عورت مارچ ، علامتی جنازے اور ہم
از، نعیم بیگ
پاکستان میں آٹھ مارچ 2019ء کیا گزرا، کچھ لوگوں پر ایک قیامت گزر گئی۔ بیش تر شہروں میں ہونے والے احتجاج کی تصویریں جس میں ہر نسل، رنگ لباس میں ملبوس عورتیں اور مرد ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ،مزاحمتی سلوگنز ، غیرت کے نام پر قتل، جاب سیکورٹی، شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ کچھ نوجوان لڑکیوں کے ہاتھوں میں ڈِک پِک مذمتی بینر ، بستر گرم نہیں کروں گی، اکیلی، آوارہ، آزاد وغیرہ کے تھامے ہوئے بینرز در حقیت مزاحمتی رد عمل کا مظاہر ہے۔ یک لخت بدلتی ہوئی یہ ہوا کسی کو سوندھی سوندھی خوش بو لگی اور کسی کو سڑاند محسوس ہوئی۔
سوشل میڈیا پر ملک بھر میں ہونے والے اس خواتین مارچ کی مخصوص تصویروں کے ڈسپلے بعد ایک عجیب سا غدر مچ گیا۔ کیا ترقی پسند ، کیا سیکولر ، کیا لبرلز ،کیا مذہب پسند سبھی نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے کہ در اصل کون کیا چاہتا ہے ۔ کل تک فیمینسٹ تحریک کی سر کردہ علم اٹھانے والی خواتین بھی اس مارچ کے خلاف مذمتی تحریک کا حصہ بن گئیں، جنھوں نے ماضی میں عورت کی آزادی کی بات تو کی تھی لیکن سماجی اخلاقیات کے تحت اب اس آزادی کو ناقابل برداشت قرار دے کران سلوگنز اور احتجاج سے یک سر بِدک گئیں۔
مجھے ایسے محسوس ہوا کہ اب انھوں نے 180 ڈگری زاویہ پر کمپاس کو لے لیا ہے۔ تاہم میرا ذاتی خیال قدرے مختلف ہے۔ میں بدقسمتی (ان لوگوں کے نقطہ نظر سے جو نظریات کی انتہاؤں کو چھوتے ہیں) سے ہٹ کر صرف ایک ترقی پسند نظریاتی کارکن ہوں۔ مارکس کے معاشی و سماجی نظریات کو اس کے جوہری تناظر میں سمجھنے والے کارکن طبقاتی کشمکش کو انتہاپسندی کے باڈر تک لے جانے والوں کو اس فلسفے کی نفی سمجھتے ہیں، کیونکہ بات انسان کی ہے، برابری کی ہے جس میں جنڈر کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں انسان جینڈر کی صرف ایک ہی قسم ہے اور وہ ہے مرد۔ میں اس حقیقت کو خوب جانتا ہوں کہ جب مزاحمتی تحاریک اٹھتی ہیں تو ان کے ابتدائی خد و خال کچھ اسی طرح کے بے ڈھنگے ہوتے ہیں، اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جس جبر و ستم کو صدیوں کی سماجی ، تہذیبی و ثقافتی آبیاری ملی ہو تو اس جبر کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے پہلی بار بے ہنگم طاقت کا استعمال ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ زنجیریں ٹوٹتی نہیں۔ جس طرح عورتوں نے صدیوں کے پدر سری جبر کو سہا ہے ۔ اس کے مظاہر ہمارے سماج میں نمایاں ہیں۔ عورت کو شے سمجھ کر اس کی ملکیت کا تصور ہمارے معاشرے میں راسخ ہو چکا ہے۔ مرد اس ملکیت میں اپنی کسی بھی حیثیت میں خود کو ایک سیکورٹی گارڈ سمجھتا ہے۔
اور وہ عورت کے جسم سے لے کر اس کے ذہن، اعمال اور جبلت تک کو غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں عورتوں کے اس مارچ میں باغیانہ سلوگنز اور بینر بڑی حد تک اس راسخ نقوش کو مٹانے میں مدو معاون ثابت ہوں گے۔ راقم نے فیس بک کی اپنی وال پر 8 مارچ کو ایک پوسٹ اپڈیٹ کی تھی۔۔۔”
جس دن مردوں کے سماج میں یہ طے ہو جائے گا کہ عورت انسان پہلے ، عورت بعد میں، اسی دن عورت مرد کے چنگل سے آزاد ہو جائے گی۔ تاہم یہ بات سب سے پہلے خود عورت کو مردوں پر ثابت کرنا ہوگی۔۔۔ دنیا بھر میں تو ایسا ہو رہا ہے لیکن اپنے ہاں عورت کو اپنی زنجیریں توڑنا ہونگی ۔”” اور وہی ہوا ۔ خواتین کے مارچ نے زنجیر توڑنے کا جو عندیہ دیا ہے اس کی آواز اب دور دور تک سنی جائے گی۔ عورت کو سب سے پہلے جب اپنے جسم پر اختیار حاصل ہوگا، تبھی زندگی کے بقیہ پہلوؤں پر غور کرنے کے قابل ہو گی۔