ول ڈیوراں خط لکھتا ہے : کہ عہد نو میں زندگی کو کیا ہو گیا ہے
(ترجمہ کار: نصیر احمد)
پیارے ارل رسل
کیا آپ اپنی مصروف زندگی میں میرا دخل دینا اور میرے ساتھ فلسفے کا کھیل کھیلنا پسند کریں گے؟ میں اپنی اگلی کتاب میں ایک سوال کا سامنا کروں گا جس کو ہماری نسل ہمیشہ پوچھنے کے لیے تیار رہتی ہے لیکن اس کو ہنوز شرمندہ جواب کرنے سے محروم ہے۔ آدمی کی زندگی کے معنی کیا ہیں اور آدمی کی زندگی کی اہمیت کیا ہے؟ اب تک تو اخناتون اور لاؤزے سے لے کر برگساں اور سپنگلر تک نظریہ ساز اسی سوال کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔ نتیجہ دانشوارانہ خودکشی کی مختلف انواع کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔لگتا ہے سوچ نے اپنی ہی نشو ونما سے زندگی کی اہمیت گنوا دی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم کی بڑھوتری اور پھیلاؤ اپنے معتقدین اور دوسرے لوگوں کے لیے ایک خواب شکنی کا باعث بنے ہیں جس نے ہماری نسل کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ یہی علم جس کے لیے مصلحین اور آدرشی دعائیں کرتے رہے۔ ماہرین فلکیات نے ہمیں بتایا کہ انسانی معاملات تو ستاروں کے سفر میں ایک لمحے کی مانند ہیں۔ ماہرین ارضیات بتاتے ہیں کہ تہذیب تو برفانی زمانوں کے درمیان ایک خطر آمیز وقفہ ہے۔ حیاتیات کے علماء ہمیں کہتے ہیں کہ تمام حیات افراد، گروہوں، اقوام، اتحادوں اور انواع کے درمیان وجود کی بقا کے لیے تگ و تاز اور جنگ ہے۔ تاریخ دانوں کا فرمان ہے کہ ترقی ایک سراب ہے جس کی عظمت انحطاط پر ختم ہو جاتی ہے۔ نفسیات دان ہمیں بتلاتے ہیں کہ ذات اور رضا ماحول اور وراثت کے آلات ہیں۔ اور یہ کہ نا آلودہ روح تو دماغ کی تغیر پذیر چمک ہے۔ صنعتی انقلاب نے گھر تباہ کر دیا ہے اور مانع حمل ایجادات خاندان، قدیم اخلاقیات اور شاید بنی نوع انسان کو برباد کر رہی ہیں۔(ذہانت کے اسقاط کے ذریعے سے)۔
محبت کا تجزیہ جسمی رکاوٹوں کی صورت میں ہو رہا ہے اور شادی ایک جسمانی سہولت بن گئی ہے جو رنگا رنگ شہوانی رشتوں سے تھوڑی سی ہی بہتر ہے۔ جمہوریت اس بدعنوانی کی جون اختیار کرگئی ہے جس سے صرف مائلو کا روم آشنا تھا۔ اور ہمارے بے طبقہ فردوس کے سپنے ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑتے ہیں۔آدمی کی نہ ختم ہو نے والی ہوس۔ ہر ایجاد طاقتور کو طاقتور تر بناتی ہے اور غریب کو ناتواں کرتی جاتی ہے۔ ہر جدید مشینی نظام انسانوں کو بے گھر کر دیتا ہے اور جنگ کی دہشتیں بڑھا دیتا ہے، دوگنی کردیتا ہے۔ خدا جو کبھی ہماری مختصر زندگی کی تسلی تھا، ابتلاء اور محرومی میں ہماری پناہ گاہ تھا منظر سے واضح طور پر غائب ہو گیا ہے۔
کوئی دوربین، کوئی خوردبین اسے دریافت نہیں کر سکتی۔ زندگی اس مکمل منظر نامے میں جسے فلسفہ کہتے ہیں زمین پر انسانی کیڑوں کا ہجوم بن گئی ہے۔ ایک سیاراتی بیماری جس کا علاج ممکن نہیں۔ شکست اور موت کے سوا اس میں کوئی بات یقینی نہیں رہی۔ ایک نیند جس سے جاگنا لگتا ہے ممکن ہی نہیں۔ ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ حق کی دریافت تاریخ انسانی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس نے ہمیں آزاد نہیں کیا مگر ان مغالطوں سے آزاد کیا جو ہمیں سکھ پہنچاتے تھے، ان زنجیروں سے آزاد کیا جو ہماری حفاظت کرتی تھیں۔
سچ نے ہمیں خوشی نہیں عطا کی کیونکہ سچ حسین نہیں ہوتا اس لیے اتنے پر جوش تعاقب کا مستحق نہیں ہے۔ بدلے میں سچ نے صرف لمحاتی لطف اور آئندہ کل کی بے معنی امید دی ہے۔ یہ وہ درہ ہے جس میں فلسفہ اور سائنس ہمیں لے آئے ہیں۔ میں جس نے فلسفے سے سالہا سال پیار کیا ہے، اس سے ہٹ کر زندگی کی طرف لوٹتا ہوں اور آپ سے
منت کرتا ہوں کہ آپ جیے بھی ہیں اور سوچے بھی ہیں سمجھنے میں میری سہولت کریں۔ شاید جو بھرپور جیون گذارتے ہیں ان کا فیصلہ صرف سوچنے والوں سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک لمحہ مجھے عطا کریں اور بتائیں کہ آپ کے نزدیک زندگی کے معانی کیا ہیں؟ اگر آپ دھرم والے ہیں تو مذہب آپ کی کیا مدد کرتا ہے؟ کیا بات ہے جو آپ کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے؟ آپ کی تخلیقی قوت اور توانائی کا ماخذ کیا ہے؟ آپ کی محنت کا مقصد اور اس پر آمادہ کرنے والی قوت کیا ہے؟ آپ کو تسلی اور خوشی کہاں سے ملتی ہے؟ آخری لائحہ عمل کے طور پر آپ اپنا خزانہ کہاں چھپاتے ہیں؟ چاہیں تو مختصر لکھیں، فرصت ہو تو طویل جواب دیں کیونکہ آپ کا ہر لفظ میرے لیے قیمتی ہو گا۔
مخلص
ول ڈیوراں
ول ڈیوراں نے اس خط کی نقول درجہ ذیل افراد کو بھی بھیجیں:
صدر ہوور۔ صدر میزرائک۔ لائیڈ جارج۔ ونسٹن چرچل۔ فلپ سنوڈن۔ آرٹسٹائد برانڈ۔ مسولینی۔ مارکونی۔ آیئنزیو۔ مادام کیوری۔مس میری گارڈن۔ مس جین ایڈمز۔ ڈین انگی۔ جوزف سٹالن۔ ایگور سٹراونسکی۔ لیون ٹراٹسکی۔ موہن داس کرم چند گاندھی۔ رابندر ناتھ ٹیگور۔ اینگس پیڈرووسکی۔ رچرڈ سٹراؤس۔ البرٹ آئین سٹائن۔ گیراٹ ہاپٹمین۔ ٹامس مین۔ سگمنڈ فرائڈ۔ برنارڈ شا۔ جان گلازورتھی۔ ٹامس ایڈیسن۔ ہنری فورڈ ۔ اونیل۔
اصل متن کا ہمارا ذریعہ: فلوسوفیکل سوسائٹی ڈاٹ کام