خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس

خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس

خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس

از، جاوید احمد شاہ

شعبۂ اردو، یونیورسٹی آف جموں

اردو میں ’’تانیثیت‘‘ پر مکالمہ اب کوئی نیا موضوع نہیں رہا لیکن چونکہ قارئین کا ایک بڑا طبقہ ’تانیثیت‘ کے حقیقی معنی و مفہوم سے ابھی تک نا آشنا ہے اس  لیے تانیثیت کے حوالے سے ایک بار پھر چند معروضات پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ۸۰ ۱۹ء کے آس پاس عالمی سطح پر ’’ما بعد جد یدیت‘‘ کے حوالے سے جب نت نئے لسانی اور فکری نظریات و رجحانات theories) ) خودرو پودوں کی طرح منظر عام پرآنے لگے تو ادب نے بھی ان رجحانات اور نظریات کے اثرات قبول کیے ۔ظاہر ہے سماج میں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے ،ادیب اسے ا پنے شعور، اور اپنی تخلیقیت کا حصہ بناتا ہے اور یہی سب ساتویں دھائی کے بعد ادب کے ساتھ پیش آیا جب ideological explosion انسانی فکر کو بیسیوں سمت سوچنے پر مجبور کر رہا تھا تو خواتین ناول نگاروں نے بھی اس میں حصّہ لیا اور ان فکری موضوعات پر طبع آزمائی کرنے لگیں۔

ان فکری موضوعات میں ’تانیثیت‘Feminism) ( کے موضوع پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی. اور اس موضوع کو خواتین کے حلقوں میں توقع سے بڑھ کر پذیرائی ملی۔ در اصل ۷۰ ،۱۹۶۰ کے بعد کا دور جدید نظریات کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ کو محاصرے میں لے لیا اور علی الخصوص ادب پر جو انقلابی اثرات مرتب ہوئے اس میں خواتین نے بھی کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔یوں بھی کم و بیش سارے نئے لسانی و ادبی نظریات اور رجحانات زیادہ تر مغربی راستوں سے ہمارے ادب میں داخل ہوئے جیسے Romanticism, Idealism, Marxism ،Modernism اور Post -Modernism وغیرہ، اسی طرح Feminism کا تصور بھی اردو میں مغربی ادب کے حوالے سے ہی متعارف ہوا ۔

اردو ادب میں’ تانیثیت‘ کے موضوع پر گذشتہ تین دھائیوں سے مکالمہ جاری ہے۔ بیسویں صدی میں جہاں ہر کوئی اپنے مفاد اور حصولِ حق کے  لیے زمانے کے ساتھ نبرد آزما تھا وہیں خواتین نے بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے Feminism کے پلیٹ فارم پر مجتمع ہوکر اپنے حقوق کی خاطر صدائے احتجاج بلند کیا۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر چیز اپنے مثبت پہلو کے ساتھ ساتھ منفی اثرات کی بھی حامل ہوتی ہے۔اسی طرح سے ان نئے فکری رجحانات نے جہاں ادب میں موضوعاتی تنوع کو جگہ دی وہیں چند منفی اثرات مرتب کیے۔

    Feminism کیا ہے؟ بہت کم لوگ اس بارے میں صحیح واقفیت رکھتے ہیں ۔اکثر اس کے بارے میں گمراہ کن   رائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے Feminism کو سماج میں حقیقت کے بجائے ایک فتنہ تصور کیا جاتا ہے۔ تانیثیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین جنہیں معاشرے میں ایک مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور انہیں تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں۔پروفیسرشہناز نبی تانیثیت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

’’فیمنزم تحریکات کے مجموعے کا نام ہے جس کا مقصد عورتوں کو مردوں کے برابر سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق دینا ہے۔ مختلف دور میں پدری سماج میں عورتوں کی محکومیت کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہی ہیں۔ان تحریکات کے ذریعہ عورتوں کے حقوق کی تعریف مقرر کرنے، ان کی شناخت قائم کرنے اور تعلیم اور روزگار میں انہیں برابر مواقع دینے کی حمایت ہوتی رہی ہے‘‘۔     ۱؂

    ۱۹۶۰ء کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا ۔اس طرح ایک ایسا سماجی نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی جس میں خواتین کے  لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع دستیا ب ہوں ۔تانیثیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سماج میں women dominating culture کا برملا اظہار کرے بلکہ یہ اس کا منفی پہلو ہے ۔ اور نہ یہ مطلب ہے کہ عورتوں نے جو کچھ لکھا صرف اس کو تانیثیت کے زمرے میں شامل کیا جائے بلکہ مردوں کی لکھی ہوئی وہ تحریریں بھی جن میں تانیثیت کے عنصر نمایاں ہوں ان کو بھی تانیثیت کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اپنی اس بات کی تائید پرفیسر قدوس جاوید کی کتاب سے کے اس اقتباس سے کرنا چاہوں گا؛

’’عام طور پر ( خاص طور پر اردو ادب میں) عورتوں کے (لکھے ہوئے) متوں کو ہی تانیثیت کے دائرے میں رکھا جاتا ہے جو درست نہیں۔ اردو میں مراۃالعروس (نذیر احمد)، مجالس النسا( حالی)، ایک چادر میلی سی( راجندر سنگھ بیدی) وغیرہ طبقہ نسواں سے متعلق مردوں کی لکھی ہوئی تحریریں ہیں لیکن انہیں تانیثی ادب کی ذیل میں رکھا جاسکتا ہے‘‘۔     ۲؂

تانیثیت کو سب سے زیادہ مغرب میں پذیرائی ملی ۔ دراصل اس تحریک کا آغاز فرانسیسی انقلاب سے ہوتا ہے۔ صنفی مساوات کی یہ تحریک فرانس سے ہو کر یورپ اور امریکہ میں پھیلی ، یورپی دانشوروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی اور اس طرح رفتہ رفتہ ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے خوب سراہا ۔

میری وول سٹون کرافٹ Mary Wollstonecraft کی کتاب Vindication of the Rights of Women 1792 کو متفقہ طور پر تانیثی ادب کی اولین کتاب تسلیم کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے تانیثیت کی ترجمانی کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق اور تعلیم پر زور دیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کتاب انہوں نے Rousseau کے اس بیان کے جواب میں تحریر کی ہو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں موصوفہ نے عورت کے  لیے تعلیم و تدریس کو سب سے بڑا ہتھیار بتایا ہے جس کے ذریعے سے وہ نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں بلکہ مردوں کی ہمسر بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے بعد Margaret Fuller نے اپنی تصنیف Women in 19th Century میں اس دور کی عورتوں کے حالاتِ زار پر روشنی ڈالی ہے۔ فرانسیسی مصنف Simone de Beauvoir کی تصنیف TheSecond Sex تانیثی نقطۂ نظر سے اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ ورجینیا وولف کی بھی دو تحریریں تانیثی میدان میں ناقابلِ فراموش حیثیت رکھتی ہیں۔ اول A Room of one’s Own اور دوئم Three Guineas اول الزکر کتاب میں ورجینا وولف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر عورت کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے  لیے مواقع اور ذرائع مل جائیں تو وہ ایک بہتر مصنفہ بن سکتی ہے۔ مزید انہوں نے Shakespeare کی بہن ( خیالی بہن ) کو ان سے زیادہ ہنر مند بتایا ہے لیکن ان کی بہن کو وہ مواقعے دستیاب نہیں تھے اس لیے ان کا ہنر مند ہونا رایگاں ہو گیا۔Three Guineas میں انہوں نے عورت کو افق پر پہنچا دیا ہے جہاں ایک مرد عورت سے اصلاح لیتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کو کیسے ٹالا جا سکے۔

Jane Austen جین آسٹن کا شمار انگریزی کی بہترین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے تمام ناولوں میں تانیثی موضوعات کو نہایت اچھوتے اور عمدہ انداز سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے ناول Pride and Prejudice کا بنیادی متن دو لڑکیوں کی زندگی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ناول کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عورت کو کس طرح کے شخص کے ساتھ شادی کرنی چاہیے۔ ان کے دیگر ناولوں میں بھی شادی بیاہ کو نہ صرف سماجی رسومات تک مقید رکھا گیا ہے بلکہ زندگی کا مقصد عظیم اور ابدی فرحت و مسرت کا باعث مانا جاتا ہے۔ان کے نزدیک شادی ایک عورت کے  لیے اس کے مستقبل کی ضامن ہے۔ ان کے ناولوں میں ی irony اور ,humor کا بھر پور استعمال کیا گیا ہے۔

ورجینا ولف جن کا شمار شعور کی رو کی تکنیک کے چند بہترین مصنفوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عورت کی زندگی کی عکاسی اپنے ناولوں میں کی ہے۔ ان کا ناول Dalloway ایک عورت کی سوانح پر مبنی ہے ۔جہاں وہ اپنے ماضی کو نہ بھول سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل کو اپنے بس میں کر سکتی ہے بلکہ وہ ایک ایسے نظام میں ہے جہاں اس کو جو کردار دیا جاتا ہے اسے وہ نبھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح George Eliot کے ناولوں میں بھی ہمیں تانیثی فکر کی فراوانی ملتی ہے۔ ان کا ناول Mill on  the ٖFloss ایک بھائی بہن کی کہانی پر محیط ہے جہاں گھر والے بیٹے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اسی کی درس و تدریس کا اعلیٰ انتظام کیا جاتا ہے اور بیٹی کو ان تمام چیزوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ Bronte Sisters کی خدمات بھی قابل قدر ہے۔ Charlotte Bronte کا ناول Jane Eyre نسوانی کردار نگاری کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس ناول میں ایک نابالغ بچی کی زندگی کا اس کی بلوغیت اور ادھیڑ پنے تک پورا محاصرہ کیا گیا ہے۔ اس ناول کے اختتام پر ایک ایسی سطر درج ہے جس نے ادبی حلقوں میں تہلکا مچا دیا اور تمام روایتی قوائد و قوانین کوبدل ڈالا ’’ And readers I married him ‘‘ جہاں پر وہ تمام حدود کو توڑتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنا شوہر منتخب کرتی ہے اس ناول کوتانیثیت کا عروج مانا جاتا ہے۔ قبل اس کے مرد ہی اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرتا تھا مگر یہاں پر مصنفہ نے ایسے کردار کو جنم دیا جس نے روایت سے انحراف کر کے اس نظام کو بدل ڈالا۔ اس طرح انگریزی خواتین ناول نگاروں میں Anita Desai, Alice Walker, Margaret Atwood, Toni Morrison وغیرہ نے اپنے ناولوں میں’’ تانیثیت ‘‘کمال فکری، فنی اور جمالیاتی تازہ کاری کے ساتھ برتا ہے۔

آج اکیسویں صدی تک آکراردو ادب میں تانیثیت کا وجود ہر صنف ادب میں ملتا ہے۔ کئی باصلاحیت خواتین نے فروغ علم وادب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔خواتین نے نہ صرف ناول نگاری میں اپنا سکہّ جمایا بلکہ صحافت ،شاعری ،سیاست اور ادب لطیف جیسے سخت جاں شعبوں میں بھی اپنا لوہا منوایا اور اپنی فکری جہات کی چھاپ چھوڑی جس سے مردوں کے دوش بہ دوش انکی فکری پختگی کا بھی ثبوت منصّۂ شہود پر آیا۔ جو ں جوں ادب میں انقلابات رونما ہوئے خواتین نے بھی ہر محاظ پر بڑی سخت جانی سے male dominated society میں مردوں کے دوش بہ دوش اپنی ذہانت، اپنی ذمہ داری اور جانفشانی کا ثبوت فراہم کیااور ہر فکری اور علمی موضوع کو اپنی فکر ی ترجیحات کا مرکز و محور بنا یا۔

تانیثی نقطۂ نظر سے اردو ناول پر ناتیثیت کے اثرات یقیناً نذیر احمد کے ناول ’’ مراۃ العروس‘‘ میں تلاش کیے جاسکتے ہیں ، لیکن اردو ناول نگاری کو صحیح معنوں میں تانیثی فکر و شعور سے ہم آہنگ کرنے میں خواتین ناول نگاروں نے ایک منفرد رول ادا کیا۔اردو کی پہلی خواتین فکشن نگار رشیدۃالنساء نے تانیثیت کے حوالے سے اپنا پہلا ناول ’’ اصلاح النساء‘‘ لکھا۔ اس کے بعد صغرا ہمایوں نے ’’ تحریر النساء ‘‘ ، ’’ موہنی ‘‘، ’’مشیر نسواں‘‘، ’زہرہ ‘‘اور ’’ سر گزشت ہاجرہ ‘‘ کے عناوین سے ناول لکھیں۔ ان تمام تحریروں میں خواتین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی تربیت پر بھی زور دیا ہے ۔اردو ناول نگاری میں قرۃالعین حیدر اور عصمت چغتائی نے خواتین کے ادب کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ عصمت چغتائی کا نام اردو ادب کی تاریخ میں اپنے تانیثی فکروشعور کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ عصمت کے تقریباً سبھی ناولوں کا موضوع گھریلوں زندگی ہے۔ عورت کے حوالے سے عصمت کے ناولوں میں جنسی حقیقت نگاری کا پہلو بھی سامنے آتا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی عورت کو سچائی کے ساتھ عورت ہی کے روپ میں سماج کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اگر ناول ’’ ٹیڑی لکیر‘‘ کی بات کی جائے تو اس میں بھی تانیثی کردار موجود ہے جو اپنے حقوق کے  لیے آواز اٹھاتے ہیں ۔ ’’ٹیڑی لکیر‘‘ کی ’’ شمن‘‘متوسط گھرانے کی ایک عورت کی نفسیات، جذبات اور اس کے احساسات کی ترجمان ہیں۔ بقولِ شبنم آرا

’’ تانیثی نقطہ نظر سے شمن ہمارے سامنے ایک جدید عورت کی علامت بن کر ابھرتی ہے کیونکہ اس کے اندر روایت سے بغاوت اور اپنی پسند کے مطابق زندگی جینے کا حوصلہ و جذبہ پنہاں ہے۔ وہ اپنی زندگی کی راہ خود طے کرتی ہے جسے اپنے  لیے مثبت تصور کرتی ہے۔ اس کی زندگی پر سماج اور اس کے بوسیدہ روایات کا کوئی بس نہیں چلتا ہے‘‘۔    ۳؂

    مندر جہ بالا اقتباس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ’’شمن ‘‘ کاکردار نہایت مکمل کردار ہے۔ وہ روشن خیال ہی نہیں بلکہ باغی بھی ہے جو بوسیدہ رسم و رواج ، ضابطہ اخلاق اور سماجی آداب و اقدار سب سے بغاوت کرتی ہے۔عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں تانیثیت کی بھر پور عکاسی کی ہیں اور جس طرح انھوں نے عورتوں کے مسائل اور ذہنی کشمکش کی تصویر کشی کی وہ کسی اور خاتوں تخلیق کار کے یہاں نظر نہیں آتی۔

جیلانی بانو اردو کی مشہور و معروف فکشن نگار ہیں، انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کے مختلف مسائل خصوصاً سرزمینِ حیدرآباد کی معاشرتی وسیاسی فضا، تہذیبی وثقافتی زندگی کے ساتھ ساتھ عورت کی حیثیت اور ان کی زندگی کے مسائل کی عکاسی کی ہے ۔ انہوں نے اس معاشرے میں اعلیٰ طبقے کی عورتوں کی دہری زندگی کے المیے کو بڑی خوبصورتی سے اجا گر کیا ہے ۔ جیلانی بانو کے دو مشہور ناول ’’ایوان غزل ‘‘اور ’’بارش سنگ ‘‘ہیں ۔ ایوان غزل کے موضوع کے بارے میں مشرف علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

’’اس ناول میں زوال خوردہ جاگیر دارانہ نظام سے پیدا شدہ حالات وحقائق کو یکجا کرکے انھوں نے اس معاشرے کی کھوکھلی روایات اور اقدار کو بے نقاب کیا ہے ۔ جہاں عورتوں کے حالات ومسائل ،ضعیف الاعتقادی ، مذہبی ریاکاری ، فرسودہ رسم ورواج ، مشترکہ تہذیب وکلچر ، نئی اور پرانی تہذیبوں میں کشمکش ، مظلوموں اور کسانوں کا استحصال ، استحصالی نظام کے بطن سے پیدا ہونے والی نئی قوتیں اور ان کی مسلح بغاوت کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے ‘‘۔     ۴؂

جیلانی بانو نے ایوانِ غزل میں عورت کو دو طریقوں سے دکھانے کی کوشش کی ہے ایک یہ کہ عوت مظلوم ، محکوم اور بے بس ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کے اندر اتنی قوت بھی ہوتی ہے کہ وہ اگر اس استحصالی سماج کا نشانہ بنتی ہے تو باغی بن کر مردانہ ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی لکھتے ہیں ؛

’’ ایوانِ غزل میں عورت کوایک الگ مخلوق ماننے کے بجائے اس مردانہ بالادستی والے معاشرے میں عام انسانوں کا ہی ایک حصہ تسلیم کیا گیاہے۔ اس نظام میں یہ عورت دوسری سبھی عورتوں کی طرح کمزور ، مجبور اور محکوم ہے۔ دوسری جانب وہ بہت حساس ، بیدار ذہن ، نڈر اور باغیانہ طبیعت کی حامل بھی ہے‘‘۔    ۵؂

خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس کے حوالے سے کسی بھی مقالے میں محترمہ واجدہ تبسم کا نام لازمی طور پر لیا جاتا ہے ۔ ’’ کیسے کاٹوں رین اندھیری ‘‘اور ’’نتھ کی عزت ‘‘ ، ’’پھول کھلنے دو ‘‘ ان کے مشہور ناول ہیں ،جن میں موصوفہ نے حیدرآباد دکن کی خاص مسلم تہذیب کو اجا گر کرنے کی سعی کی ہے ۔ واجدہ تبسم کے ناولوں کا ایک مرکزی موضوع طوائف رہا ہے ۔ حیدرآبا دی معاشرت میں طوائف کا کردار اس کی زندگی کے نشیب و فراز ، اس کی خوشیاں ، اس کے غم ، اس کی خواہشیں اور گھریلو زندگی پر اس کے اثرات کا تجزیہ بڑی خوبی کے ساتھ واجدہ تبسم نے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ ’’نتھ کی عزت ‘‘اگر چہ ایک مختصر ناول ہے لیکن اس میں ’’حیا ‘‘ نامی طوائف کے جذبات واحساسات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ’’ کیسے کاٹوں رین اندھیری ‘‘بھی حیدرآباد ی ماحول پر لکھا گیا ایک دلچسپ اور عبرت آموز المیہ ناول ہے ۔اس ناول میں مصنفہ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح طوائفوں کے کی وجہ سے ہنستے بستے گھر برباد ہوجاتے ہیں ۔

حیدرآ باد کی سماجی زندگی میں طوائف کے ناسور نے جو تباہیاں مچا رکھی تھیں، ان کا بیان ہی دراصل ’’کیسے کاٹوں رین اندھیری ‘‘ کا موضوع ہے ۔اس وجہ سے یہ ناول ایک اصلاحی فن پارہ بھی ہے ،جسے ناول کے پیرائے میں لکھ کر مصنفہ نے ایک قابل قدر خدمت سر انجام دی ہے ۔ان کے ساتھ ہی بیگم شاہنواز نے اپنے ناول ’’حسن آرا ‘‘ضیا بانو کے ناول ’’انجام زندگی ‘‘اور فریب زندگی ‘‘،محمدی بیگم کے ’’شریف بیٹی ‘‘ اور قرۃالعین حیدر کی والدہ نذر سجاد حیدر کے ناولوں ’’آہِ مظلوماں،ثریاِ اور’’ حرماں نصیب ‘‘ وغیرہ میں بھی تانیثی ڈسکورس کے عناصر نمایاں ہیں۔

ان کے علاوہ آج کی تاریخ میں جن خواتین ناول نگاروں کے یہاں تانیثی ڈسکورس خاص طور پر نمایاں ہے ان کی فہرست طویل ہیں مثلاً تلاشِ بہاراں ( جمیلہ ہاشمی) ، آبلہ پا( رضیہ فصیح احمد)، راجہ گدھ (بانو قدسیہ)، آنگن (خدیجہ مستور) ، یا جن خواتین ناول نگاروں کے ناولوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے ناولوں میں عصرِ حاضر کے سماجی اور ثقافتی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس پس منظر میں خاص طور پر بر صغیر میں عورتوں کو ان کا صحیح اور منصفانہ مقام دلوانے کا جذبہ کار فرما ہے۔ مردوں کی طرح خواتین نے بھی ہر قسم کے سماجی، اصلاحی، اخلاقی اور تہذیبی ناول لکھ کر اپنے سماجی شعور اور فنی پختگی کا لوہا منوایا۔

ابتدائی دور میں ان کے موضوعات میں حصولِ علم خاص طور پر تعلیم نسواں، بچپن کی شادیاں اور پھراس سے پیدا شدہ بے شمار مسائل ، شرم و حیا کی پاسداری اور عورت کی روایتی وفاشعاری وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ حصولِ آزادی کے بعد جہاں اردو ناول نگاری میں تاریخ اور فسادات کو بڑے پیمانے پر بطور موضو ع اپنایا گیا ہے وہیں رقیق القلبی، رومان ، عورتوں کے مسائل اور دیگر موضوعات ناول نگاری کا جز و لاینفک بن گئے ہیں۔ خواتین نے ہر موضوع اور معاملہ میں اپنی ہنر مندی کا ثبوت دنیائے علم و ادب کو فراہم کیا۔

’’ تانیثیت ‘‘اردو کی خواتین ناول نگاروں کے یہاں اپنے صنفی جذبات و کیفیات کے علاوہ مسائل کے اظہار کا بھی ایک وسیلہ ہے لیکن خواتین ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ کئی مرد ناول نگاروں نے بھی مثلاً اقبال مجید، جوگندر پال ، شموئل احمدوغیرہ نے بھی عورتوں کے مسائل کو اپنے ناولوں میں تخلیقی اعتبار سے برت کر اردو میں تانیثی ڈسکورس کو مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا سے لے کر آج تک اردو ناول نے ہر دور میں عصری مسائل اور حقائق کو پیش کیا ہے لیکن چونکہ عورت بھی ہر زمانے میں معاشرے کے مرکز میں رہی ہے اس لیے مرد ناول نگاروں کے ناولوں میں بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر طبقہ نسواں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ کار فرما رہا ہے لیکن خواتین ناول نگاروں کے یہاں تانیثی ڈسکورس کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ برصغیر کے روایت پسند معاشرہ میں بھی عورت اب مردوں کے شانہ بہ شانہ زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ۔قرأۃ العین حیدر ،عصمت چغتائی ،جیلانی بانو،بانو قدسیہ ،خدیجہ مستور،رضیہ بٹ، نمرہ احمد، عمرہ احمد، ترنم ریاض، شائستہ فاخری، لالی چوہدری، زاہدہ حنا، شہناز نبی، وغیرہ ایسے نام ہیں جن کی جنبشِ قلم سے ایسے فکری پودے پھوٹے جو ادبی دنیا میں تناور درختوں کی شکل میں نمودار ہوئے اور جن کے سائے دور دور تک اردو ادب میں دکھائی دیں گے۔

حواشی:

۱۔    فیمنزم تاریخ و تنقید، شہناز نبی،رہروانِ ادب پبلی کیشنز، کولکاتا، ص ۱۷۔

۲۔    متن، معنی تھیوری، پروفیسر قدوس جاوید، ماڈرن پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی، ص ۱۵۲۔

۳۔    تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول، شبنم آرا، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی، ص ۲۰۳۔

۴۔    جیلانی بانو کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی، ص۳۳۔

۵۔     اردو ادب میں تانیثیت، ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس نئی دہلی، ص ۵۳۴۔