اک عجب گہما گہمی ہے

ماہ رخ رانا

اک عجب گہما گہمی ہے

از، ماہ رخ رانا

ارے یہ غلط۔۔۔۔ ارے وہ غلط۔۔۔ دیکھو معاشرہ بگڑ رہا۔۔۔ تم بے حیا۔۔۔ دین کو خطرہ۔۔۔۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑا مجمع ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے پر فقرے کس رہا ہے اور کسی کو کسی کی کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ کسی کو کچھ نہیں پتا چل رہا کہ آخر مسئلہ کیا ہے ۔ مدعا کیا ہے۔ عورتوں کے بین الاقوامی دن پر کی گئی عورت مارچ کے بعد سے معاشرے کی کچھ ایسی ہی صورتِ حال نظر آتی ہے مجھے۔

چلیں آج کوشش کرتے ہیں کہ غیر جانبدار ہو کے ذرہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر مدعا کیا ہے۔

پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان میں ایک اصطلاح بہت عام ہونے لگی ہے جسے feminism کہا جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ بے چارہ معصوم لفظ ہمارے ہاں آیا تو اس کے اصل مقصد اور مطلب کا بڑی ہی بے ر حمی سے قتل کر دیاگیا۔ اصل میں آخر یہ feminism ہے کیا؟ feminism ایک سوچ ایک تحریک ہے جسکا مدعا ہے کہ سماجی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی حقوق دینے میں مرد اور عورت میں تفریق نہ کی جائے۔

مرد اور عورت دونوں کو بحشیتِ باشعور انسان اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق دیا جائے۔ اسکی شروعات وہاں سے ہوتی ہے جب عورت کو voteدینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ نہ ہی اسکو پیسہ کمانے اور جایئداد بنانے کا حق حاصل تھا۔ خیر میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گی کہ عورتوں کے لئے حالات کتنے ناساز گار تھے جنکی بناء پر feminismجیسی تحاریک چلائی گئیں اورانہی لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج حالات مثالی نہ سہی پر بہتر ضرور ہیں۔

اب feminism جب ہمارے پاکستانی معاشرے میں آیا تو اسکا ایک نہایت منفی مطلب سمجھا جانے لگا۔ مردوں کو لگنے لگا کہ اسکا مطلب ہے عورت راج اوربے حیائی اور وہ اس سے بغیر سوچے سمجھے خار کھانے لگے۔ سچ کہوں توہمارے معاشرے میںfeminism کے اصولوں کو مدِ نظر رکھ کے دیکھا جائے تو عورت ،مرد دونوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ کیوں کہ feminism کا مدعا ہے کہ عورت مرد کو بحثیتِ انسان دیکھا جائے نہ کہ بحثیتِ جنس۔ اور جنسی بنیادوں پرتشریح نہ کی جائے کہ عورت ایسی ہوتی اور مرد ایسا ہوتا۔

ہمارے ہاں کہا جاتا کہ مرد روتا نہیں ہے مطلب کہ مرد کو ہم جتار ہے ہیں کہ تمہارا کام مصائب جھیلنا ہے اور تمہیں رونے کی بھی اجازت نہیں کیوں کہ یہ تو کمزوری ہے۔ ہمارے ہاں مرد کے کندھوں پر پورے کنبے کا بوجھ لادا جاتا۔ بڑے بھائی کی اگر سات بہنیں تو اس سے توقع کی جاتی کہ وہ چاہے ساری عمر گزار دے مگر نہ تو وہ شادی کر سکتاہے نہ ہی اپنے لئے جی سکتا ہے جب تک کہ وہ ان سات بہنوں کی شادی نہ کر دے۔پھر چاہے اس عمل میں اسکی آدھی سے زیادہ عمر گزر جائے۔ ہمارے ہاں ایک بے روزگار مرد کو جتنے طعنے دئیے جاتے وہ کسی کی بھی عزتِ نفس مجروح کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ مرد اگر پیسہ نہیں کما رہا تو اسکی عزت نہیں ہے اپنے ہی گھر میں اسے ہڈ حرام اور مفت کی روٹی توڑنے والا کہا جانے لگتا ہے جب کہ ہمارے ہاں تیس سال کی بھی بے روزگار لڑکی کو ایسے طعنے نہیں دیے جاتے۔ feminism ان سب رویوں کی نفی کرتی ہے۔


کیا اسلام عورتوں کو برابری کے حقوق دینے میں رکاوٹ ہے؟


میری تحریر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں یہ باور کروانا چاہتی ہوں کہ ہمارے ہاں مرد بہت مظلوم اور عورت بڑے مزے میں ہے۔ جیسے کہ میں پہلے کہہ چکی ہوں کہ ہمارے ہاں دونوں ہی مسائل کا شکار ہیں۔ مگر پہلے مردوں کے بارے میں بات کرنے کا مقصد صرف یہ کہ غلط فہمی کچھ کم ہو جائے کہ feminism صرف عورتوں کی حمایت کرتی اور مردوں سے بدلہ لیتی کسی تحریک کا نام ہے۔ ہمارے ہاں عورتیں اب بھی بہت سے مسائل کا شکار۔ ابھی بھی بہت سے گھرانے ہیں جہاں سمجھا جاتا ہے کہ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں یا یہ کہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے کم عقل یاکم تر ہے اور اسے فیصلے کرنے کا حق نہیں۔

ہمارے ہاں عورت کو مرد کی نسبت سے دیکھا جاتا ہے اور اسے مرد کی غیرت سمجھا جاتا جو کہ سب سے بڑی حماقت ہے۔ عورت مرد دونوں انسان ہیں اور کوئی کسی کے کیے کا ذمہ دار نہیں۔ قرآن کہتا ہے ؛ہر ایک کے لیے وہ ہی ہے جو اس نے کمایا۔ کوئی کسی کے فعل کا ذمہ دار نہیں۔ پھر غیرت کے نام پر عورت کو قتل کرنا کہاں کا جواز۔ پھر یہ خیال کرنا کہ ایک خاص طرح کا لباس پہننے والی عورت با حیا اور دوسری طرح کا لباس پہننے والی عورت بے حیا۔ اس ذہنیت کو سوائے حماقت کے بھلا اور کیا کہا جا سکتا۔ یہ بہت سے مسائل میں سے چند اہم مسائل ہیں جنکوں feminism جیسی تحریک حل کرنا چاہتی ہے۔

اب آتے ہیں دوسری جانب جسکی آج کل گرما گرمی۔ چند روز پہلے پاکستان میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں استعمال کئے گئے bannersپر سوال اٹھائے گئے۔ اسکی مخالفت میں بولنے والے صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی ہیں۔ کہا جانے لگا کہ کیا پاکستان میں feminism اور حقوقِ نسواں کا یہی مطلب ہے کہ میں کھانا نہیں بناؤں گی۔ میں تمہارا موزہ نہیں ڈھونڈ کے دوں گی، یا پھر یہ کہ میں دوپٹہ نہیں لوں گی۔ میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ ایسے معاشرے میں جہاں بہت سے گمبھیر مسائل ہوں جیسے چند میں اوپر لکھ چکی ہوں،وہاں ایسی باتوں کو مدعا بنانے سے اہم مسائل کی طرف توجہ کامرکز ہٹ جاتاہے اور ایک غیر ضروری سی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اور بالکل یہی ہوا گزشتہ عورت مارچ کے نتیجہ میں۔

لیکن کیا صرف تنقید کر دینا مسئلے کا حل ہے؟ یا ہمیں رک کر جائزہ لینے کی ضرورت کہ آخر یہ frustration آئی کہاں سے؟ میرے تجزئے کے مطابق جب گھرمیں ٹی وی دیکھتی یا اسائنمنٹ بناتی بہن سے یہ کہا گیا کہ کہ بھائی اٹھ کے پانی نہیں پئے گا کھانا گرم نہیں کرے گا۔ یہ اس کا کام نہیں ہے۔تم اپنا کام چھوڑ کر کھانا لے کے آؤ تو کہیں نہ کہیں بہن کے لاشعور میں یہ بات آگئی کہ کھانا گرم کرنا یا بنانا کائی حقیر کام ہے اسکی کوئی خاص وقعت نہیں اس لئے یہ بھائی نہیں کرے گا۔

جب دن بھر گھر میں کام کرتی، صفائی کرتی، کھانا بناتی، کپڑے دھوتی، بیوی کو شوہر نے دفتر سے واپس آ کر کہا کہ تم سارا دن کرتی کیا ہو؟ گھر میں بیٹھی رہتی ہو میں باہر جاتا، محنت کرتا، پیسے کما کر لاتا، کام کرتا ہوں تو اس بیوی کے ذہن میں یہ بات پیوست ہو گئی کہ کام تو وہی ہے جو باہر جا کر کے کیا جاتا ہے اور جسے کرنے کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ یہ گھر میں جو وہ کام کرتی یہ تو کچھ نہیں ہے۔ یہ حقیر کام ہے جسکی کوئی وقعت نہیں ہے۔

جب بیٹی سے کہا گیا کہ تم شام چھ بجے اپنی دوست کی سالگرہ میں نہیں جا سکتی محلے والے کیا کہیں گے کہ ان کی بیٹی رات کو گھر واپس آئی ہے۔ اور جب بیٹی نے آگے سے جرح کرنا چاہی کہ بھائی بھی تو رات تین بجے دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتا ہے۔ کل محلے کی آنٹی نے اسے سگریٹ پیتے دیکھا۔ اور بیٹے کو غیر اخلاقی حرکات پر سرزش کرنے کی بجائے بیٹی کو آگے سے یہ دلیل دی گئی کہ وہ لڑکا ہے اسے آزادی ہے تو نا چاہتے ہوئے بھی اس بیٹی کے ذہن نے سمجھ لیا کہ آزادی کا مطلب ہے الہڑ بازی اور سگریٹ نوشی۔ اسی طرح ہمارا ذہن معاشرتی رویے سیکھتا ہے اسے social learning کہا جاتا ہے۔

یہ جو ہم نے شور مچایا ہے ناں کہ لڑکیاں خراب ہو گئی ہیں ان کے نزدیک آزادی بے حیائی ہے۔ تو یہ سب آگ ہمارے معاشرتی رویوں کی ہی لگائی ہوئی ہے یہ frustration ہمارے معاشرے کی ہی پیدا وار ہے اور اب نکل کے باہر آرہی ہے۔ جو چیز خود بوئی ہے اب اسے کاٹنے سے آخر اتنا خوفزدہ کیوں ہیں؟

خیر ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی بھی اگر ہم ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں تو امید کی کرن نا ممکن ہر گز نہیں۔