آخر کیوں عورت کمزور ثابت ہوئی اور مرد طاقت ور
(عافیہ شاکر)
عورت اور مرد کی تخصیص کے لحاظ سے، دونوں کوجنس(Sex)اور صنف(Gender) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عورت اور مرد کی جنس مختلف ہے ۔یہاں سوال یہ ہے کہ:
ؑ عورت کو صنف کے لحاظ سے کمزور قرار دیا گیا ہے لیکن(تاریخ میں) ایسا کون سا فن ہے جہاں اس نے کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑے۔(زمانۂ قدیم سے آج تک)
مرد سخت جاں ہے لیکن کتنے ہی مرد حالات کے ہاتھوں خود کشی کر لیتے ہیں اور خود کو جذبات کی رو میں بہا دیتے ہیں۔
پھر کیوں انسان نے جنس کے ساتھ مخصوص صنفی خصوصیات کو منسلک کیا؟
ہم اس مسئلے کو سائنسی اعتبار سے زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ مرد اور عورت کے anatomicalاور physiology کے اختلافات اور ہارمونز اور کروموسومز مختلف ہونے کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ہاں! مرد اور عورت خون کے خلیوں کی تعداد سے لے کر پٹھوں کی طاقت تک مختلف ہے لیکن قدیم انسانی معاشرہ سائنس سے لاتعلقی کے باوجود مرد کو غالب(Dominant ) اور عورت کو مغلوب(Submissive) قراد دیتا تھا۔ وہ عورت کی anatomy سے زیادہ اپنی طاقت سے آگاہ تھا جو عورت کومغلوب کرنا جانتی تھی۔
ڈارون کے Natural Selectionکے مفردضے کے مطابق زمانۂ قدیم میں وہی جاندار ارتقا کی جنگ جیتتے جو Fit for Survivalتھے۔ ان جانداروں کی خاص بات یہ تھی کہ ان کی نسل آگے بڑھتی رہتی، اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نے Division of Labour یعنی اپنے کام کی تقسیم کر رکھی تھی۔ مرد چوں کہ جسمانی لحاظ سے طاقت ور تھا ۔ لہٰذا اس نے ایسے کاموں کا انتخاب کیا جو مشقت طلب تھے۔ بعد ازاں یہ کام کمائی کا ذریعہ بن گئے اور یوں معاشرے نے مرد کے ساتھ محنت ، مشقت، سختی کوشی اور طاقت وری کے تصوارت بطور صنف جوڑ دیے۔
دوسری طرف عورت بچے پیدا کرنے کے عمل سے گزرتی تھی جس کے دوران اس کی دیکھ بھال کی جاتی اور کوئی محنت طلب کام نہ کرایا جاتا اور یوں معاشرے نے عورت کی صنف کے ساتھ نازکی اور کمزوری کومنسلک کر دیا۔انسان کا فطری انتخاب Natural selection اسی بنا پر ہوا کہ اس بیک وقت اپنی خوراک اور نسل بڑھانے کا صحیح بندوبست کیا اور یہ Division of Labourکے ذریعے ممکن ہُوا۔ یوں جنس کے ساتھ صنف کا ارتقا ہُوا۔
یعنی صنف انسان کی بنائی ہوا اصطلاح ہے کیوں کہ اگر قدرت یہ فرق رکھتی تو تمام جانداروں میں یہ فرق پایاجاتا۔ مثال کے طور پر شہد کی مکھیوں میں مادہ مکھیاں ورکر یعنی کام کرنے والی ہوتی ہیں اور نَر مکھیاں کو Dronesیعنی نکما کہا جاتا ہے۔ اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں جانوروں میں موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں عورت کمزور ثابت ہوئی اور مرد طاقت ور؟ کیا یہ تخصیص یا فرق قدرت نے رکھا یا معاشرے نے؟
Lamarkکے مفروضے Use and Disuseکے مطابق جاندار ارتقائی عمل کے نتیجے میں تبدیل ہوتے گئے۔زرافے کی گردن لمبی ہوئی، سانپ کی ٹانگیں غائب ہو گئیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر مرد اپنی ایک ٹانگ کاٹ دیں تو ارتقائی عمل کے نتیجے میں مرد آئندہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو جائیں گے، یہ معلومات DNAمیں درج ہیں جو کہ تبدیل نہیں ہو سکتیں۔اسی لئے معزور بچوں کے بچے صحیح سلامت پیدا ہوتے ہیں۔
مرد اور عورت میں حیاتیاتی فرق قدرتی ہے لیکن معاشرے نے اسے اپنی بقا کے لئے استعمال کیا اور صنف کی شکل دی لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے اب انسان کو زمانۂ قدیم کی طرح اپنی بقا کی فکر نہیں، ایسا ممکن نہیں کہ حیاتیاتی مجبوریاں (جیسے عورت کے لئے بچہ پیدا کرنا، یا مرد کے لئے سخت کوشی، بیرونی محنت وغیرہ) کی وجہ عورت اور مرد کی خصوصیات اُس کی جنس کی خوبیاں بن جائیں۔ عورت اور مرد کی تخصیص کو بہت آسانی سے ختم بھی کیا جا سکتا ہے، خاص کر وہ جسے معاشرہ متعین کرتا ہے۔
دنیا میں ایک نہیں کئی معاشرے ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے مذہب، معاشرت اور تہذیب کے اعتبار سے صنف کو تشکیل دیتا ہے۔ مشرقی معاشرے نے مذہب کے لحاظ سے صنف کی تشکیل کی ہے۔عورت کو چادر اور چادر دیواری سے منسلک کر دیا ہے اور مرد کو طاقت اور وقت سے جوڑا ہے جس کی ارتقائی شکل یہ ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ کہلانے لگا ہے۔
اب ارتقا کا مرحلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ عورت تعلیم حاصل کر رہی ہے، نوکری کر رہی ہے، اپنے بہت سے کام مردوں کو سونپ چکی ہے اور مرد بہت سے کام عورتوں کو سونپ چکے ہیں، وہ تقسیم جو قدیم معاشروں میں رائج تھی اب تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ معاشرے Evolutionکے عمل سے دوبارہ گزر رہے ہیں۔عورت کئی میدانوں میں عورت سے آگے نکل چکی ہے۔ایک وقت تھا جب معاشرے نے عورت کو سماجی ضرورتوں کی بنا پر Submissiveبنایاہُوا تھا، اب جب کہ یہ تخصیص نہیں رہی تو Submissiveرہنے والی صورت بھی بدل گئی ہے۔ عورتوں کے Genesمیں ایسی کوئی خصوصیت نہیں ہوتی جس کی بنا پر عورت صرف چاردیواری میں رہنے اور روٹیاں پکانے تک محدود رہنے کی پابند ہو۔ اور نہ ہی اُس کے جینز میں ایسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر وہ مرد سے گھبراتی، ڈرتی یا شرماتی رہے۔ مغربی معاشرہ بہت پہلے اس سماجی حقیقت کو پہچان چکا ہے اوروہ صدیوں سے اس تخصیص کے خلاف لڑ رہا ہے۔
میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ بلاشبہ عورت اور مرد میں حیاتیاتی فرق موجود ہے مگر یہ فرق اُس کی جنس کا ہے، صنف کا نہیں۔ یہی فرق اُسے Fit for Survival بناتا ہے۔ یہ فرق اُسے گھر سے نکلنے سے نہیں روکتا اور نہ ہی اُس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ذائل کرتا ہے۔معاشرے کا سماجی ارتقا توبدل سکتا یا تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر اُس کی حیاتیات تبدیل یا بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔
ضرورت ہے کہ معاشرے سازی میں شامل انسان اپنے ذہن کو بدلے۔ ہر انسان ایک ودسرے سے مختلف ہوتا ہے۔مرد بھی مرد سے مختلف ہو سکتا ہے اور مختلف سماجی behaviourادا کر سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اُس کی جینیاتی خصوصیات (characteristics)ہیں۔ آئن سٹائن ایک مرد تھا لیکن ہر مرد خود کو آئن سٹائن نہیں کہ سکتا۔ یوں عورت بھی مضبوط اعصاب کی مالک ہو سکتی ہے اور مرد کو ملکۂ جذبات بھی کہا جا سکتا ہے۔ سارا فرق معاشرہ اور اردگرد کے حالات ہوتے ہیں، یہ حالات ہی ہیں جو بھیڑیوں میں پلنے والے بچوں کو بھیڑیابنا دیتے ہیں اور بھیڑوں میں پلنے والے کو بھیڑ۔لیکن ان کی حیاتیاتی حقیقت نہیں بدلتی کہ وہ جانور ہیں۔ ہمارا معاشرہ مرد کو شیر اور عورت کو بکری سمجھتا ہے تو یہ بھی معاشرے کی آنکھ کا کمال ہے ورنہ فطرت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔