خواتین کے متعلق ترقی پسند نقطۂِ نظر کی ماہیت اور خد و خال
از، نعیم بیگ
آج ہمارے معاشرے میں جس بری طرح سے سیاسی اور سماجی منظر رُو بَہ زوال ہے ہم سمجھتے ہیں کہ طبقاتی کش مکش میں یہ مقام بعید از انقلاب نہیں۔ تاریخ کے دھارے کب رخ بدلتے ہیں ابھی پیش گوئی ممکن نہیں، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے جس سَحَر کا فیض صاحب نے ذکر کیا تھا ممکن ہے اب کی بار ایسی صورت نظر آئے۔
غریب ہے کہ poverty line سے نیچے گر کر اب تعداد میں اس قدر نمایاں ہو چکا ہے کہ مذہبی اطلاقیت اور استعماریت کا جبر مزید تقسیم در تقسیم کے جوہر سے مبرا ہو چکا ہے۔ اب یہ اپنے جوہر میں مزید تقسیم نہیں ہو گا بَل کہ ایک ایٹم بم کی طرح پھٹے گا۔
بھوک و افلاس سے مرتے، خودکشیاں کرتے نو جوانوں کی فوج اس ملک کی ایسی طاقت کے طور پر سامنے آ رہی ہے جو اخلاقی، سماجی و ثقافتی حدود کو تہہ و بالا کر رہی ہے۔ جبر و استبداد کا نتیجہ ایسا کہ عورت ایک اکائی کے طور پر سماج کا مضبوط تر پرزہ ہونے کے با وُجُود مزید ذاتی ملکیتی رحجانات کا شکار ہو رہی ہے۔ اور سچ پوچھیے ہمارے یہاں نزاعِ ملکیتی جو برِّ صغیر میں صدیوں پرانی زرعی سماج سے ابھرا تھا اور ہے اب بے سَمت ہو کر مغرب کی بِلاد کاری کا شکار ہو رہا ہے۔
ہم نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے اب یہ سیکھنا ہر دو مطالب کی معنوی شرح ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ نو آبادیاتی عہد کے بعد جب استعماریت نے بَہ راہِ راست عالمی باگیں سنبھالنے کی بَہ جائے نیو کالونیلزم کی راہ اپنائی تو صارفیت اور منڈی کی ضروریات کہیں زیادہ بڑھ گئیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو دھائیاں پہلے امریکی ملٹی نیشنل کاسمیٹکس کمپنی کے سی ای او سے کسی مُنھ پھٹ صحافی نے پوچھا کہ آپ ہندوستان میں بے در پے عالمی حسینہ اور مِس یونیورس کا ایوارڈ دے رہے ہیں، کیا ہندوستان کے علاوہ خواتین کی بیوٹی ساری جہاں میں ماند پڑ گئی ہے۔ اُن کا جواب بڑا سیدھا تھا۔ جب ہماری مِس یونیورس ایک لپ سٹک ہاتھ میں پکڑ کر یہ کہے گی کہ میری خوب صورتی کا راز اس لپ سٹک میں ہے تو ہندوستان میں تیس کروڑ لپ سٹک پلک جھپکنے میں بِک جائیں گی۔ یہ ہے صارفی سماج۔
آج ہمارے سیاسی منظر پر جو تبدیلیاں نظر آتی ہیں اس سے ہم بڑی تیزی سے صارفیت کی طرف جا رہے ہیں۔ گو مغرب کی یہ کوشش دیرینہ ہے لیکن نتائج بے سود رہے تھے؛ سو اس میں تیزی لانے اور ہَمہ جِہت نتائج کے لیے سماجی سطح پر accelerator دینا ضروری ہو گیا تھا۔ ہماری سست روی (وسیع تر معنوں میں) کی وجہ سے عالمی مالی مفادات اور جغرافیائی تقسیم سے دولت کا ارتکاز جو گزشتہ جنگوں سے مہمیز ہوا تھا اب مانند پڑنے لگا ہے, سو نئے راستوں کا انتخاب ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کا نیا حربہ ہے۔
آئیے ہم موضوع پر واپس لوٹتے ہوئے کچھ گفتگو عالمی یومِ خواتین پر کرتے ہیں۔ اس دن کی تاریخی اہمیت ہوں ہے کہ در حقیقت اکتوبر سے اٹھنے والا انقلاب آٹھ مارچ 1917 میں سوویت روس میں مکمل ہوا۔ اُسی دن سے 8 مارچ وہاں قومی تعطیل بن گیا۔ اس دن کو اس وقت بنیادی طور پر سوشلسٹ تحریک اور کمیونسٹ ممالک نے منایا جب تک کہ اسے سِنہ 1967 میں عالمی حقوقِ نسواں کی تحریک نے اپنایا اور مغرب میں منانا شروع کیا۔
اس کے بعد اقوامِ متحدہ نے 1977 سے عالمی سطح پر خواتین کا دن قرار دیا۔
تاہم مختصراً عرض ہے کہ عورت جب بھی محکوم تھی اور آج بھی ہے البتہ اس تحریک نے پہلے دن سے آج تک جو حقوق حاصل کیے اس میں ووٹ ڈالنے کے حقوق سے لے کر مردوں کے درمیان زندہ رہنے کا حق سیکھ لیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سیاسی برابری کو تو ووٹ کے ذریعے اہمیت دی گئی۔ لیکن معاشی برابری کا تصور موجود نہیں۔ سوشلسٹ معاشرے میں معاشی برابری کو اہمیت دی جاتی ہے جس سے باقی تمام فطری آزادی کے مظاہر مکمل ہو جاتے ہیں۔
مغرب میں تعلیم نے عورت کو بہت مدد دی، لیکن ہمارے جیسے نیم خواندہ، بے حد مذہبی، قدامت پرست اور مردانہ سماج کے اندر عورت آج بھی 1917 سے زیادہ محکوم ہے اور جبر کی زندگی میں اسے صرف سیکس سمبل اور قربان ہونے والی شے سمجھا جاتا ہے۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم عورت کو بنیادی انسانی حقوق بھی مہیا نہ کر سکے ہیں جب کہ عورت کے حقوق اس سے کہیں زیادہ ادا ہونے چائیں۔
اس سلسلے میں میں مارکس کے کچھ خیالات کا اظہار کرتا ہوں:
… “in the capitalist society there is a surely a form of ‘exclusive private property’ (for men), goes on to affirm that in the behaviour towards women as the ‘prey and the servant of the social lust.“
“The immediate natural necessary relation of the human to human is the behaviour of the man to woman. From this behaviour one can judge whole stage of human development.”
…“degree of female emancipation (liberty from social, political and economical) does exist as does in universal emancipation.”
ہمارے ہاں ایک نقطۂِ نظر یہ بھی ہے کہ مارکسزم صرف تردید کا نام نہیں، یہ تخلیق کا نام بھی ہے۔ یہ صرف پرانی عمارت کو گرانے کا نام نہیں، نئی عمارت بنانے کا نام بھی ہے۔ معاشرہ خواہ قدیم ہو یا جدید، اقدار پر قائم ہوتا ہے۔ یہ اقدار حقوق و فرائض دونوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اور اقدار نہ تو راتوں رات ٹوٹتی ہیں، نہ ہی بنتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ چین میں انقلاب کے پندرہ بیس برس بعد ثقافتی انقلاب کی ضرورت محسوس ہوئی یہ اور بات کہ ثقافتی انقلاب کا دریا کناروں سے بہہ نکلا۔
میرا جسم میری مرضی یہ نعرہ عورتوں کے حقوق اور مساوی مقام کی جد و جہد کرنے والوں نے پوری ذمے داری کی بَہ جائے ایک پُر جوش ردِ عمل کے طور پر اپنایا۔
ایک ایسے معاشرے میں اپنایا جہاں اس نعرے کی جُزوی معنویت کو سمجھنے کے لیے بھی ابھی بہت سفر طے کرنا باقی ہے۔ اگر ہم انسانی آزادی کی حد یہ مقرر کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ کا اٹھنا آپ کے چہرے سے نہ ٹکرائے تو معاشرہ جس کی جڑت اور نشو و نما میں حدود و قیود کا اہم کردار ہے وہاں میرا جسم میری مرضی حق جتانے سے زیادہ سماجی تانے بانے سے مکمل بغاوت کا تاثر دیتا ہے۔
معاشرے کی اکائی خاندان ہے اور خاندان تو مغرب کا ہو یا سوشلسٹ معاشرے کا، وہاں مرد اور عورت کو انسانی مقام دینے کے وعدے کے با وُجُود حقوق و فرائض کی قید ضرور ہوتی ہے۔
میں خود کو جواب دیتا ہوں کہ ایک بار طوفان کو آنے دیں۔ barrier ٹوٹنے دیں تب سدھار کی طرف نکلیں گے اور نا ہم وار زمین کو ہم وار کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں زنجیریں توڑنا وقت کی پکار ہے چُوں کہ رضا کارانہ طریقے سے کوئی زنجیر نہیں توڑنے دے رہا ہے لہٰذا اب توڑتے ہوئے ہاتھ پاؤں اگر زخمی ہوتے ہیں تو ہونے دیں بعد میں زخم مندمل ہو جائیں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں یہ نعرہ اوّلین طور پر لگایا گیا ہے My Body, My Choice ایک بنیادی نعرہ ہے جس کا مفہوم کئی ایک معنوں میں وسیع تر ہے۔
ہمارے ہاں اس کو سماج میں ہونے والے عورت پر ظلم کے تناظر میں لیا گیا ہے۔ جس میں کارو کاری، قران سے نکاح، بدلے میں دینا؛ زبر دستی کی شادی، محبت کی شادی کو جرم سمجھنا، جب عورت گھر میں بس جائے تو اس پر جبری ہم بستری، معمولی اختلافِ رائے پر مار کٹائی، طلاق، خلع مانگنے پر قتل کر دینا؛ بچوں کو چھین لینا اور نارمل زندگی میں سوشل پا بندیاں اور معاشی قدغن وغیرہ۔ اس نعرے کو سمجھنے کے لیے کسی بھی شخص کا تعلیم یافتہ ہونا لازم ہے ورنہ اس نعرے کو غیر سے ہم بستری سے ہی منسوب کیا جا رہا ہے۔
یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ سیدھی سادی evolution اور رrevolution کا معاملہ ہے۔ چین جیسے معاشرے میں انقلاب کے بعد سماجی سدھار کا سلسلہ چلا، مغربی معاشروں میں معاشی خوش حالی اور عملی ترقیات کی بَہ دولت evolution کا سلسلہ برابر جاری ہے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ evolution کہیں سماج کو انقلاب سے دور تو نہیں لے جا رہا۔ یہ بھی ایک مارکسسٹ کو سوچنا ہے۔
ڈاکٹر کوثر جمال آسٹریلیا سے کہتی ہیں:
“عورت کی آزادی کی بَہ جائے میں اسے عورت کے مساوی سماجی مقام اور مساوی حقوق کی جد و جہد کہنا زیادہ پسند کروں گی۔ معاشی طور پر آزاد ہوئے بَہ غیر کوئی عورت تو کیا مرد بھی آزاد نہیں ہوتا۔ عورت کی جد و جہد کو قدم قدم پر انقلابی شعور اور جد و جہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔”
میں کوثر جمال سے پوری طرح متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ درست کہتی ہیں کہ یہ اینٹی سوشلسٹ نعرہ ہے۔ عورت کے حقوق مرد کے حقوق کے ساتھ جڑت رکھتے ہیں اور اسی قدر باعثِ فخر ہیں جس قدر کسی انسان کے حقوق کی آبیاری افتخار ہوتی ہے۔ (اس سلسلے میں ڈاکٹر کوثر جمال اور فاضل مصنف شاید 2020 کے عورت مارچ کے بنیادی theme کو یاد نہیں رکھ پا رہے کہ جو معاشی خود مختاری تھا۔ ٭مدیر ایک روزن)
آخر میں یہ عرض کروں گا کہ (یہاں میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جو ابھی تک عورت کے بارے اپنے اذہان میں مہا بیانیوں کے اثرات تلے زندہ ہیں اور ایک سرمایہ دارانہ انڈسٹری چلا رہے ہیں۔)
عورت کو آپ آج کی سماجی دنیا سے الگ رکھ کر تہذیبی، مالی، سیاسی اور ثقافتی ترقی نہیں کر سکتے۔ ہاں البتہ اگر تنزلی کے سفر کو بِالآخر خطۂِ سکوت پر جا کر ختم کرنا مقصود ہے تو اسے بَہ راہِ راست غاروں میں بٹھا دیجیے۔ بس بہت ہو چکا اب بِلا تاخیر اجازت دیں اور قانونی تحفظ دیں کہ وہ اپنی مرضی کا بلا خوف و خطر اور آزادانہ استعمال کرے وہ سماج کی انتہائی ذمے دار اکائی ہے۔ نئی نسل کا شجر برگ و گل ہے۔ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں۔
ترقی پسند مصنفین کے خصوصی اجلاس منعقدہ پاک ٹی ہاؤس لاہور مورخہ 11 مارچ 2020 میں پڑھا جانے والا ایک اظہاریہ