عورت، جنس اور تعین قدر
از، منزہ احتشام گوندل
میں اور میرے ہم عمر جو انیس صد چُوراسی کے آس پاس پیدا ہوئے ایک ایسی نسل ہیں جن کی اب تک کی پہلی نصف زندگی انیسویں اور پچھلی نصف زندگی اکیسویں صدی میں گزری ہے۔ ہم نے اپنے پُرکھوں کی قدریں دیکھی ہیں اور مٹی میں اپنے بچپن بِتائے ہیں، تو آج برقی ترقی کے ذرائع بھی استعمال کرنا سیکھ چکے ہیں۔
ہم کچھ ادھر کے اور کچھ ادھر کے لوگ ہیں۔ مگر فی الحال ایسا ہے۔ اللہ سب کی حیاتی لمبی کرے گا تو ایک وقت آئے گا جب ہم اَسّی فی صد اکیسویں صدی کے کہلائیں گے۔
گزشتہ دس سالوں میں میں نے بہ طور صنفِ نازک کے زندگی میں مرد اور عورت کے رشتے کا جو مشاہدہ کیا ہے اور اس پر جتنا سوچا ہے تو کچھ نتائج اخذ کر سکی ہوں اور وہ اپنے قارئین کے سامنے رکھنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہوں۔
جب میں نے نیا نیا feminism کا مطالعہ کیا تو ہر نئے دن ایک نئے نظریے کی حامل ہونے کے جنون نے اس نظریے کی خوب پذیرائی کی۔ میں نے بھی بڑھ چڑھ کے لکھے لکھائے اور پڑھے پڑھائے اس نظریے کی خوب حمایت کی۔ مگر وقت نے یہ سکھایا کہ فیمینسٹ ہونا اور چیز ہے اور فیمنسٹ دکھائی دینا دیگر چیز ہے۔
آج سے زیادہ دور نہیں صرف بیس یا تئیس دھائیاں پیچھے کی طرف چلتے ہیں۔ یورپ میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ صدی پیچھے چلے جائیے۔ جسمانی اختلاط کی مد میں عورت کے تین حوالے تھے:
1- بیوی
2- داشتہ
3- طوائف یا رنڈی
ان تین حوالوں کے ساتھ ایک نظریہ تھا۔ نہایت مضبوطی سے راسخ نظریہ کہ شہوت صرف مرد کا مسئلہ ہے۔ یہ مرد کی سب سے بڑی کم زوری ہے؛ اور عورت اس شہوانی غُبار کے انخلاء کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فکر کے پیچھے عورت کی عقل تھی، یا مرد نے خود ہی اسے ایجاد کیا تھا مگر اس فلسفے کا سب سے بڑا فائدہ عورت کو ملا۔
شہوت کو مرد کی بہت بڑی کم زوری ثابت کرنے کے بعد وہ اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اب وہ بیوی ہے تو اس کے گھر بار، کار و بار، بچوں، اس کی عزت، بے عزتی ہر چیز کی دامے، درمے، سخنے مالک ہے۔ اگر مالک نہیں تو شریک ضرور ہے۔ بَل کہ شریک حیات ہے۔ اگر داشتہ ہے تو مرد کے قلب و ذہن اور دولت کی بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔ اگر رنڈی ہے تو بھی اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرتی ہے۔
ہر صورت میں مرد تگڑی رقم خرچ کرتا تھا، نخرے اٹھاتا تھا تب رسائی ہوتی تھی۔ کیوں کہ سوچ یہ تھی کہ جنسی اختلاط عورت کے حَظ اٹھانے کی شئے نہیں، بَل کہ عورت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ یہ تَلذُّذ وغیرہ صرف مردانہ جبلت ہے۔ سو عورت جب مرد کو یہ لذت فراہم کرنے کا جوکھم اٹھائے گی تو اس کے بدلے میں ڈھیروں انعامات و اکرام کی حق دار بھی ٹھہرے گی۔
سگمنڈ فرائیڈ کے تحلیلِ نفسی کے نظریے سے بعد جب یہ بات سامنے آئی کہ عورت کے اندر بھی G-Spot ہے۔ اور اسے بھی آرگیزم ہوتا ہے تو پرانے افکار کو شدید دھچکا لگا۔ یہ دھچکا در اصل پرانے نظریے کو نہیں لگا بَل کہ براہِ راست عورت کی راج نیتی کو لگا۔
مرے پہ سو درے یہ کہ فرائیڈ نے کہا کہ لڑکی دُخول کے بغیر محض چھیڑ چھاڑ سے بھی انگیخت ہو جاتی ہے۔ تو lesbian فکر پروان چڑھی۔ اس انقلاب سے نہ صرف مرد نے ایک دم اپنی اہمیت کھوئی بَل کہ عورت بھی اپنی عظمت کا بلند سنگھاسن گَنوا بیٹھی۔ اب موقع پرست ذہین مردوں نے عورت کو تبلیغ شروع کی کہ اس کی بھی حیاتیاتی ضروریات ہیں۔ لذت پہ اس کا بھی حق ہے۔ وہ صرف بچے پیدا کرنے اور انہیں دودھ پلانے پر لعنت بھیجے اور جنس کو ایک تفریح کے طور دیکھے اور برتے۔
انسانی ذہن چُوں کہ ہر نئے فلسفے کی طرف بڑی تیزی سے کشش کرتا ہے۔ اس سے عورت بھی کِھنچی چلی گئی اور یوں ایک نیا کردار سامنے آیا اور وہ کردار تھا گرل فرینڈ کا۔ اب گرل فرینڈ کے کردار میں مرد کو سہولت یہ حاصل ہوئی کہ عورت کا احسان اس کے سر سے اتر گیا۔
متعلقہ: یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازی از، پروفیسر ڈاکٹرسعید احمد
سائنسی انقلاب اور کہنہ جنسی نظریات کا خاتمہ از، ارشد محمود
احسان اترا تو کوئی خرچہ پانی بھی نہ رہا کیوں کہ اب دونوں ایک برابر سطح پر آ چکے تھے۔ جہاں بستر پر جانے کا مطلب reciprocal تَلذُّذ تھا۔ اس نظریے کی رو سے دونوں کا کردار ایک دم نیچے گرا جس میں پلڑا بہ ہر حال مرد ہی کا بھاری رہا کہ وہ ناز نخروں کے بوجھ اور نان نَفقے کے بار سے ایک دم آزاد ہو گیا۔
اس سے ایک مخصوص طبقے کا فائدہ تو ہوا ہی مجموعی طور پر عورت کی حیثیت کا گراف بہت نیچے چلا گیا۔ جس سماج میں عورت بہ طور جنسی ساتھی کے اتنی آسانی سے دستیاب ہو وہاں شادی کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ اور لوگ اس سے اجتناب کرنے لگنے ہیں۔
اگر انسانی تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو اس میں قریب قریب سبھی قدیم تہذیبوں کے اندر polygamy کے آثار ملتے ہیں۔ یہ تہذیب ہماری تاریخ میں بھی موجود ہے۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ناول بہاؤ کو پڑھ لیجیے۔ اس تہذیب میں عورت کے بہ یَک وقت کئی مردوں کے ساتھ بیاہ کے آثار ملتے ہیں۔
مرد کو کمزور مخلوق خیال کرنا اور اسے محض نسل کَشی کے لیے استعمال کرنے کا نظریہ بھی موجود رہا ہے۔ یہ عورت کے کردار کا مضبوط ترین پہلو تھا کیوں کہ تب وہ زمین جائداد، کھیت کھلیان، معیشت اور کار و بار ہر شئے کی مالک اور نگران خود تھی۔ اور مرد اس کی سلطنت میں محض ایک کَل پرزہ تھا۔ پھر جب زرعی انقلاب کے بعد مرد نے ہر چیز کی بساط الٹ دی اور اپنی اعصابی طاقت کے بَل بُوتے پر کھیتی باڑی پر مختار ہو کر معیشت پر قابض ہو گیا تو عورت نے اسے رجھانے اور اپنے حصے کے دام کھرے کرنے کے لیے شادی کا ادارہ بنایا اور دوسری طرف امراؤ جان ادا بن بیٹھی۔ اس نے جو بھی داؤ پیچ لڑے بڑی ذہانت سے لڑے اور کم سے کم اپنا نقصان ہونے دیا۔
مگر اس وقت جو مار عورت جدید اور فیمنسٹ ہونے کے زُعم میں گرل فرینڈ کے طور پہ کھا رہی ہے۔ اس کی مثال تاریخ میں اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔ برابری اور لذت کی برساتوں میں بھی اس کی کوکھ میں کونپل نہ پھوٹے اور اسے اس نقصان کا ادراک بھی نہ ہو اس سے بڑا زیاں اور کیا ہو سکتا ہے۔
وائے نا کامی متاعِ کار رواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا