بوخن والڈ کیمپ 2 : فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ
(عبدالرؤف)
کیمپ کے اس کونے میں اب اس ڈبل سٹوری بلڈنگ میں میوزیم قائم ہے جس میں جس میں قیدیوں کی مختلف اشیاء، کیمپ کے بارے میں تمام تاریخی مواد، اور آڈیو ویڈیو پریزنٹیشن کی سہولت قائم کی گئی ہے۔ میموریل میں موجود معلوماتی کتابچے سے رہنمائی لیتے ہوئے اگر عقبی حصے سے میدان کی حد کے ساتھ ساتھ چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس قطعے میں کونسی بیرک موجود تھی۔
بیرکوں کی ترتیب اور درجہ بندی، سیاسی قیدی، جنگی قیدی،( جن میں زیادہ تر کا تعلق روسی فوج سے تھا)، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے اعتبار سے کی گئی تھی۔ اب یہ جگہ مستطیل طرز کے کے خالی پلاٹ ہیں جن کے بیچوں بیچ چھوٹے پتھروں کے ٹکڑے اس بیرک کی زمینی سطح پہ بچھے ہوئے ہیں ۔ ان پلاٹوں کے کونے پر ایک پتھر کے اوپر ایک نمبر کنندہ ہے یہ وہی نمبر ہے جو ا’س وقت اس بیرک کا نمر تھا۔ انہی منہدم بیرکوں کے سلسلے کے ساتھ ساتھ چلتے مرکزی کیمپ کی حد سے تھوڑا فاصلے پر “لٹل کیمپ” کی باقیات ہیں۔
(اس مضمون کے **پہلے حصے کا لنک**)
یہ کیمپ 3 194 میں قائم کیا گیا تھا۔ لِٹل کیمپ کے حوالے سے بتایا گیا کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری سالوں میں جب جرمن فوج روس میں لینن گراڈ کو گھیرے ہوئے تھی اور آخرکار وہاں شکست سے دوچار ہوئی اسی دوران دیگر محاذوں پر بھی جنگ شدّت اختیار کر چکی تھی تب بوخن والڈ کیمپ انتظامیہ نے قیدیوں سے اسلحہ ساز فیکٹریوں میں کام لینے کےلیے اور جنگی مقاصد کے لیے جاری دیگر تعمیراتی منصوبوں پر بھجوانے کا کام شروع کیا۔
اس کام کو سرانجام دینے کےلیے، کام کےلیے موزوں قیدیوں کو مرکزی کیمپ سے لٹل کیمپ میں منتقل کیا جاتا بعد ازاں انھیں وہاں سے کسی تعمیراتی منصوبے یا فیکٹری میں بھجوا دیا جاتا۔ لٹل کیمپ کو “زمین پر جہنم” کا نام دیا گیا تھا۔ لکڑی سے بنی ان بیرکوں کی لمبائی ساٹھ میٹر اور چوڑائی محض دس میٹر تھی۔ ان بیرکوں کے اندر دونوں اطراف میں دیوار کے ساتھ چھت تک ڈبہ نما شیلفیں بنائی گئی تھیں جن مین ایک شیلف کے اندر تین سے چار قیدی صرف لیٹ سکتے تھے۔
اسی دوران جنگی محاذوں سے قیدیوں کی بوخن والڈ منتقلی بھی تیز ہو چکی تھی، تب مرکزی کیمپ سے بیمار، لاغر اور ناتواں قیدیوں کو بھی لٹل کیمپ میں ڈال دیا گیا، کیونکہ لٹل کیمپ کی انتظامی ضروریات مرکزی کیمپ کے مقابلے میں بلکل کم تھیں۔ بیرکوں کے انہی ملبے اور ترتیب کے ساتھ چلتے چلتے آخری کونے پر مختلف بیرکوں کے ملبے کے اوپر کچھ پتھر عمودی کھڑے کیے گئے ہیں، یہ پتھر ان لوگوں کی یاد میں ہیں جن کی شناخت نہ ہوپائی تھی اور ان لو گوں کی یاد میں جنھیں ہم جنس پرست کی کیٹیگری میں رکھا گیا تھا۔
نازی پارٹی نے پالیسی کی سطح پر ہم جنس پرستوں بیخ کنی کی تھی۔ میدان کا چکر کاٹتے ہوۓ مختلف مقامات پر مختلف یادگاری پتھر، اور لو ہے کی نصب کی گئی یادگاری سلیٹیں نظر آتی ہیں۔ ان میں بیرک نمبر22 کو یہودیوں کے نام منسوب کیا گیا ہے اس بیرک کی جگہ پر سفید پتھر بچھائے گئے ہیں۔
اسی طرح، خانہ بدوشوں کی یاد گار، بلغارین طلباء کی یادگار، روسی جنگی قیدیوں کی یاد گار، اور بعد کے وقتوں میں جوں جوں معلومات اور کیمپ کے ریکارڈ س رہنمائی ملتی رہی، کیمپ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ان کی قومیت، شناخت اور ان کے دکھ اور درد کو یاد رکھتے ہوئے جو انہوں نے اس کیمپ میں برداشت کیے، ان کے نام پر یادگاریں بنائی گئی ہیں۔
ان یادگاروں کو دیکھتے ہوئے مجھے ذاتی طور پر ایسا تاثر نہیں ملا جس سے میں یہ نتیجہ اخذ کر پاؤں کہ وہاں صر ف یہودیوں کو ہی مارا گیا یا اب صرف یہودی ہی اس قابل ہیں کہ ان پر گزرے ایک تلخ ترین دور کو صرف یہودی نسل کشی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ جرمنی اور یورپ نے یا کم ازم کم بوخن والڈ میموریل کی حد تک تو تحقیق اور اب اس کی تعلیم ایسی نہیں ہے کہ اسے صرف ایک قوم یا نسل تک محدود رکھا جائے۔ نازی عتاب کا شکار ہونے کے حوالے سے اعدادو شمارکے اعتبار سے یہودی بحثیتِ قوم بحرحال پہلے نمبر پر رہے۔
لیکن اس پیرائے میں یہ بحث یورپ میں اور دیگر دنیا میں جاری رہی کہ بالآخر اس سارے خون خرابے کو صرف یہودی نسل کشی یا ہولوکاسٹ کے لیبل کے تحت ہی کیوں دیکھا گیا۔ یاکم ازم کم نازیوں کے اس سارے دور کو یہودی ہولوکاسٹ کا دور ہی کیوں کہا گیا جبکہ اموات، ہلاکتوں اور جبر کا پہاڑ دیگر یورپی قومیتوں پر بھی ٹوٹا۔
انہی یادگاری تختیوں میں سے ایک تختی اس بلڈنگ کے گیٹ پر لگائی گئی ہےجس کے اندر لاشوں کو آتشی بھٹیوں کے ذریعے بھسم کیا جاتا تھا، اس تختی پر لکھا نام ارنسٹ تالمان کا ہے، یہ وہی ارنسٹ تالمان تھا، جو جنگ کے دنوں میں جرمن کیمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین (Ernst Thalmann) تھا، سترہ اگست انیس سو چوالیس کی رات ایس ایس گارڈز نے تالمان کو ہلا ک کردیا تھا۔
میدان کی حد کے ساتھ چلتا اب میں واپس مین گیٹ کے پاس ہوں لیکن گیٹ سے پہلے میدان کا ایک ایسا حصہ ہے جو کیمپ کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے، یہ وہ حصہ ہے جہاں دن میں دو بار قیدیوں کی حاضری لگائی جاتی تھی، اس جگہ پر بھی ایک بہت منفرد یادگار بنائی گئی ہے، تانبے اور لوہے کی ایک تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی ایک پلیٹ زمین پر بچھائی گئی ہے جس کا درجہ حرارت 98.6 یا 37 سیلسیس پر فِکس کیا گیا ہے۔
بنانے والے آرٹسٹوں کے مطابق انہیں بہت مشکل پیش آرہی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ اگر ایک بھی انسان جو اس کیمپ میں اذیت جھیلتا رہا، اور اس کی شناخت اور قوم بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکی، اور آج اس یادگاری سلیٹ پر بھی اس کی قوم یا ملک کا نام درج نہ ہوسکا، تو ہم یادگار بنانے والوں کی کاوش ادھوری رہے گی۔
ان کے مطابق اس پلیٹ کے ٹمپریچر کو 37 سیلسیس پر سیٹ کرنے کے علاوہ کوئی اور ایسا طریقہ نہیں تھا جس سے وہ ان کی شناخت کو تسلیم کر سکتے جن کو بظاہربھلائے جانے کا خدشہ تھا۔ اس پلیٹ پر پچاس ملکوں کے نام بھی درج ہیں جبکہ درجہ حرارت 37 سیلسس پر رکھنے کا فلسفہ یہ ہے کہ یہی درجہ حرارت زندہ انسانی جسم کا ہے، یہ وہ علامت یہ جو ساری دنیا میں پھیلے تمام انسانوں میں بلارنگ ونسل و قوم یکساں ہے۔
اپنے جرمن دورے کے دوران اِسی یادگاری پلیٹ پر سفید پھول رکھتے ہوئے 4 جون دو ہزار نو کو، اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا” یہ جگہ آج بھی اپنی دہشت برقرار رکھے ہوئے ہے، آج آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ہمارا غم اور دکھ برقرار ہے۔”
لٹل کیمپ میں قید رہا ایک بچہ، جو زندہ بچ گیا تھا، صدر اوبامہ کے دورے کے دوران بوخن والٹ کے گیٹ پر اسؔی سال کی عمر میں دوبارہ کھڑا تھا۔ اِس دوران وہ کئی کتابوں کا مصنف اور نوبل انعام یافتہ ادیب بھی بن چکا تھا۔
اس یادگاری سلیٹ کے پر پھول رکھتے وقت میں نے بھی تقریبا تمام پچاس ملکوں کے نام دیکھے، اور سوچا کہ تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، گو تاریخی حقائق ایک وقت تک مسخ کیے جا سکتے ہیں، لیکن تاریخ ایک خاص بہاؤ کے ساتھ بڑھ رہی ہوتی ہے، جس میں ضروری نہیں کہ وہ اپنے ساتھ واقعے کی سچائی کو بہا کر لےجائے کچھ حقائق جامد ہو جاتے ہیں، بظاہر نظر نہیں آتے لیکن تاریخ پلٹ کر ان پر جمی کائی صاف کردیتی ہے۔
ہولوکاسٹ کو جھٹلانا تاریخ کو جھٹلانا نہیں ہے، اس واقعے کی جزئیات پر اعداد و شمار موجود ہیں، جو یہودیوں کے نقطہ نظر اورکیس کو مضبوط ضرور کرتے ہیں، یورپین اقوام میں اس پر بہت بحث ہو چکی ہے، بات ہو رہی ہے۔
مسلم ممالک کے اندر ہولو کاسٹ کی بحث شائد اسرائیل کے قیام اور فلسطین پر قبضے کے تناظر میں ہی دیکھی جاتی رہی ہے، جس وجہ سے تنقیدی جائزے کا فقدان رہا ہے، اور اس واقعے کا گہرائی سے تجزیہ نہ ہوسکا۔
آج کے یورپ کا جنم دوسری عالمی جنگ کے بطن سے ہوا ہے، دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کا کردار مرکزی تھا، جرمنی آج یورپی یونین کی سربراہی کا کرادار نبھا رہا ہے، سیاسی اور معاشی میدان کے معاملات ایک طرف رکھتے ہوئے، سیاسی اور سماجی کشمکش سے نبرد آزما ممالک بہرحال جرمن تاریخ کے اس باب سے کچھ سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں،کہ اندرونی شدت پسندی و خود پسندی کا بہرحال انجام کیا ہوتا ہے اور پھر دوبارہ نئے سرے سے ریاست و قوم کی فکری تعمیر کن مراحل سے گزرتی ہے۔
11 اپریل 1945 کے دن سہ پہر سوا تین بجے امریکن فوج کی فورتھ آرمڈ ڈویژن کی ایک ٹینک بٹالین بوخن والٹ کے گیٹ پر پہنچی، کیمپ پر بغیر مزاحمت کے امریکی فوج نے کنٹرول سنبھال لیا۔ اسی دن کیمپ آزاد کروانے کا اعلان کردیا گیا۔ کیمپ کے مرکزی گیٹ پرلگی ڈبل ڈائل والی بڑی گھڑی کا وقت 15 :3 پر روک دیا گیا ہے، گھڑی پر دونوں اطراف سے دیکھنے پر کیمپ کی آزادی کا وقت نظر آتا ہے۔
جرمنی اور فرانس کے محاذ کا براہِ راست فاتح بعد میں امریکی صدر کے عہدے تک پہنچنے والا ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور، اس وقت اتحادی افواج کی کمان کررہاتھا۔ بوخن والٹ کیمپ کی اندرونی حالت کی پہلی گواہی امریکی فوج دیتی ہے، کیمپ کی آزادی کے پانچ دن بعد قریبی شہر وائمار سے ایک ہزار سِولین شہریوں کو کیمپ میں لایا گیا تاکہ کیمپ میں ہونے والے واقعات کو بغیر کسی تحریف و تبدیلی کے لوگوں تک آشکار کیا جاسکے۔ تاریخ اپنے بہاؤ میں بڑھ رہی ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.