آصفہ تم آئی ہو… خدا سلامت رکھے!
از، یاسر چٹھہ
عجب ستم ظریفی ہے۔ کل جو کتاب پڑھ رہا تھا اس میں ایک جملہ آیا۔ لکھا تھا… لیاقت باغ کے متعلق، اور بے نظیر پر خود کش حملے کی بات کے متعلق۔ یہ کسی 27 دسمبر کی بات تھی۔
اس دن بھی بمباری ونگ والے اثاثے کام کر گئے۔ (عدالتی ونگ تھک چکا تھا۔)
اس وصل کے وقت سے قبل بی بی شہید نے کسی کا نام لیا تھا کہ وہ انھیں قتل کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ ملزمِ جرم آج وزارتِ داخلہ کا انعام پائے ہوئے ہیں۔ وہ شاہ کا اعجاز پائے ہوئے ہیں۔ وہ سڑکیں دھلوانے والے چکوالی جرنیل صاحب البتہ صفحۂِ ہست سے غائب ہیں، ورنہ موجودہ ‘سرکاری’ حکومت میں انھیں بھی انعام تو ملا ہوتا۔
ملتان ہے، تہذیبوں کے ورثے کی جان ہے۔ کل آصفہ منظر پر آتی ہیں۔ ترجمان اور ترجمان زاد بھی ہوا میں دُھنکی ہوئی رُوئی کی طرح ٹی وی پر پراگندہ ہیں۔ شمع جلتے ہی وہ سوشل میڈیا پر مچھرے ہوئے ہیں۔ عُشّاق کا قافلہ بھی تو نہیں تھکتا۔
یہ پراگندگی اور یہ مَچّھرنا بھی موروثی فریضہ ہے، وہ جلنا اور جل کر روشنی کرنا بھی موروثی وظیفہ ہے۔
قسمت، قلب کا رقص، فہم کی جَست، عقل اور عقیدہ خوش بُو بھی نچھاور کرتا ہے، اور تعفن بھی پس انداز کرتا ہے، اسے تقسیم کرتا ہے۔
قدر و جبر اپنے کھیل کے میدان ہموار کرتے ہیں:
لے لو جو لینا ہے، ورنہ مل جائے گا جو تمھارے نصیبے کی کمائی ہے۔ زیادہ فرق نہیں پڑتا، زیادہ زُمرے بھی تو نہیں۔
ترجمان کل بھی مامُور تھے، مارا ماری اور اوپر سے شور تب بھی تھا آج بھی ہے؛ وہی شیخ رشید، وہی رجلِ غیر رشید تھے، آج بھی ویسے ہی لطیفے ہیں: مقابل، البتہ آج بھی ویسے ہی خیالِ لطیف ہیں، آدرشِ پُر تاثیر ہیں، پیراہنِ دل پذیر ہیں، راہِ روشن کے غازی ہیں، راہِ ازل کے وارثانِ شہید ہیں۔
اپنی اوقاتِ تقدیر کے ترجمانوں نے اپنے پرسوں ترسوں جیسے کَل کی سنت میں جنھیں بَم سے اڑایا تھا، زمین میں دبایا تھا، اس آس پہ دفنایا تھا کہ انھیں بس اب ختم کر دیا… پر قدرت کی بھی تو کچھ سنتیں ہیں۔
اگر اعجاز شاہ ہے تو قدرت کا بھی تو عجب اعجاز ہے کہ وہ زمین میں دَبنے والے، وہ ارضِ خدا میں دفِینے قبولنے والے تو تخمِ ضُوفشانی نکلے:
وہ آصفہ میں نکھرے، وہ بلاول میں اُجلے …۔
اے کم تریں وراثتی فریضے والو! آخر کب تک اپنی خُو پر خوار رہو گے، اپنے رذیل اور سستے وراثتی فریضوں سے باز آ جاؤ، بھلے میں رہو گے…!
یاد رکھو، ایک قبضے کی وراثت ہوتی ہے، طوق کی تنخواہ کے فرض کی وراثت ہوتی ہے، وہ تمھارے لیے ہے؛ ایک قبولیت کی وراثت ہے، قلب و جگر کی ہُنر وَری کی وراثت ہے، وہ اُنھیں ملتی ہے، وہ اُنھیں نصیب ہوتی ہے جو آصفہ ہوتی ہیں۔
ویسے اگر آپ وراثت کی بات کرتے ہیں تو حساب کتاب نکالیے اور تھوڑی جمع تفریق کر کے اپنے مشہورِ زمانہ صفحے پر لکھ لیجیے:
1. گوہر ایوب کے دادا کی کل وراثت تفریق گوہر ایوب کو حاصل شدہ وراثت
2. جناب اعجاز الحق کے دادا کا کل ترکہ تفریق اعجاز الحق کو حاصل ہونے والی وراثت
3. جناب پرویز مشرف کے والدِ گرامی کا چھوڑا ترکہ تفریق جناب پرویز مشرف کے کل اثاثے
ان کو صرف یک صفحی ترجمان، یک صفحی افرادِ ملت اور وراثت گردان گُلو کار لکھ لیجیے، ہم تو البتہ یہی کہتے ہیں:
خوش آمدید آصفہ، خوش آمدید آصفہ