واقعہ کربلا میں خواتین اور بچوں کا کردار
از، سیدہ مہ جبین کاظمی
تحریک عاشورا دو مرحلوں پر مشتمل ہے: پہلا مرحلہ، خون، شہادت اور انقلاب کا مرحلہ تھا، دوسرامرحلہ پیغام رسانی، امّتِ مسلمہ کی بیداری اور اس واقعہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنے کا مرحلہ تھا۔ اس تحریک کے پہلے مرحلہ کی ذمہ داری حسین علیہ السلام اور ان کے جان نثار اصحاب کی تھی اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ ظلم و ستم اور انحراف کے سامنے ثابت قدم رہے اور اس راہ میں جامِ شہادت نوش کیا ۔ امام حسین ؑ اور آپ ؑ کے خاندان اور اصحاب و انصار نے ظلم و جور اور فسق و فجور کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور غاصب و ظالم یزیدی ملوکیت کی بیعت سے انکار کیا تو یزیدیوں نے خاندان رسول (ص) پر پانی بند کردیا اور امام حسین ؑ اوران کے آل و اصحاب تشنہ لب ہوتے ہوئے مظلومانہ طریقے سے شہید ہوئے مگر ان کی شجاعت و دلیری اور جوانمردی و جانفشانی تاریخ کے ماتھے پر نقش ہوگئی۔ ظلمت و شقاوت کی فوجیں سیدانیوں ، بچوں اور بڑوں کو جو کربلا میں شہید نہیں ہوئے تھے، اسیر بنا کر کوفہ و شام کی جانب لے گئیں تا کہ اہل کوفہ و شام کو اپنی فتحمندی جتائیں مگر یہی عمل یزیدی حکمرانوں کی شکست و بدنامی کی اساس ثابت ہوا۔کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ نے بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اولادِ نرینہ سے محروم رکھا مگر ایک بیٹی کے طفیل ان کے نام ونسب کو بھی اسی شان سے زندہ رکھا کہ تاریخ میں کسی کا نام ونسب اتنا روشن نظر نہیں آتا۔
اسلامی اقدار کو حیات نو اور انسانیت کو سرخ رو کرنے والی کربلا کی تاریخ ساز جنگ میں خواتین کربلا کی بے مثل قربانیوں سے انکار گزیرہے، جسے تاریخ انسانیت نے ہمیشہ جلی حروف میں لکھا ہے۔کربلا کی ان مثالی خواتین نے باطل قوتوں کے مقابل اپنےمعصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، یہاں تک کہ اپنے سہاگ کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتےدیکھا لیکن رسول اسلام ؐ کے دین کی کشتی انسانیت کو ڈوبنے نہیں دیا ۔واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ معرکۂ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی شید الشہد ا امام حسینؑ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نواسۂ رسول ؐ حسینؑ مظلوم اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کی آئیڈ یل خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی شیردل خواتین نے شدت مصائب میں گھر کر بھی اپنے کردار وعمل سے ثابت کردکھایا کہ آزادی ضمیر انسانی کے سرخیل امام حسینؓ کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
فاتح کوفہ وشام خاتون کربلا جناب زینبؓ کے بے مثل کردار وقربانیوں سے تاریخ کربلا کا ہرورق منور نظر آتا ہے۔آپ نے اپنے جگر پاروں عون ومحمد کو نانا کے دین پر یہ کہہ کر قربان کردیا کہ اگرتم نے نصرت امام میں اپنی قربانیاں پیش نہیں کیں تو تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ حق اورفرض شناسی کی راہ میں دنیا کی ماؤں کے لیے یہ جذبہ درس عبرت ہے۔ اسی طرح امام حسینؓ کی شریک حیات جناب ام الیلیٰ اور جناب ام ارباب کے بے مثل کردار آزادی ضمیر کے متوالوں کو آج بھی متاثر کیے بغیر رہتے ۔ زوجہ حضرت عباسؑ جنہوں نے اپنے بچوں اور اپنے سہاگ کو راہ خدا میں قربان کردیا فراموش کر دینے کے قابل ہے؟۔ زوجہ حضرت قاسم بن حسنؑ کا کردار کیا بھولنے کے قابل ہے، جنہیں حالات کی ستم ظریفی نے ایک ہی شب میں بیوگی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کردیا۔کربلا کی خواتین کے بے مثل کرداروں کے درمیان کم سن بچی سکینہ کا کردار بھی اہل دل کے قلوب کو گرما ئے بغیر نہیں رہتا ۔سکینہ جو امام حسینؓ مظلوم کی سب سے کمسن بیٹی تھیں واقعہ کربلا سے لے کر اسیر زندگان شام تک مصائب کے پہار برداشت کرتی رہیں لیکن کوئی تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ اس کمسن بچی نے مصائب اور پیاس کی شدت سے تنگ آکر یہ سوال کیا ہو کہ بابا یزید کی بیعت کیوں نہیں کرلیتے ۔دنیا کی کوئی تاریخ یہ بھی نہیں بتاتی کہ کسی ماں نے اپنے شیر خوار بچے کو میدان جنگ کے لیے رخصت کیا ہو۔
کربلا کی جنگ میں ایسا بھی ہوا کہ ام رباب نے اپنے چھ مہینے کے معصوم علی اصغرؑ کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ کربلا جہاں قدم قدم پر خواتین کربلا امتحان کی صبر آزما منزلوں سے گزررہی تھیں وہاں اہل حرم کے لیے وہ منزل بھی کتنی پر ہول تھی جب سلطان کربلا خود رخصت آخر کے لئے خیمہ اہل حرم تشریف لائے تھے۔ کربلا کی باعزم خواتین نے واقعہ کربلا کے بعد آنے والے روح فرسا مصائب کو برداشت کرنا گوارا کیا۔ انہوں نے اسیری زنداں شام اور کوگہ کے بازاروں میں تشہیر ہونا تو گوارا کیا لیکن انہیں یہ منظور نہ تھا کہ محمدؐ کے دین کے اصولوں کا سودا کسی ظالم وفاسق کے ہاتھوں ہوجائے۔میدان کربلا میں یزید ی ظلم کے خلاف نہ صرف خاندان رسالت کے اہل حرم نے قربانیاں پیش کیں بلکہ اس گھرانے کی کنیزوں اور حسینی انصاری خواتین نے بھی اپنے ایثار وقربانی کے جوہر دکھائے ۔زوجہ حبیب ابن مظاہرؑ کا کردار بھی حق کے مثاشیوں کے لیے لائق تقلید ہے، جنہوں نے اپنے شوہر حبیب ابن مظاہرؑ کو نصرت حسینؑ مظلوم پر قربان ہونے کے لیے آمادہ کرلیا۔ اسی طرح وہب کلبی کی والدہ گرامی کاکردار کتنا متاثر کن ہے، جنہوں نے اپنے بیٹے وہب جن کی شادی کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا روز عاشورہ نصرت امام حسینؑ پر قربان کردیا۔
یہاں تک کہ جب وہ اپنے بیٹے کی لاش پر پہنچیں توشمر نے وہب کلبی کا سرماں کی جانب پھینک دیا۔ ماں نے اپنے بیٹے کے سرکو فوج اشقیا کی طرف پھینک دیا۔ ماں نے اپنے بیٹے کا سر اٹھایا ،اس کے بوسے لیے اور دوبارہ بیٹے کے سرکو فوج اشقیا کی طرف پھینک دیا اور شکر خدا بجالائیں کہ تو نے میری قربانی کو قبول کرلیا۔ دنیا کی تاریخ کر بلا ایسی ماؤں کے کردار پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔کربلا کی خواتین نے اپنے کردار وعمل کے ذریعے دنیا کی خواتین کو ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ بخشا۔خاتون کربلا جناب زینبؑ نے یزید کے بھرے دربار میں ظالم کے روبروظلم کے خلاف آواز اٹھا کر دنیا کے مظلوموں کو بتایاکہ زمانے کے یزید نما دہشت گردوں کے چہروں سے ظلم کی نقاب کس طرح اٹھائی جاتی ہے۔ دنیا کی ستم زدہ اورمظلوم خواتین کے لیے کربلا کی کردار ساز اور مثالی خواتین آج بھی مشعل راہ ہیں۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلہ کی ذمہ داری خواتین اور بچوں پر مشتمل کاروانِ اسراء نے سنبھالی اور اس تحریک کی پرچم داری جناب زینب علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی۔
جناب زینب علیہ السلام نے واقعۂ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا تک جاوداں بنادیا حقیقت میں زینبی کردار حسینی کردار کا ہی دوسرا نام ہے اور اس معرکہ حق و باطل میں باطل کے منحوس وجود پر آخری ضرب حضرت زینب علیہ السلام نے ماری جس کے بعد باطل کو سر اٹھانے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی خود حضرت زینب علیہ السلام کربلا میں موجود تھیں۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت زینب علیہ السلام کا کردار بہت اہم ہے ۔ آپ نے تحریکِ کربلا میں شامل ہو کر واقعۂ کربلا کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی عظیم ذمہ داری کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ شام و کوفہ کے بازاروں میں حضرت زینب(س) کے خطبوں نے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے والدِ گرامی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں کی یاد تازہ کردی۔
اسیری کے بعد جب جناب زینب دیگر اہل حرم کے ساتھ کوفہ و شام کے دربار میں ابن زیاد اور یزید پلید کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے تو آپ نے بے مثال خطبے پیش کیے۔ یہ خطبے ایسے حالات میں دئیےگئے جب اہل بیت پیغمبر یزیدیوں کے زر خرید غلاموں کی قید میں اذیتوں کےسخت دور سے گزر رہے تھے اور دشمن اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کرکے اپنے زعم ناقص میں انہیں معاذ اللہ ذلیل و خوار کرناچاہتے تھے لیکن جناب زینب (س) نے اپنی شعلہ بار تقریروں سے ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور ان کی نیندیں حرام کردیں۔ یہ خطبے اور تقریریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہ تمام مصائب وآلام ، جناب زینب کے پائے ثبات کو متزلزل کرنے میں ناتواں تھے ایسے سخت حالات میں ایک دلشکستہ وغمگین خاتون کے ذریعے دیئے گئے عظیم خطبے اور تقریریں مخصوص الہی امداد کے بغیر ممکن نہ تھیں اور یہ چیز جناب زینب کی کرامت میں شمار ہوتی ہے۔
شبیر کے ہاتھوں پرتواصغر تھاوہ لیکن نکلا سرمیداں علی اکبر کے برابر
محسنؔ کونہیں خوف تکبیرین لحد میں کوآئے گا مولا تیرے نوکرکے برابر
اس کم سنی میں یوں صف اعدا سے انتقام اصغر توابتدا میں ہوا انتہا پسند
ثابت ہوئی یہ بات دیار دمشق میں زینب خدا کے دین کوتیری ردا پسند
(محسن نقوی)