ماہین نے آج زہر کھا لیا …؟
از، علی ارقم
میرا نام ماہین ہے۔ میں نے آج زہر کھا کر خود کُشی کر لی۔ اس وقت ایک سرد خانے میں پڑی ہوں کیوں کہ دوسرے شہر میں نوکری کرنے والے ہم نو بہنوں کا اکلوتا بھائی میری تدفین کے لیے آ رہا ہے جب کہ ابَّو بھی شہر سے باہر ہیں لیکن وہ میرے جنازے پر نہیں آ رہے، اُنہوں نے میری خود کُشی کی خبر سُن کر خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں نہ دروازہ کھول رہے ہیں، نہ ہی فون اُٹھا رہے ہیں۔
صرف ایک بار فون کیا اور پُھوپھی سےکہا کہ میں نہیں آ رہا اور امّی سے بات بھی نہ کی؛ کہا میں نہیں کرنا چاہتا، اس نے میری بیٹی کو مار ڈالا۔
میری کہانی میں کوئی نئی بات نہیں، نو بہنوں میں میرا دوسرا نمبر ہے، میری شادی ہو چکی تھی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی میں ابُّو کے گھر آ گئی۔
پر میں نے کیوں گھر چھوڑا اس لیے کہ میں شوہر کی مار کھا کھا کر تنگ آ گئی تھی۔ وہ گھر کے پاس ہی اپنی فرنیچر کی دُکان سے جب بھی گھر پر آتا جنسی اختلاط کے لیے اصرار کرتا، میں عاجز آ گئی تھی اس عادت سے۔ پھر اگر انکار کرتی تو بات بے بات مارتا رہتا۔
عام طور پر کھانے پینے، کام کاج میں عیب نکال کر مارتا، کبھی مذہب کا دورہ پڑ جاتا، نماز پڑھنے لگتا تو پھر جھگڑے کے لیے نیا جواز کہ میں پردہ ٹھیک سے نہیں کرتی؛ کبھی کام کے دوران آستانیں چڑھائے رکھنے پر مار تو کبھی بڑی چادر نہ لینے اور سینہ اچھی طرح نہ ڈھکنی پر پٹائی،… کب تک سہتی! ابو کے گھر آ گئی، ابو کو پوری بات تو نہ بتائی لیکن مار پیٹ کا تذکرہ ہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ لینے نہ آئے جانا مت۔ پہلے ہم بات کریں گے۔
وہ بات کرنے پہ تیار نہ ہوا اور ابو نے مجھے جانے نہ دیا؛ سو اس کی ماں نے ہمیں سبق سکھانے کے لیے دوسری شادی کرا دی۔
اب میں کہاں جاتی سو جب عدالتی کارِروائی کے دوران اس نے قسمیں کھائیں، وعدے کیے تو میں یہ سوچ کر ساتھ ہو لی کہ ابُّو کو بعد میں منا لوں گی۔
ویسے بھی جب خلع کا کیس چل رہا تھا تو سب کہہ رہے تھے کہ کوئی سمجھوتہ کر کے گھر ٹوٹنے سے بچ جاتا تو اچھا تھا پر ابُّو مان نہیں رہے تھے۔ میں نے اپنے تئیں سوچا کہ کل کو ابُّو خلع دلوا کے پچھتائیں میں گھر بچانے کی ایک اور کوشش کر لوں۔ گو وہ میری غلط فہمی ہی تھی کہ میرا شوہر شاید بدل گیا ہو سو پھر وہی مار پیٹ؛ سو میں ایک ماہ میں ہی ابو کے گھر چلی آئی۔
میں یہاں امی کے گھر سارا دن نوکروں کی طرح کام میں جٹی رہتی ہوں، گھر میں موجود چار بہنوں سے میں سے کسی سے ذرا تکرار ہو جائے تو امی کے طنز کے نشتر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سو چُپ چاپ کام کرتے رہنا ہی بھلا۔
آئے روز امی کی تان اس بات پر آ کے ٹوٹتی ہے کہ اچھی بھلی تمھیں عدالت سے خُلع مل رہی تھی کہ تم اس کم بخت شوہر کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئی اور کورٹ سے اس کے ساتھ گھر چلی گئی، لیکن وہاں بھی ایک ماہ ٹکی نہیں اور پھر یہاں چلی آئی۔
میں اُسے کیا بتاتی کہ امی، میں نے وہ گھر دو بارہ اپنی بیٹی کی خاطر چھوڑا۔ جہاں میرا جنسی مریض شوہر مشترکہ مکان کے اپنے حصے کے اس ایک کمرے میں ہم دو بیویوں کو ایک ہی بستر پر ساتھ سُلانے پر اصرار کرتا تھا اور میرے انکار پر میرے سامنے دوسری بیوی کے ساتھ اختلاط کرتا تھا۔ میں نے سوچا میرا تو جو حال ہے سو ہے، پر یہ سب میری بیٹی پر اثر انداز نہ ہو۔
میری بیٹی لائبہ مجھے بڑا پیار کرتی ہے۔ چھالیہ کھانے لگتی ہے تو آدھا پیکٹ بچا کے میرے لیے رکھ لیتی ہے۔ چھوٹی ہے لیکن سب سمجھتی ہے۔ اُس دن میری کزن کی بیٹی یُسریٰ سے کہنے لگی کہ تمھارے ابّو اور میرے ابو کا نام ایک ہی ہے لیکن تمھارے ابو اچھے ہیں اور میرے ابو گندے۔ انہوں نے مجھے اور امی کو گھر سے نکال دیا اور دوسری شادی کر لی۔
شام کو جب میری طبیعت بگڑتی دیکھ کر امی مجھے ہسپتال لانے لگی تھی تو وہ گلی میں کھیل رہی تھی۔ جانے کس نے اسے میرے مرنے کی خبر دے دی اور وہ روتی رہی۔
اب جب میں یہاں سرد خانے میں پڑی ہوں وہ وہاں گھر میں رو رو کر سو گئی ہے۔
امی کہتی تھی میری خلع ہو جاتی تو شاید پھر سے میرا گھر بس جاتا۔ مجھے امید تھی کہ شاید میرے شوہر کو ویسے ہی مجھ پر رحم آ جائے گا اور وہ طلاق بھجوا دے گا، کیوں کہ دو بارہ کورٹس کے چکر کاٹنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔
میری شادی شدہ بہنیں اور کزنز کبھی کبھار مجھے تھوڑے بہت پیسے دیتے تو میں کہتی کہ چلو اس بار کسی مال دار بوڑھے سے شادی کروں گی تو تم سب کا حساب سود سمیت لوٹا دوں گی؛ پر اب تو میں جا چکی ہوں امید ہے وہ مجھے معاف کر دیں گے۔
امی بے چاری شوگر کی مریض کو میں نے بہت رلایا۔ پیاری امی میرا گھر نہ بسا، سو اپنی بیٹی چھوڑے جا رہی ہوں۔ اسی میں مجھے ڈھونڈ لینا اور ہاں اس بار رشتہ دیکھ بھال کرنا۔
یہ بھی کسی غیر متوازن اور جنسی مریض کی ہوَس کاریوں کی نظر نہ ہو جائے۔