وہ کافر کون تھا وزیر اعظم صاحب
(معصوم رضوی)
پانامہ کا اونٹ جیسے جیسے خیمے میں داخل ہو رہا ہے شیخ باہر آتا جا رہا ہے۔ لیگی رہنماؤں کی چڑھی تیوریوں اور اس سے زیادہ چڑھی آستینوں کو دیکھ کر حالت جنوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ان میں سے کچھ تو جذب کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔ پاناما لیکس کی جنگ لڑنے کی جتنی کوشش ن لیگ نے میڈیا پر کی اگر اس کی آدھی بھی قانونی محاذ پر کر لیتی تو شاید صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ فی الحال عمران خان کو جلی کٹی سنانے کے علاوہ پشت پناہ سازشی عناصر لیگی بیانیے کا اہم ترین جز ہیں مگر الزام موجود، ملزم غائب، کوئی نہیں بتاتا کہ کون کافر سازش کر رہا ہے؟
اونٹ کتنا اندر آ چکا ہے شاید یہ احساس ن لیگ کو جے آئی ٹی رپورٹ پیش ہونے سے کافی پہلے ہو چکا تھا مگر سیاسی سادگی دیکھیے یہ سمجھ نہ آیا کہ معاملہ صرف عمران خان کو کوسنے اور سیاسی جگت بازی سے حل نہیں ہو گا۔ دن بدن بڑھتی لہجے کی کڑواہٹ، اشارے کنایوں میں سازشی عناصر کو دھمکیاں، نظام لپٹنے کے خدشات اور مولا جٹ جیسی بڑھکوں نے مجھ جیسے بے خبر انسانوں کو بھی ساری داستان سنا ڈالی۔ وفاقی وزراء، ارکان اسمبلی اور ان نشستوں کے متوقع امیدوار شریف خاندان کے ذاتی کاروبار کے دفاع میں شمشیر بکف نظر آتے۔
وفاداری کے نام پر اتنی گرد اڑائی گئی ہے کہ عوام بھی سمجھ گئے دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے۔ آپ ہی بتائیے شریف خاندان کے آپسی اور قریبی رفقا کے باہمی بیانات میں ایسا بھیانک تضاد موجود ہے کہ گھریلو جے آئی ٹی بھی بنا دی جاتی تو اجتماعی خودکشی کر لیتی۔ معصومیت بھی ایسی کہ سپریم کورٹ کی حکم پر جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی تو مٹھائیاں کھلائی گئیں جب سمجھ آئی تو سر پیٹا، اب رپورٹ کو رد کرنے کی گردان جبکہ بخوبی پتہ ہے کہ یہ اختیار عدالت عظمیٰ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔
گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کی اصطلاحات سیاسی کوچوں میں گونج رہی ہیں تو دوسری جانب ایوانوں میں سیاسی انتقام اور خفیہ سازش کے بیانیئے کی بازگشت ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ن لیگ معاملے کی سنگینی کو جانچنے میں ناکام رہی یا پھر شاہانہ خود اعتمادی آڑے آئی۔ پاناما پر اننگز کا آغاز ٹیل اینڈرز سے کیا گیا، پہلے تو طلال چوہدری، دانیال عزیز، شاہنواز رانجھا کو ہی کافی سمجھا گیا مگر بعد میں مریم اورنگزیب، آصف کرمانی اور رانا ثنا اللہ جیسے تجربہ کار آزمائے گئے، آخری اوورز میں جب سعد رفیق، خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے جید کھلاڑی میدان میں اترے تو میچ مک چکا تھا۔
حضور جے آئی ٹی رپورٹ میں جو ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں اس کے بعد پاناما لیکس کا معاملہ تو اب کہیں بہت پیچھے رہ گیا، جو بات لندن کے چار فلیٹس سے شروع ہوئی تھی اب متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کو توڑتی ہوئی جانے کہاں پہنچیں گی۔
والد محترم کے مشکوک ذرائع آمدن بھی سرِ بازار ہوئے، حسین اور حسن نواز سے معاملہ اب نواز شریف، شہباز شریف، مریم حتیٰ کے اسما نواز اور پھر سمدھی اسحاق ڈار تک کو بھی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دولت میں چند سالوں میں سو گنا سے تین سو گنا تک اضافہ غریب و نادار قوم کے سامنے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
کمسن زیر کفالت بچوں کے بیش بہا تحائف اور قرضے، جعلی دستاویزات، جھوٹے حلف نامے اور پھر وزیر اعظم کی یو اے ای آف شور کمپنی میں ملازمت، یہ سب کچھ عوام کی توقعات سے کہیں زیادہ حیران کن ہے۔ بہرحال جناب صورتحال یہ ہے کہ عام انتخابات میں تقریبا دس ماہ رہ گئے ہیں، رپورٹ کے بعد اپوزیشن وزیر اعظم پر استعفیٰ کیلئے دباؤ بڑھا رہی ہے مگرشاید یہ سب کچھ اتنا آسان بھی ہیں ہے۔
تحقیقات میں سامنے آنے والے سنگین الزامات پر شریف خاندان کو صفائی کو موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ جے آئی ٹی کو بلاشبہ جتنا مشکوک اور متنازعہ قرار دیں مگر لگائے گئے الزامات اور سوالات کے ثبوت و شواہد تو پیش کرنا پڑیں گے۔ فیصلہ کیا ہو گا، نتیجہ کیا نکلے گا قیاس آرائیاں جاری ہیں مگر اس گردوغبار کے اس طوفان میں یہ نہ بھول جائیے گا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز ججز نے وزیر اعظم کو صادق اور امین ماننے سے انکار کر چکے ہیں اور تین نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے، کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے جے آئی ٹی وجود تشکیل دی گئی تھی۔
خیر جناب فیصلہ جو بھی ہو مگر میرے نزدیک روشن پہلو یہ ہے کہ کرپشن اور بے ضابطگیوں کے ملزمان کٹہرے میں آئے خواہ ان کا تعلق حکمراں طبقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ سرکاری ادارے خود کو ریاست کا نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت سمجھتے ہیں اب سربراہان کی جواب طلبی کے بعد شاید کچھ ہوش کے ناخن لیں گے، پھر جے آئی ٹی ارکان کی جرات بھی قابل تعریف ہے جنہوں نے آئین و قانون کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، یہ روایت گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشتی کی کرن ہے۔
شریف خاندان کے افراد جے آئی ٹی سے باہر آ کر ایسی بڑھکیں مارتے تھے کہ انہوں نے تحقیقات افسران کو لاجواب کر دیا اور پرخچے اڑا دیئے، ایک لمحے کو سوچیں اگر آپ اولعزم حکمران خاندان کے فرد ہوں اور گریڈ انیس، بیس کے افسر کو جواب دینے پر مجبور ہوں، پھر وہاں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے حاضر سروس بریگیڈیر حضرات سپاٹ چہروں اور سرد لہجوں کے ساتھ تشریف فرما ہوں، صرف اتنا ہی نہیں یہ بھی پتہ ہو کہ بیانات کی وڈیو ریکارڈنگ بھی ہو رہی ہو تو یہ عام انسانوں جیسا سلوک حکمران سپوتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا۔
طنطنہ اور طمطراق آتش فشاں میں بدل جائے گا، ہر پیشی کے بعد یہی کچھ ہم سب نے دیکھا اور سنا۔ وزیر اعظم خم ٹھوک کر میدان میں آ چکے ہیں، کابینہ اجلاس میں چوہدری نثار سے منسوب جملے موجودہ صورتحال کا درست تجزیہ ہے، لیگی رہنماؤں کی جانب سے معاملے کو مس ہینڈل کرنے اور اداروں سے ٹکراؤ سے دور رہنے کا مشورہ دانشمندانہ ہے مگر ظاہر ہے کہ نادان تورتنوں کیلئے قطعی قابل قبول نہیں ہے۔
آپس کی بات ہے ن لیگ کو اتنے بہت سارے دبنگ نادان دوستوں کی موجودگی میں کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں، جب کسی نے پاناما اور آف شور کمپنیوں کا ذکر بھی نہ سنا تھا تو یکایک ایک قومی ٹی وی چینل پر حسین نواز کے اچانک انٹرویو پر عوام حیران تھے، کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس حماقت کا مشورہ کس کافر دیا تھا؟ کون کافر تھا جس نے وزیر اعظم کو پارلیمان میں حضور یہ ہیں وہ اثاثے جیسی تقریر کی صلاح دی تھی، پھر وہ کافر کون تھا جو قطری شہزادے کے خط جیسی منی ٹریل کو کوڑی ڈھونڈ کر لایا؟
وزیر اعظم کو اپنی جان چھڑا کر بال بچوں کے کورٹ میں ڈالنے کی راہ کس نے سجھائی؟ وہ کافر کون تھے جنہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر مٹھائی بانٹنے اور جشن منانے کا مشورہ دیا تھا؟ حضور دست بستہ معذرت، لیکن ذرا اپنی آستینیں جھاڑ کر دیکھیں۔
آئین و قانون سب کیلئے ایک ہے، ہر مجرم کو جرم کے اعتبار سے سزا ملنی چاہیے۔ سیاسی حکمراں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تو اپوزیشن، عدلیہ، میڈیا اور تمام ادارے متحرک مگر جب ملزم سنگین غداری کا ہو تو پورا ملک سکتے میں چلا جائے، ایسا کیوں؟