کیا اردو میں بڑا ادب تخلیق ہو گا؟

Naeem Baig

کیا اردو میں بڑا ادب تخلیق ہو گا؟

(ایک تنقیدی جائزہ)

از، نعیم بیگ 

چند دن پہلے سوشل میڈیا پر پاکستان کے ایک معروف اور سنجیدہ مترجم نے میلان کنڈیرا کے حوالے سے اردو ادیبوں پر گفتگو کا آغاز کیا تھا، جس پر اِس فقیر نے اردو ادب پر مختصراً چند معروضات پیش کیں۔ تاہم ایک عمومی مکالمے کے بعد یہ گفتگو اپنے فطری انجام کو نہ پہنچ سکی کہ سوشل میڈیا ایک عارضی اور فوری ردعمل کا فورم ہے، جہاں سنجیدہ مکالمہ شروع تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر صرف وہی ادیب و تنقید نگار توجہ دے پاتے ہیں جو سوشل میڈیا پر سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ دیگر بہ وجۂِ عدم موجودگی یا تاخیر اس مکالمہ کا حصہ نہیں بن پاتے۔ نتیجتاً یہ گفتگو خود بَہ خود اپنی طبعی موت مر گئی۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ نثر نگار و تنقید نگار یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گفتگو کرنا وقت کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔

بَہ ہر حال سوشل میڈیا کی اہمیت سے مفر نہیں۔ یہ اب ایک معاشرتی و سماجی ساخت کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس سے آپ پہلو تہی نہیں کر سکتے۔ اس مکالمے کے بعد راقم نے اس مترجم دوست کو چھ صفحات پر مبنی ایک طویل خط بھی تحریر کیا تھا۔ جس کا جواب تادمِ تحریر توجہ طلب ہے جب کہ میں نے انھیں اپنا خط شائع کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ 

اِسی موضوع پر اِس مکالمے سے پہلے میرے محترم دوست شہر کے معروف شاعر اور سائبان کے مدیر حسین مجروح مجھے کئی بار معاصر اور مقبول ترین اردو ادیبوں بالخصوص فکشن نگاروں بارے اپنی رائے سائبان کے لیےقلم بند کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اِن کا خیال ہے کہ آج کے مقبول ترین فکشن نگاروں بارے حقیقی تنقیدی رائے سامنے آنی ضروری ہے کیوں کہ اردو ادب میں بڑی اور عالمی توجہ حاصل کرنے والی تخلیقات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ 

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ہماری بیش تر تنقید ایک مخصوص طرز پر رائج ہے جس میں انگریزی کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے بیش تر تنقید نگار ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہیں اور اردو ادب کے کینوس پر موجود تخلیقی تحاریر کو پسند و ناپسند اور ادیب کی مقبولیت، ان کی تخلیقات کی تعداد، سرکاری و عوامی ایوارڈز اور دیگر میڈیا چینلز پر ان کی موجودگی کے دباؤ اور عوامی معیار کے پیشِ نظر اپنی گفتگو کو تنقیدی بصیرت کے سانچے میں ڈھالتے اور جانچتے ہیں۔

انگریزی ادب کے سکاٹ لینڈ کے پروفیشنل ادیب و نقاد و مدیر پروفیسر الیکس جونسٹن (یہ وہی جونسٹن ہیں جو معروف موسیقار کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں) کہتے ہیں کہ لفظ ’تنقید‘ وسیع تر معنوں کا حامل ہے۔ اِس لفظ کو جب ہم کبھی کسی حوالے سے اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں تو اس سے پہلے آپ کو اپنے سبجیکٹ یعنی موضوع کا نقطۂِ نظر بالکل واضح اور شفاف ذہن میں رکھنا ہو گا ورنہ آپ کا بیانیہ کم زور اساس پر کھڑا نہ رہ سکے گا۔ دوئم آپ کا یہ بیانیہ مربوط اور واضح ہو تا کہ تنقیدی بصیرت کے ان پہلوؤں کا احاطہ کر سکے جو عمومی طور پر ادب میں زیریں یا عمیق گہرائی کے حامل ہوتے ہیں۔ 

 اِنھی بنیادی حوالوں سے آج ہم اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ پہلے عالمی ادب کو ایک طائرانہ نظر سے دیکھ لیتے ہیں تا کہ بعد ازاں ہم اِس مختصر جائزے میں بلا استثناء یہ کہہ سکیں کہ ہمارا اردو ادب یا ادیب کس مقام پر کھڑا ہے۔ یہ موضوع قطعی طور پر میرے ذاتی خیالات و مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ممکن ہے کہ اردو کے بیش تر ادیب و نقاد مجھ سے اتفاق نہ کریں، لیکن میں اِس مباحثی مخمصے میں جائے بغیر اپنی بات کہنا چاہتا ہوں۔ مشکل ترین تنقیدی اصطلاحات و اشارات اس مضمون میں آپ کو ہر گز نہیں ملیں گی۔ میرا مقصد واضح طور پر ان علامات و گوشوں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے جو عموماً قاری کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ 

اولاً تو میرے سامنے ادب میں محب الوطن اور غیر محب الوطن ادیب و شاعر کی کوئی شرح ہے نا تخصیص۔ ادیب و شاعر، ادیب و شاعر ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں ہو یا کسی زبان کا ماہر ہو، وہ اپنی تحریروں میں سرحدوں سے بالا تر ایک ایسی مخلوق ہے جس کی سوچ پر کسی قانون، شرعیت، مذہبی قواعد کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ ملکی، غیر ملکی، دشمن ملک، دوست ملک یہ سب اصطلاحات اِس سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہیں جن کا مطمحِ نظر دولت کا ارتکاز (نیُو لبرل ازم)‘ انسانی وجود کی نفی اور عالمی استعماریت کے جبری نظام کو تقویت دینا مقصود ہوتا ہے۔ 

ادیب اِس عناصر سے بالا تر اپنے ضمیر اور تدبیر گر ذہن سے اپنے مشاہدات جس میں انسان کی رَفعت و علامت اور شناخت شامل ہوتی ہے، ان کو قلم کی نوک پر لے آتا ہے۔ البتہ فکشن نگار وہ جادوگر ادیب ہوتا ہے جو لفظوں سے زندگی کے کرداروں میں رنگ بھرتا ہے۔ انھیں حرکت میں لاتا ہے۔ خالق کی حیثیت سے انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ مصنف کے احکامات کو بجا لائیں۔ معروضیت و جمالیات کے درمیان خفیف فرق کو سمجھتے ہوئے معاشرے کے کھوکھلے پن اور تن پروری کو آشکار کریں۔

البتہ اِن لمحات میں بیش تر ادیبوں کو لفظوں اور کرداروں کی مزاحمت ملتی ہے۔ کیوں کہ وہ کردار لا شعوری طور پر اُسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے انانیت کے تحت تماشا بننے سے انکار کرتے ہیں۔ میں جملۂِ معترضہ کے طور پر یہ عرض کروں کہ یہ تجربہ میں اپنے حالیہ ناول ”خواب انگارے“ میں سہہ چکا ہوں جہاں کرداروں نے مجھے مجبور کرنے کی کوشش کی کہ میں ان کے افلاک پر قابض نہ ہوں اور سَمک (نچلے طبقے کی روایت) کو منہدم کرنے کی جسارت نہ کروں، جب کہ میرا نقطۂِ نظر انھیں جبری زنجیروں سے نجات دلانا مقصود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ناول کے اختتام پر ان سب کرداروں سے مکالمہ کر کے انھیں بے نقاب کرنا پڑا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ذہین فکشن نگار بہ خوبی اس عمل کو سمجھتا ہے اور وہی ضبطِ تحریر میں لاتا ہے جو اس کی مرضی و منشاء ہو۔ وہ کسی قیمت پر کرداروں کو حاوی نہیں ہونے دیتا۔ یہ کام بہ طریق احسن عالمی ادیبوں نے کیا۔ ’انیمل فارم‘ از جارج اورویل اس کی بہترین مثال ہے۔ منٹو کے بیش تر افسانے اور غلام عباس کا ناول ’جزیرۂِ سخن وراں‘ اردو ادب سے بہترین مثالیں ہیں جہاں کردار کی جاذبیت اس کے مصنف کے ہاتھ میں رہتی ہے نہ کہ ضوابطِ ادب و تنقید میں۔ 

میں انگریزی ادب کے جائزے سے پہلے یہاں مختصراً چند گزارشات مزید بھی عرض کرتا چلوں۔ چُوں کہ یہ وصف یہاں اردو کے چنیدہ نقادوں میں ہی نظر آیا ہے۔ مسٗلہ صرف یہ ہے کہ عالمی ادیبوں کو سُچے تنقید نگار ملے جب کہ ہمارے ہاں معاصر ادب پر تنقید نگار پہلےتو ہاتھ ہی نہیں ڈالتا۔ تدریسی ضروریات کے تحت نقد و نظر کا وہ کام ہاتھ لیتا ہے جس میں طالب علموں کو تنقیدی بصیرت کی عطاء سے زیادہ نصاب کی حد تک ہی محدود رکھا جائے۔ اس کی دوسری وجہ وہی ازلی سہل پسندی ہے جو پاک و ہند کا وتیرہ ہے اور تیسری وجہ ’من ترا مُلا بگوئم تو مرا حاجی بگو‘ والا معاملہ بھی ہے۔

کسی بھی تنقید نگار کو معاصر ادب پر لکھنے کے لیے تحقیق سے کہیں زیادہ علمی سطح پر تجزیاتی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ کہ بیش تر حوالوں کا مشاہدہ خود نقاد نے اپنی ادبی زندگی میں کیا ہوتا ہے۔ تاہم میرے تئیں اِس نقاد کا اپنا نقطۂِ نظر، ویژن اور اس کا کینوس کسی نہ کسی شکل میں نثر نگار سے وسیع تر ہونا لازم ہے۔ اس کی متعلقہ تحریر، ساخت اور موضوعیت پر کڑی منطبقت رکھتی ہو۔

 اس ضمن میں معاصر ادب کو پرکھنے میں ناصر عباس نیئر نے بڑی حد تک اس خلاء کو پر کیا ہے۔ تاہم وہ بھی بالآخر کالونیل، پوسٹ کالونیل مطالعہ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت، متن بیانیہ ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری جیسی اصطلاحات میں اپنے آپ کو گُم کر چکے ہیں۔ ایسے اشاراتِ تنقید ایک حد تک اکیڈمک مقاصد کے لیے تو درست ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہی اشارات آپ کی ہر تحریر میں نظر آنا شروع ہو جائیں تو فکری اور تخلیقی سطح پر کوئی واضح نظریاتی و معروضیت کا پیغام دینے میں قاصر ہوتے ہیں۔ 

گو ناصر عباس ہمارے ان چنیدہ تنقید نگاروں اور مصنفوں کی فہرست میں ہیں، جن میں انہماک، تنقیدی جائزہ لینے کی بصیرت و صلاحیت اور احساس ذمے داری بہ درجۂِ اتم موجود ہے اور اس کا ظہار بھی گاہے گاہے ان کی تحاریر میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمیم حنفی نے ان کے بارے میں کہا تھا ”وہ اختلافی امور میں متانت کا ساتھ دیتے ہیں“ جو بَہ ہر حال ایک وصف تو ہے لیکن علمی و ادبی حلقوں میں اس کے اثرات اپنے سروکار سے قدرے دور ہو جاتے ہیں۔ انھیں اِس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف ہماری دیگر تنقید میں ماضی میں لکھے گئے ادب ماسوائے چند ایک کلاسیک ناول پر ہلکی پھلکی تحقیق میں اکیڈمک اور تدریسی مقاصد کے لیےاس کی جوہری ساخت و فکری سٹرکچر میں مکھی پر مکھی بٹھانے کی ترکیب ہی استعمال کی گئی ہے۔ یہ معاملہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے اور تاریخی حقائق کو تحقیق سے پرے اس کے کم تر معنوں میں مِن و عَن ترتیب میں لائے بغیر لکھا گیا۔ اِس ضمن میں شمس الرحمان فاروقی نے بَہ ہر حال تنقیدی و تخلیقی حق ادا کیا ہے۔

معاصر ادب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بیش تر مصنفین اور فکشن نگار نے تاریخی اغلاط کیں جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ ایک اور وجہ چُوں کہ ان تاریخی حقائق پر تنقید کرنا یا لکھنا قدرے دشوار ہوتا ہے کہ نقاد کی خود ساختہ ادبی و تنقیدی و تحقیقی مہارت کے بھرم ٹوٹنے کا خدشہ اور امکان پیش نظر ہوتا ہے جو کم از کم عصری نقاد اَفورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ناول میں تاریخی حقائق پیش کرتے ہوئے ادیب بھی گہرے تاریخی سچ اور تخلیقی سروکار سے کم شاعرانہ طرز و تجربے کی بنیاد پر مماثلت اور مغالطے کو زیادہ جنم دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ واقعاتی مترادفات کو اپنی تخلیق میں جانے انجانے کم تر سطح پر حنُوط کر دیتے ہیں۔ 

اس قسم کی کوتاہی عام طور پر سفر ناموں اور تاریخی و نیم تاریخی ناولوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان تاریخی واقعات سے چُوں کہ عام قاری نابلد ہوتا ہے، لہٰذا وہ انھی کو سچ اور حقائق تسلیم کر لیتا ہے۔ اردو ادب میں ایسا عام طور پر بِسیار نویس مصنفین کرتے ہیں جنہیں کہیں زیادہ شہرت و مقبولیت مطلوب ہوتی ہے۔ 

 اس ضمن میں اردو ادب میں کئی ایک معاصر مصنفین کے نام گنے جا سکتے ہیں، جن کی ادبی اصناف کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس میں درجنوں سفر نامے، ڈرامے، ناول اور دیگر کتب شامل ہیں، ان میں بہت کچھ ایسامواد ملے گا جن سے سنجیدہ قاری نے صرفِ نظر سے کام لیا ہے۔ میں اس وقت صرف ایک مقبول ترین ناول نگار ادیب مستنصر حسین تارڑ کی تخلیقات پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ مثالیں دینا چاہوں گا۔

 اولین میرا خیال تھا کہ تارڑ صاحب کی ادبی کام پر ایک الگ مضمون میں گفتگو کروں، تاہم اب اِس مضمون کے عنوان اور مقدمہ کے حوالے سے جو فنی و فکری و نظری سوال میں اِس وقت اٹھا رہا ہوں، اسی تناظر میں ان کا اجمالاً ذکر خیر بھی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

حال ہی میں ان کا پنجابی ناول ’میں بھناں دلی دے گنگرے‘ منَصّۂِ شہود پر نمودار ہوا ہے۔ یہ ناول بھگت سنگھ کے تاریخی کردار اور واقعات پر مبنی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس ناول میں مستنصر صاحب نے عین وہی ٹریٹمنٹ دیا ہے جس ترتیب و ترکیب سے وہ اپنے سفر ناموں کے واقعات کو فکشنلائز کرتے ہوئے پیش کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے بیش تر یورپ کے سفرناموں میں جو واقعات نظر آتے ہیں ان میں واقعات کے شواہد کو انھیں نے مقبول عام ریڈر شپ کے لیے فکشنلائز کیا۔ چلیں اس حد تک بات درست کہی جا سکتی ہے کہ سفر ناموں میں بیش تر قارئین کی وہ اکثریت ہوتی ہے جو ڈائجسٹی مقبول ادب کے دروبست کو مقبولیت اور جذبات کی کسوٹی پر فائز سمجھ کر اس سے جمالیات سے پرے جذباتیت کے اُن پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیتی ہے جو کسی نہ صورت اِن کی ذات سے منسلک ہوتے ہیں۔ 

زیادہ تر ان سفر ناموں میں پاپولر ادب کا وہ زمانہ ہے، جب ملک بھر میں ڈائجسٹی ادب بہت مقبول تھا۔ تارڑ صاحب نے انھی پیرامیٹرز کو تخلیقی اپج میں ملحوظ خاطر رکھا، جو پاپولر ادب میں رائج تھی اور اپنی ذہانت و فطانت سے انسانی جذبات کے پہلوؤں کو زیادہ ہائی لائٹ اور ایکسپلائٹ کیا۔ چُوں کہ وہ بہ یک وقت میڈیا کے دوسرے ذرائع پر بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھا رہے تھے سو مقبول بصری تراکیب کو بھی اپنی تحریروں میں بہ روئے کار لائے۔ 

دوسرے لفظوں میں انھیں نے اسی کمیت، کوالٹی و مقدار جو متعین پاپولر ادب میں رائج تھی، اس کو اپنے سفر ناموں میں ریڈیبلٹی کو مہمیز دینے کے لیےاستعمال کیا اور اپنے سفر ناموں کو مقبولِ عام بنایا۔ گو ان سفر ناموں کی مقبولیت مختصر عرصہ کے لیے رہی لیکن اس سے تارڑ صاحب کو ادب میں بھی بڑی حد تک پہچانا جانے لگا۔

چلیں ہم عالمی ادب کے تناظر میں پاپولر ادب کی کسوٹی مان لیتے ہیں کہ اس حد تک کسی بھی فکشن کو پسند کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں جہاں تاریخی حوالوں کا ذکر تھا اس میں مصنف نے مناسب تحقیق کرنے کی بجائے سنے سنائے حوالوں کو بیان کر دیا۔ جس سے قارئین کا ایک بڑا حصہ جو تاریخ سے نا بلد تھا کو وہی تاریخ پڑ ھنے کو ملی جو تارڑ صاحب کے قلم کا کمال تھی۔ اس صورت حال کو تب بھی سنجیدہ ادبی حلقوں کی نجی محفلوں میں تاریخ کو مسخ کرنے کے حوالے سے دیکھا گیا تھا۔

 یورپ کے سفر ناموں میں کسی حد تک اس تاریخی حوالوں کی اغلاط سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے، لیکن جب انھیں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کے پے درپے دورے کیے اور اس کے بعد ان سفر ناموں کو قلم بند کیا جن میں ’ہنزہ داستان‘ سفر شمال کے، کے ٹو کہانی، نانگا پربت اور سنو لیک وغیرہ میں وہاں کے قبائلی اور تاریخی حوالوں کو سنی سنائی گفتگو کی روشنی میں مسخ کیا تو یہ اپنی لوکیل میں لکھے گئے ادب میں ایک سنگین غلطی تھی۔ 

 جیسے جگہوں کے ناموں کی قدیم سند و تاریخ اور قبیلوں کے رسم و رواج، لباس و رہن سہن وغیرہ۔ چوں کہ تارڑ صاحب کا طُوطی میڈیا پر بول رہا تھا سو دبی زبان میں ادبی حلقوں میں گفتگو تو ہوئی لیکن زیادہ تر اس پر ’جائے دَم زدن نیست‘ کے مصداق خاموشی ہی رہی یعنی انگریزی میں ’ٹیکن فار گرانٹڈ‘ لیا گیا۔ 

نتیجتاً قارئین نے ان تاریخی کوتاہیوں کو مستند سمجھ لیا۔ ان معاملات پر تاریخ دان یا آرکیالوجی والے علی الاعلان بولتے تو بولتے ورنہ عام قاری یا نقاد (حالاں کہ نقاد کا تو فرضِ منصبی یہی تھا) یہ سوچ کر ہی چپ رہے کہ تارڑ صاحب نے لکھا ہے درست ہی لکھا ہو گا۔ تنقیدی سطح پر اسے ہم ادبی ربودگی یا غفلت ہی کہیں گے۔ 

چُوں کہ ان کے بارے میں الیکٹرونک میڈیا پر مقبولیت کی ایک ہوا بندھ چکی تھی سو مصنف اس مقبولیت کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ چند برس پہلے مجھے یاد پڑتا ہے کہ یوٹیوب پر ایک تاریخ دان حضرت جو شاید مصنف بھی ہیں، (میں ان کا نام بھول رہا ہوں، ممکن ہے کچھ نوجوان ریسرچرز انھیں ڈھونڈ نکالیں) نے اس بارے گفتگو کی تھی اور تارڑ صاحب کے شمالی علاقوں کی تاریخی حقائق کو اپنی کتابوں میں توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے پر سرزنش کی تھی۔ (*سلمان رشید کا نام لینا چاہ رہے ہیں شاید*، مدیر ایک روزن

لیکن ان کے حالیہ پنجابی ناول جس کا راقم نے اوپر ذکر کیا ہے، میں بے شمار تاریخی حقائق مسخ ہیں۔ یہ ناول میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ اس کے پنجابی زبان و بیان کا معاملہ تو الگ رہا، جس پر کچھ پنجابی ادبی حلقوں میں ذکرِ خیر ہوا ہے؟ میں پنجابی ادب کے تنقید نگاروں سے عرض کروں گا کہ اس کا بہ غور مطالعہ کریں۔ عام پنجابی بول چال اور ادبی زبان کے فرق کو اگر سنجیدہ ادب میں ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو کہاں رکھا جائے گا؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔

بَہ ہر حال اس بارے لاہور میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر و ادیب غلام حسین ساجد جو بہ یَک وقت پنجابی اور اردو کے سکالر بھی ہیں، اِس ناول پر سیر حاصل تنقیدی تبصرے میں بہت کچھ سامنے لائے ہیں۔ اُن کا یہ تبصرہ اپریل ۲۰۲۳ کو فیس بک پر شائع ہوا تھا۔ اِس تنقیدی جائزے کی ابتداء میں جہاں انھیں نے تارڑ صاحب کی کچھ کتب کی رسماً تعریف کی ہے وہیں اس ناول پر کڑی تنقید کی ہے۔ زبان و بیاں کے علاوہ انھیں نے وہی سب سے بڑا سوال اٹھایا ہے جو میرے اس مضمون میں تاریخ کے حوالوں سے سامنے آیا ہے۔ انھوں نے ابتداء میں ہی عنوان کے حوالے سے ’میں بھنّاں دلی دے کنگرے‘ پر دبے لہجے میں یہ سوال اٹھایا میں ان کی تحریر کے کچھ اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ خود اندازہ فرما لیں۔

”ناں تو اینج لگدا اے پیئا اے کہ ایہہ ناول دلا بھٹی بارے ہوسی پر اے دُلے بھٹی نہی شہید بھگت سنگھ بارے اے۔“

اِس بارے اس ناول کے انتساب میں جو شعر بیان ہوا ہے اس نے مغالطے کو مہمیز دی ہے۔

میرے تئیں کسی بھی فکشن نگار کو اپنی تخلیق یا کلامیے میں نظری مباحث سے ہٹ کر متن کی ساخت اور اس میں بیانیہ کی ہیئت میں سچائی اور جواز کو ملحوظِ خاطر رکھنا بے حد لازم ہے۔ بنا جواز تخلیق کھوکھلے پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ صرف واقعات کے بیان اور مقامات کے تعارف میں کسی قسم کی علمی و فکری فہم عنقاء ہوتےہی یہ تحریر پاپولر ادب کی نچلی سطح کے زمرے میں آ کر اپنے مقصد سے دور اور فکری راہ سے بھٹک جاتی ہے۔ 

 ناول کے سٹرکچر اور ہیئت بارے نقاد غلام حسین ساجد کہتے ہیں کہ تارڑ صاحب نے یہ تو کیا کہ قارئین کو ناول میں انھی تاریخی جگہوں پر بھگت سنگھ کے ذریعے جن میں اِس کا گاؤں، گلیاں، سکول، بریڈلے ہال، لاہور ریلوے اسٹیشن، مزنگ نواں کوٹ، ڈی اے وی کالج سول لائنز کے باہر سانڈرس کے قتل کے مناظر اور جیل کی پھانسی گھاٹ اور دیگر مقامات کی خوب سیر کرائی جس میں دوسرا کردار بھوکا پیاسا صرف ہنکورے ہی بھرتا رہا ہے۔ 

اقتباس ملاحظہ ہو۔

 ”ظاہر اے کہ مستنصر حسین تارڑ نے ایہہ ناول پوری طرح جانچ پرکھ کے لکھیا اے۔ بھگت سنگھ نوں مڑ کے جیوانا تے اودھے مونہوں ساری کَتھا کرانا وی ٹھیک اے پر اینج لگدا اے کہ بھگت سنگھ کج خود پسند جہیا ہویا ہویا اے کردار بس پرچھاواں ہی بن کے رہ گئے نے تے اودھے مقدمے دی تفصیل ادھوری جہیی رہ گئی اے۔ اینج لگدا اے کہ تارڑ ایس ناول نوں پورا کرن دی جلدی وچ اے تے بھگت سنگھ توں اڈ کسی ہور کردار نوں سرہیاں کرن دے جھنجھٹ وچ نہی پینا چاہندا۔“ 

ایک سینئر فکشن نگار جو ادبی حلقوں میں اپنے نام اور کام سے پہچانے جاتے ہوں کہ لیے یہ امر باعثِ صد افتخار ہوتا ہے کہ نقاد صرف ان کے نام کی مقبولیت سے متأثر نہ ہوں بل کہ ان کی تخلیق کے اُن پہلوؤں پر گفتگو کریں جو حقائق اِن کی بیان کردہ تخلیق کے فکری جواز کو تقویت دینے پر مجبور ہوں اور وہ تخلیق کے خفیف حوالوں کے درمیان پوشیدہ ہوں۔ مثلاً راقم میرزا اطہر بیگ کے ناول ”حسن کی صورت حالِ، خالی جگہیں پر کرو“ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہے۔ جہاں انھوں نے خفیف زیریں سطح پر فکر کو عیاں کیا جب کہ بالائی سطح پر جواز اور حقیقت مندرج ہوئی۔ ساخت فکشن کی تھی، لیکن حقیقت مظہر تھی۔

 نقاد کا کام ہے کہ اِن حوالوں کو اپنی تنقیدی بصیرت سے عیاں کرے نہ کہ وہ حقائق کو سرسری طور پر عمومیت پر مبنی سمجھ کر تنقیدی پیرے لکھیں۔ جس باریکی کو حقائق کے تناظر اور جواز کی روشنی میں تنقیص کرنا آسان ہو جاتا ہو اِس سے فکشن نگار کا اجتناب برتنا ضروری ہے جو تارڑ صاحب کے ہاں عنقاء ہے۔ چُوں کہ اپنے تئیں وہ سنجیدہ ادب تخلیق کر رہے ہیں اور قاری کے سامنے اس تخلیق کی ہیئت پاپولر ادب یا اس سے کم تر ڈائجسٹی ادب کی ہو تو گزشتہ کمائے ہوئے نام اور کام کو بھی گہنا دیتے ہیں۔

اسی تناظر میں ساجد صاحب آگے چل کر کہتے ہیں۔

”’’ایتھے اک دو گلاں ہو چیتے آ گیاں نے۔ بھگت سنگھ جدوں پنڈ جاندا اے تے راہ وچ اک جٹ کسان اونے پونے کماد دے چار پنج گنے انھیں چوسن نوں دیندا اے۔ نالے اے دسدا اے کہ ہُن ویلنے نیئں لگدے تے اے کماد شوگر ملاں نو گھلیاں جاندا اے۔ سب ٹھیک اے پر میں اے عرض کرنا چاہنا کہ پونا کماد ملاں وچ پیڑیا نیئں جاندا۔ ملِاں لیےکاٹھا کماد جاندا اے تے اودیاں ہن واہوا قِسماں بیجیاں جاندیاں نے۔ دوئی گل اے پئی کہ پونا کماد موٹا تے قد والا ہوندا اے۔ اودے چار گنے کوئی جن ای چوپ سکدا اے۔‘‘

ایک اور عرض کہ جب تخلیق کار واقعاتی سچ بیان کریں تو اس کی حقیقت کو ہُو بہ ہُو فکشنلائز کیے بغیر قاری کے سامنے لائیں اور اگر فکشنلائز کریں تو تصوراتی دنیا کا حقیقت سے مربوط ہونا لازم ہے۔ بیان اور تصورات کے درمیان فاصلوں کو تخلیقی قوت سے فکر کی حد تک ضرور دور کریں، لیکن حقائق اپنی جگہ درست ہوں اور فکشن نگار کا قلم بھی اس میں جادو جگائے۔

اِس بات کا ادراک مجھے تب ہوا جب اس ناول میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو شام کے وقت پھانسی دی گئی۔ میرے علم، روایت اور قانون کی رُو سے بلیک وارنٹ جاری ہو جانے کے بعد ملزم کو ہمیشہ سحری کے وقت ہی پھانسی دی جاتی ہے اور اس کی بہت سی اور وجوہات بھی ہیں جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں۔ اس حقیقت کا اظہار غلام حسین ساجد نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

”دوئی گل اے پئی جیل مینوئل دے موجب بلیک وارنٹ والے قیدی نوں پھانسی سرگی ویلے دیتی جاندی اے۔ منیا پئی بھگت سنگھ تے اودھے ساتھیاں نوں شام ویلے پھانسی دتی گئی تے تے اوناں دی لاشاں دی بے حرمتی گنڈا سنگھ دے علاقے وی ستلج دے کنڈے کیتی گئی پر اوتھے پیدل خلقت کیویں نال دے نال اپڑ گئی؟ کج وی گنڈا سنگھ لاہور توں چالی میل یا سٹھ کلو میٹر تے ضرور اے تے پیدل بندے دی آسنگ راتوں رات چالی میل ٹرن دی ہوندی نیئں۔ جے اے تارڑ دا میجک رئیل ازم اے تے مڑ ٹھیک اے۔“ 

اچھا یہ وہی تیکنیک ہے جو پاپولر ادب میں عام طور پر برتی جاتی ہے جس سے قاری کے جذبات بر انگیخت تو ہوتے ہیں لیکن اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کہیں واسطہ نہیں ہوتا۔ چُوں کہ تارڑ صاحب اس معاملے میں یکتا ہیں سو اِس تکنیک کو درست سمجھ کر اسے فوراً استعمال کر لیتے ہیں جب کہ تاریخ کے حوالے سے یہ سب کچھ نا پید ہوتا ہے، لیکن قاری اس تصور کو سچ سمجھ کر اسے تا دمِ مرگ حقیقت ہی سمجھتا رہتا ہے۔ اِس سے ایک بات اور بھی عیاں ہوتی ہے کہ ایسا کرتے ہوئے مصنف اپنے قاری کو کم سمجھ یا عام آدمی سمجھ کر اپنے علم کی دھاک بٹھانے کی لا شعوری کوشش بھی کرتا ہے۔ 

مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر اِس ضمن میں مزید کہا بیکار ہو گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ مستنصر حسین تارڑ تاریخی ناول لکھتے ہوئے اپنے بیانیہ و کلامیہ میں پاپولر فکشن کی طرز پر حقائق کو اپنی خواہشات کے مطابق برت لیتے ہیں جو بَہ ہر حال ان کی تمام تر ادبی کوشش کو رائیگاں کر دیتا ہے جو حقیقت میں ان کا منشاء و مقصد نہ ہو گا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔

ادب کے حوالے سے ایک اور عرض ہے کہ کہ سرکاری سطح پر مدح سرائی کے موجب بننے والے ادیب و شاعر اپنے قلم کی روٹی روزی پر اکتفا کرتے ہوئے لکھاری ادیب نہیں مانے جاتے گو وہ کہلوائے ضرور جاتے ہیں۔ چُوں کہ ان کے مفادات سرکاری قصیدہ گوئی سے منسلک ہوتے ہیں۔ وہ قلم اور ضمیر کے سوداگر ہونے کے ناتے سبھی کے سامنے رجعت پسند حکومتی بیانیہ کے شہ سوار ہوتے ہیں۔ ان کی تحاریر شاہد ہیں۔

بہ ہر حال آمدم بر سرِ مطلب۔ عالمی ادب کی پہچان دنیائے ادب کے اہل علم و ہر و دانش کے درمیان سرِ فہرست رہی ہے۔ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادب کی دنیا کے ستاروں بارے بات میں شیکسپیئر سے شروع کرتا ہوں۔ ان سے پہلے والوں کو فی الحال بھول جائیے۔ شیکسپئیر اور جین آسٹن کا زمانہ ارسٹوکریسی اور امپیرئیل ازم کی انتہا کا زمانہ تھا۔ یہ زرعی عہد سے مشینی عہد میں داخل ہوتا ہوا دور تھا۔ دونوں نے اپنے عہد کے انسانی حوالوں، رومانس اور ٹریجڈی پر لکھا بھلے وہ ناول ہوں کہ ڈرامہ۔ 

وکٹر ہیوگو نے اپنے ناولوں میں فرنچ معاشرے پر گہرا طنز کیا۔ روسی ادیب لیو ٹالسٹائے نے محدودیت سے لا محدودیت پر لکھا اور دنیا کی احتیاجات کا کئی ایک حوالوں سے نہ صرف جائزہ لیا بل کہ اپنے عہد کو بے نقاب کیا۔ انھیں نے معاشرے کے اُن نفسیاتی پہلوؤں اور حوالوں کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کیا جو غیر فطری ہیں۔ چیخوف نے زار کے عہد کی کہانیاں لکھیں اور سوسائٹی کے ایولز کو آشکار کیا۔

اِس کے بعد کے عہد کو لینن اور میکسم گورکی نے نظریاتی بنیادوں پر انسان کے مصائب پر لکھا اور باقاعدہ ایک نظریے کو جو ہیگل اور مارکس کے حوالوں سے سامنے آ چکا تھا اس کی سماج میں مطابقت کو ثابت کیا۔ 

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کا بڑا حصہ میکینکل دور سے الیکٹریکل دور میں داخل ہو رہا تھا اور سماجی رویوں میں نِت نئی روایتوں کی ارتقاء پذیری نمو پا چکی تھی۔ عہد سماجی شعور کو لیے جدیدیت کی طرف رواں دواں تھا سیاسی طور پر ملوکیت سے جمہور کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ووٹ کی حرمت سامنے آ جانے سے اپنے جوہر میں مضبوط تر انسان سامنے آ چکا تھا۔ یوں بیسویں صدی کے آغاز سے زمانہ نئے عہد کے تقاضوں کو لیے آگے بڑھتا ہے اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اپنے نئے اخلاقی حدود کے دائروں کو بھی بڑھاتا ہے۔ 

یہ کہنا از بس ضروری ہے کہ اخلاقیات انفرادی ہو اجتماعی ارتقاء پذیر رہتی ہے اور اہل علم و دانش کی نظر ہمہ وقت اِس پر رہتی ہے تا کہ نئی حدود کے تعین میں کہیں انسان کمپرومائز نہ ہوجائے۔ صدی کے آغاز میں عورت کو ووٹ کا حق ملنا جو بعد ازاں فیمین ازم کا ابتدائی خاکہ تجسیم دیتا ہے اسی علم و ادب کے مہان لکھاریوں کا کمال ہے۔

 اس سرعت سے ارتقاء پذیر ہوتی بیسویں صدی کے پہلے ربع میں میلان کنڈیرا اور گیبرئل گارشیا جیسے ادیب مغرب اور لاطینی امریکا میں اپنے پوری قوت سے ابھرتے ہیں۔ پہلا عہد کے رومانس اور جنس کے حوالوں سے انسانی نفسیات کو اپنی فکشن میں پرکھتا ہے۔ اس کا فکری تصور انڈسٹریل عہد میں عورت اور مرد کے اختلاط میں بڑھتے ہوئے اثرات سے چیکوسلاواکیہ اور فرانسیسی ماحول کو مدِ نظر رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ چیک اِس زمانے میں مشرقی اثرات سے متأثر سماج کا حامل تھا، جب کہ فرانس جدیدیت کے فلسفیانہ رحجانات پر کھلے دل سے سوال اٹھاتا تھا۔

دونوں ملکوں کے رہائشی پسِ منظر کر کے کنڈیرا شعوری طور پر اپنے ناولوں کے موضوعات میں برتتا ہے۔ کنڈیرا کس طرح اپنی تخلیقیت کو قاری کے سامنے لاتا ہے۔ اِس کے مخترحات کیسے سماج سے انسلاک کرتے ہیں؟ یہ ایک الگ طویل موضوع و مضمون کے متقاضی ہیں جو یہاں میرا مطمحِ نظر نہیں۔ دوسرے ادیب مارکیز کا انداز ذرا مختلف ہے وہ اپنے لاطینی و امریکی اثرات تلے غریب و افلاس میں زیادہ تخلیاتی رہتا ہے اور مے جیکل رئیل ازم نیریٹو کو اپنی فکشن میں تخلیق کرتا ہے۔ 

انھی دو فکشن رائٹرز سے ذرا پہلے جرمن سٹوری رائٹر فرانز کافکا اور انگریزی میں ورجینیا وولف انسانی نفسیات پر زور نویس لکھاریوں کے طور پر سامنے آ چکے تھے۔ گو وہ اپنے وقت میں مقبولیت کے عالمی منظر پر نہ تھے لیکن بعد ازاں دنیا بھر میں ان کی تخلیقات کو بہت سراہا گیا۔ انھیں نے اپنے انفرادی وجودی اثرات کو وجودیت کے عالمی تناظر میں فلسفیانہ طور پر رقم کیا۔ یہ وہی کام ہے جو کامیو اور سارتر نے فرانس میں اپنے نظریات کے تناظر اور پسِ منظرمیں کیا۔ گو ان کا اندازِ تحریر بے حد فلسفیانہ تھا لیکن وجودیت پر سیر حاصل مواد کا حامل تھا۔

مندرجہ بالا مختصر جائزے سے یہ مضمون یا مقدمہ طے کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ہر عہد کا ادیب اپنی تخلیقیت کے دوران شعوری اور لا شعوری سطح پر اپنی سوسائٹی اور سماجی اختلاج کا سامنا کرتا ہے اور اسی کو رقم کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اِن سب کا اسلوب اور تکنیکی انداز پیش کش جداگانہ ہوتا ہے۔

متن کی زبان اور کرداروں کی بنت نیریشن کی مقامی زبان کے اصولوں کا احاطہ کرتی ہوئی اپنے جداگانہ اسلوب پر مختم ہوتی ہے۔ ایک اور اہم بات کی عالمی ادب کا تصنیفی لسانی پس منظر صدیوں پرانا اور اپنی روایات میں اسیر ہے جو ارتقائی منازل میں مزید نکھرتا گیا ہے جب کہ ہمارے ہاں ایک ڈیڑھ صدی کی بات ہے جو اپنی عمر کے لحاظ سے نوزائیدہ ہے۔

اسی تناظر میں اب ہم اردو ادب پر اجمالاً ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ میں یہاں اردو ادب کی تاریخ، زمانی اور مکانی تفصیلی جائزہ نہیں لوں گا آپ ابتداء سے دیکھیں۔ ہمارے ہاں فکشن کا مواد ارو زبان کی تشکیل سے پہلے بھی مقامی زبانوں میں موجود تھا۔ بارھویں صدی میں دلی میں جنم لینے والی اردو زبان اپنے ارتقائی تقاضوں کے ہم راہ فارسی، عربی ترکی اور ہندی زبانوں کے ملاپ سے آگے بڑھتی رہی۔

اولاً اردو لشکری کہلوائی جب کہ تاریخی طور پر یہ لشکر کی زبان نہ تھی بل کہ شاہ جہان (جو دہلی کے قرب میں تھا) جس کا نام بعد ازاں اردوئے معلیٰ ہوا، سے منسوب بولی تھی جو رفتہ رفتہ اپنے ارتقاء کے تحت اردوئے معلیٰ سے اردوزبان کہلائی۔ خیر اس موضوع پر ظفر سید نے خوب تحقیق کی ہے اور انھوں نے کئی مضمون بھی لکھے ہیں۔ 

داستان و اساطیری واقعات کی تاریخ میسر ہے، وہ اپنی جگہ، پہلے اردو شاعر امیر خسرو (۳۵۲۱۔۵۲۳۱ء) کہے جاتے ہیں۔ پہلا اردو ناول مراۃ العروس ڈپٹی نذیر احمد کا (۸۶۸۱ء) میں لکھا گیا ہو یا ۲۶۸۱ء میں مولوی کریم الدین کا ناول ”خطِ تقدیر“ ہو‘ تاریخ متنازع ہے اوراس وقت میرا یہ موضوع ہی نہیں۔ تاہم اس کے بعد اردو ادب باقاعدہ اپنا ایک چہرہ تجسیم کرنے لگا۔ افسانہ یا شارٹ سٹوریز اور ناول فکشن کی اصناف طے ہونے لگیں۔

پہلا افسانہ منشی پریم چند کا ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ یا کسی اور ادیب کا افسانہ یہ یہاں اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو فکشن اپنے عہد کو آشکار کرتے ہوئے مختلف ادیبوں کے ہاتھوں میں قلم کا فخر بنی، اور زمانے بھر میں اِسی عہد کی سندرتا گھٹنائیں لفظوں میں جمالیاتی روپ دھانے لگیں۔ انسانی حوالوں سے سماجی و معاشرتی امکانات و سوالات فکشن کا حصہ بننے لگے۔ 

بعد ازاں وقت بدلا عہد کے جبر نے انسان کو بدل ڈالا۔ سماج کے اندر آگ سلگنے لگی۔ جس کے نتیجے میں بغاوت اور سرکشی نے جنم لیا۔ فکشن کے موضوعات بدلنے لگے اور حقیقت پر مبنی ترقی پسندانہ فکشن پہلے انگارے کے طور پر سامنے آیا جس میں سجاد ظہیر، رشید جہاں تھ،  پھر سلسلہ چل نکلا اور منٹو، بیدی، کرشن چندر غلام عباس سے ہوتی ہوئی ڈاکٹر سجاد ظہیر تک چلا آیا۔ 

پاکستان کے معاشرے میں اپنے مسائل کے تناظر میں فکشن لکھا جانے لگا جب کہ ہندوستان کا اردو فکشن رجعت پسندانہ دائروں میں ہی مقید رہا، جو نہ صرف اسلوبیاتی سطح پر منجمد رہا اور ماسوائے چند نوجوان لکھاریوں کے جن کا ذکر آگے ہے، آج بھی موضوعات کی گرفت نہ حاصل کر سکا۔

ہمارے ہاں فکشن کے موضوعات وجودیت سے لے کر انسانی مسائل، ان کا حقیقت پسندانہ جائزہ اور ترقی پسندانہ ارتقاء غربت اور بھوک سے آگے نکل کر مزاحمت کو اس نسل میں اتارنے لگے۔ جو ویرانی، پشیمانی سراسمیہ کسان کی محنت کے باوجود اجارہ داروں کی بھینٹ چڑھی وہی اہل علم و دانش کے قلم کا سنگھار بنی۔ الہامی کتابوں سے ہٹ کر آزادیِ فکر و خیال کی گونج ذہنوں میں چیخوں کی مانند فکشن رائٹرز کا موضوع بنی۔

میں آج کے عہد کی بات کروں گا ورنہ گزشتہ پانچ دھائیوں کے اردو ادب کے فکشن نگاروں کا اگر ذکر خیر ہوا تو ایک الگ مضمون رقم کرنا پڑے گا۔ پاکستان سے میرزا اطہر بیگ، زاہدہ حنا کے علاوہ اقبال حسن خان کا ناول’گلیوں کے لوگ‘ ہو یا ’راج سنگھ لاہوریا‘ عاطف علیم کا ’گرد باد‘ سلیم شہزاد کا ناول ’پلوتا‘ ڈاکٹر صولت ناگی کا ’شب گزیدہ سحر‘ ایک عمدہ مثال ہیں۔

ترقی پسند فکر کی سوچ سے ہم آہنگ، متنوع موضوعات، لسانی تجربات اور اسلوبیاتی سماجیات و نفسیات میں پابند فکشن کو پرکھنے کے لیے پاکستان سے اختر رضا سلیمی، سید کاشف رضا، رفاقت حیات‘ بلند اقبال (کینیڈا والے)‘عاصم بٹ اور ہندوستان سے نوجوان ادیب رحمان عباس اور چند دیگر ہیں۔ خود فقیر کے دو افسانوی مجموعے اور دو اردو ناول ’ڈئیوس علی اور دیا‘ اور’خواب انگارے“ بالترتیب پاکستان اور بلوچستان کی انتھروپولوجی، سماجیات و سیاسیات پر مبنی موضوعات کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک کا سپین کی کیتالون تحریک سے تقابلی جائزہ خواب انگارے میں مرقوم ہوا۔ 

سو عرض کرنے کا مقصد اولاً یہی ہے کہ آج کا اردو فکشن نگار یا ادیب کسی موضوعاتی، اسلوبیاتی تازہ کاری کے لیے عالمی ادب یا کسی عالمی ادیب کی انفرادی انسپائریشن کا محتاج نہیں۔ (یہی وہ مقدمہ تھا جسے میرے مترجم دوست نے سوشل میڈیا پر قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کا ذکر راقم نے ابتدا میں کیا تھا) ہاں! اولاً تو فلسفیانہ سطح پر ہمارے ہاں کوئی بڑا یا نظریاتی کام ہی نہیں ہوا ہے۔ اور اگر تھوڑا بہت ایسا ہوا ہے تو اسے مناسب تشہیر بہ وجہ مقامی تنقید نگاروں کی گوشہ نشینی، نظر انداز کرنے کے سبب نہ مل سکی۔ اخباروں کی سطح پر خبریں ضرور سامنے آئیں، لیکن ادبی سطح پر یہ کام نا پید ہے۔ انتظار حسین صاحب کو فرانس کے اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ کا سبب ان کی تحریروں کی تراجم تھے جو عالمی سطح پر رُو شناس ہوئے تھے۔ 

یہ کہنا از بس ضروری ہے کہ ہر زبان کا فکشن نگار انسپائریشن کا متلاشی رہتا ہے اور عالمی ادب سے رجوع کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا کام عالمی سطح پر سراہا جائے۔ ہمارے ہاں اردو میں کافی کچھ لکھا گیا جس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہو سکتی تھی اور آج بھی ہو سکتی ہے، لیکن حقیقی وجہ یہی کہ تنقیدی کام میسر نہیں اور دوسرا ہمارے ہاں ترجمے کی ضروری سہولت کے بنیادی فقدان سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔

اردو فکشن نگار بنیادی ایشوز کی تلاش میں خود اپنی شان دار لوکیل میں جو سماجی و معاشرتی و معاشی المیات و جبر استبداد کے اس قدر صبر آزما انسانی امتحان سے پُر ہیں، کھوج میں ہمیشہ رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے۔ تاریخ کے ان ادھورے نغموں کی گونج میں عصری عہد کے زاویے نوزائیدہ بچے کی طرح بہت زیادہ احتیاط کے متقاضی ہیں۔ یہ الجھے اور سہمے ہوئے ادب کی بجائے اپنی آفاقی اپروچ میں بڑے سوالات جنم دے رہے ہیں۔ ادیب کو صرف انھیں قلم بند کرنا ہے اور جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں نقاد کو اسے پرکھنا ہے۔

 اردو معاشرہ تیزی سے گورننس اور سماجی انصاف و اعتماد کی تنزلی کی جانب گام زن ہے، جو ٹیکنالوجی کے وسیع تر پھیلاؤ کے اثرات کے تحت سماجیت کو آفاقی سطح پر لانے کی بجائے منفیت پیداکر رہا ہے۔ یہ دیکھنا اہلِ علم و دانش و ادیب کا کام ہے۔ اِن کے اذہان میں ادب سے جڑا کشادگی کا دائرہ صرف ذہین و فطین اور جنونی ادیب کا منتظر نہ ہو بل کہ ہر ادیب کا فریضہ ہو کہ وہ بڑے کینوس پر نظر آئے، جو یقیناً کہیں کہیں آج بھی معاصر ادب میں نظر آ جاتا ہے۔

تاہم اردو ادب کا مختصر لیکن سپاٹ سفر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو ادب کا مستقبل روشن ہے اور ایک دن ضرور عالمی سطح پر نام کمائے گا۔ شرطِ اوّل یہی ہے کہ اس کا ترجمہ دوسری زبانوں میں فوری ہو۔ ٹیکنالوجی کی سطح پر اشاعت کا ایسا سٹرکچر قومی سطح پر قائم ہو کہ کتاب شائع ہوتے ہی اس کا ترجمہ کم از کم دو معروف زبانوں میں فوراً خودکار نظام کے تحت ہو جائے۔ اور وہی اشاعتی ادارہ اس ترجمے کو شائع کرنے کا پابند بھی ہو۔

ثانیاً تنقید نگار اپنی انانیت سے باہر نکلیں اور اردو کی ترقی و ترویج کی خاطر اس جانب ضروری توجہ دیں اور عصری ادب پر تنقید کے دروازے کھولیں۔ جہاں جہاں واقعتاً کڑی تنقید ضروری ہو۔ لابیوں کی رحجان سے باہر نکل کر ہمت کریں اور مقبول اور سینئر لکھاریوں کے فکشن کو بھی تنقید کی زد میں لائیں۔ یوں ادیب بھی متنبہ ہو گا اور اردو ادب عالمی ادب کے درمیان کہیں نہ کہیں کھڑا نظر تو آئے گا۔یہی میرے اِس مضمون کا منشا اور مطمع ہے۔ 

نوٹ: یہ مضمون سہ ماہی سائبان لاہور کے شمارہ جنوری مارچ ۲۰۲۴ میں شائع ہو چکا ہے۔ تاہم اس کی یہاں اشاعت کے لیے minor editing کی گئی ہے۔ عربی numerals میں لکھی تاریخوں کو دائیں سے بائیں پڑھنے کی ضرورت ہے؛ ایسا مسوّدے کو اِن_پیج سے ایم ایس ورڈ سافٹ ویئر میں منتقل کرتے وقت ہو جاتا ہے۔ مدیر ایک روزن 

 

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔