”
” بچے نے اپنی نیند آلُود آنکھوں سے ماں کی جانب دیکھا اور بولا،”ماں میری آنکھیں نیند کی وجہ سے کُھل نہیں پا رہی ہیں، لیکن میں دعا کیے بَغیر نہیں سووں گا۔”
ماں نے اس کے معصوم چہرے کو دیکھا جو کہ اس کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسووں کی وجہ سےٹھیک سے نہیں دکھ پا رہا تھا۔ وہ بولی،”میرے بیٹے، میرے پیچھے پیچھے دُہراؤ … خداوند، غریبوں پر رحم فرما اور انہیں ٹھنڈ سے بچا؛ ان کے باریک پوشاکوں والے اجسام کو اپنے گرم ہاتھوں کے لمس سے حِدّت پہنچا، بھوک اور ٹھنڈ میں مبتلا، افلاس زدہ گھروں میں رہنے والے یتیموں پر کرم فرما۔ اے ربِّ کریم، ان بیواؤں کی فریاد سن، جو کہ بے یار و مدد گار ہیں، اور اپنے معصوموں کی وجہ سے خوف کے مارے کانپتی ہیں۔ پروردگارا، تمام انسانوں کے دلوں کوکھول دے تا کِہ وہ کم زوروں کی مفلسی کو دیکھ سکیں۔ ان غریبوں پر رحم فرما جو لوگوں کے دَروں پر دستکیں دیتے ہیں اور راہ رووں کی گرم جگہوں کی جانب راہ نمائی کرتے ہیں۔ اے مالک، دیکھ ان ننھے پرندوں کی خیر فرما اور درختوں اور کھیتوں کو طوفانوں کی شدت سے محفوظ فرما؛ کیوں کہ تو سب سے بڑھ کر مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔”
“جب بچے پر نیند غالب آ گئی تو ماں نے اس کو بستر پر سلا دیا اور اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے اس کی آنکھوں کو بوسا دیا۔ پھر وہ واپس اپنی انگیٹھی کے پاس جا کر پوشاک بنانے والی اُون بننے لگی۔”