عورت زمین کی سہیلی ہے ایک جھوٹی کہانی کا سچ
از، یاسر چٹھہ
آج صبح تڑکے تک سوتا رہا۔ ویسے ہمارے یہاں کون سی صبحیں ہیں جو راتوں سے مختلف ہیں۔ سب راتیں ہی راتیں ہیں: اندھیاری، خوف ناک، خطروں سے بَھر پُور!
تو ایسی ہی رات جیسی اک صبح میں سو رہا تھا کہ خواب آیا۔
خواب میں کیا دیکھتا ہوں؟
بھئی دیکھنا کیا ہے، وہی دیکھتا ہوں جو دن کے اندیشے ہیں، وہی رات کے خوابوں کا جلا بُھنا پلاٹ ہوتے ہیں۔
مجھے اتنا شعور تو نہیں ہو سکا کہ میں کون ہوں، مگر ایسا لگتا تھا کہ زمین کسی رُوپ میں مجھے خواب میں ملنے آئی ہے۔
ملتے سمے کیسی تھی وہ؟
پسینے میں بھیگی، بال نچوڑتی، آنکھیں پونچھتی تھی وہ، آتے ہی کہتی ہے:
میرے تو نصیب جانے کتنے ڈگری سینٹی گریڈ میں جل کر بھاپ بنتے جاتے ہیں۔
آہ بھرتی ہے، کچھ سانسیں لیتی ہے اور کہتی جاتی ہے:
جانے میرے ساتھ ہوتے marital rape کا کون حساب کرے گا، نہ میرے پاس چھڑی ہے، نہ ہتھوڑا، نہ وکیل، نہ جج نہ فقیہ، نہ مولوی، نہ ادیب، نہ پنچایت، نہ جرگہ…
ایک تو ویسے ہی خواب میں ہوں، دوسرا، اور کروں بھی کیا؟
سو، میں سنتا جاتا ہوں۔
بڑھتی عمر کے ساتھ سننے کی عادت پڑتی جا رہی ہے۔ روز اگر گنواروں کو سنتا ہوں، رشتے داروں کی زراعتی سماجی کی توقعات و تعقل کی جھاڑ جھنکاڑ سے تیار کردہ غیرت مندی کی چتاؤنیاں سنتا ہوں، دفتروں میں خواہ مخواہ کے مُکھیا بننے والوں کی انڈسٹریل سکیل کی بازاریاں اور بے زاریاں سنتا ہوں تو اس زمین کی کیوں نہ سنوں جو رہنے کو مکان دیتی ہے، کھانے کو رزق دیتی ہے، خون کے دوڑانے کو آکسیجن اور نائٹروجن دیتی ہے۔
اوپر کے اس پورے پیراگراف میں کہی بات صرف تمھیں ساتھ رکھنے کے لیے کر رہا ہوں؛ ورنہ کرنا، کہنا اور سننا زندگی کے ردھم میں ما لیلۃ القدر میں بتائے وقت کے سامنے آنکھیں دوسری طرف کر لیتے ہیں۔
زمین کہتی جا رہی تھی:
“تم انسان میرے ساتھ marital rape کر رہے ہو؛ اور تمھارا عقل و فہم کا زعم، تمھارے روحانی اور ایمانی عقدی عقائد تمھیں اتنا سا سمجھنے کا بھی وقفہ اور وقُوف نہیں دیتے کہ باہمی تسلم و رضا میں گُندھے حقِّ محبت اور marital rape اور rape میں فرق کر پاتے۔
اوپر بھی کہا کہ کہنے کو تو میں تو میں زندگی کی چوتھے عشرے میں ہوں، مگر خود کو اس ذہنی اور سماجی عمر میں پاتا ہوں کہ جب مقدر اور تدبیر کے معرکے کو اپنی کَنپٹی کے بالوں کو سہلاتے کُھجاتے نیم باز آنکھوں سے دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پاتا۔ مقدر اپنے گُر اور طاقت آزماتا ہے، تدبیر اپنے نفی اثبات میں resilience کو سرمایۂِ جاں رکھتی ہے۔
زمین نے میرے خواب کی مہمان بن بات جاری رکھی اور اپنی چُنری کے پَلُّو سے اپنی ناک اور آنکھوں کو سُکھاتے سُکھاتے کہا:
انسانی بستی کے شرق و غرب نے اپنی بساط کے مطابق میرے جسم کو جھنجھوڑا ہے، اپنے بازووں کے زور اور اپنی ناف سے برآمدہ دھار سے بھینچا ہے۔ صنعتی ترقی اور سائنس سے صرف سامانِ تجارت پیدا کرنے، اور زیادہ پیدا کرنے، اور زیادہ پیدا کرنے والوں کی دُھن نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان کی اس قسم کی نفسا نفسی نے میری ٹوٹتی سانسوں کے ٹوٹنے کو بھی نہیں سنا۔
میرے آس پاس کی ہواؤں میں گُھٹن، میری ناک میں جمتی کالک، میرے تپتے بدن، میرے سمندروں کے چھوٹتے پسینے، میری بارشوں کی شکستہ بچہ دانی پر ان میں سے کسی نے وقتی تأسّف میں کچھ کہا بھی تو بس اتنا:
“ہائے بے چاری،”
“کَرماں ماری،”
“اگلے جنم شالا کسی کو زمین نہ کریو”
مگر آنکھ جھپکتے ہی وہی مارا ماری، وہی کہ “تم میری کھیتی ہو،”
“رزق کا وعدہ، پیدا کرنے والے کا ہے۔”
تو اب مجھ زمین کا حال یہ ہے کہ ایک طرف صنعتی ترقی والے میری چھاتی پر مونگ دلتے ہیں، میرے سانس پر اپنی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی صنعتی پِیڑھی کی مصنوعات کی چَکیاں چلاتے ہیں، صور پھونکتے ہیں، تو دوسری طرف ان کی گاہکی والی دنیا کے پَکھی واس چَن دے چَن، سویر تے شام، اک گھڑی توں دُوجی گھڑی بچے پہ بچہ پیدا کر کے اپنے خداؤں کو مخلوق اور صنعت خداوندوں کو گاہک پید کر کر دیتے جاتے ہیں۔
وہاں صنعت، مصنوعات پیدا کرنے کے دَما دَمی میں سانس نہیں لیتی، یہاں عورت کا جسم بچے پیدا کرنے سے دَم گُھٹنے کا انتظار کرنا بھی اپنے ڈویژن آف لیبر سے رُوگردانی برابر سمجھتا ہے۔
وہ دونوں تو اپنی آئی پر آئے ہوئے ہیں، مجھ پر دونوں کا اکٹھا بوجھ پڑتا ہے۔ مجھ سے دونوں صنعت کاروں کا تعلق marital rapists جیسا ہے، اور دونوں ہی مجھے یہ کہتے ہیں:
“تیرا جسم، ہمارا مرضی”
“تیرا جسم، خدا دی مرضی”
اور مریضوں کی اس دھما چوکڑی کے دوران میں تو صرف اتنا کہتی ہوں کہ تمھارے خداؤں اور خداوندوں کو اپنی رسمِ قیامت کا اتنا پاس نہ ہوتا تو وہ کہتے:
ریپ، ریپ ہی ہوتا ہے بھلے وہ marital rape ہو یا جسے تمھاری مردانگی چاہے۔
اور میں کہتی کہ مجھ سے ملو، مجھ سے تعلق نبھاؤ، مگر یہ تعلق تسلیم و رضا اور باہمی اثبات کا ہو، مگر جو خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہوں وہ بھلا اجلاف کی کب سنتے ہیں۔