معاشرے کیسے چلتے ہیں
از، طارق احمد صدیقی
انسانی معاشرہ یا سماج نام ہے ایک نظام کا جو ضابطے اور قاعدے سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اور جہاں بھی کوئی ضابطہ اور قاعدہ موجود ہوتا ہے۔ اس میں جائز و نا جائز اور حرام و حلال کی تفریق بھی لازماً کی جاتی ہے، ورنہ وہ ضابطہ یا نظام باقی نہیں رہ سکتا۔
ہمارا جو مروجہ سماجی نظام ہے اس کے اندر بھی حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق کرنا ضروری ہے۔ اس سماجی نظام کی بنیاد نکاح کے طریقے پر عمل کرنے سے پڑتی ہے۔ یہ طریقہ کسی ایک شخص یا جماعت یا مذہب نے نہیں بنایا بل کہ اس کا ارتقاء انسانی تاریخ کے اندر فطری رجحانات کے زیرِ اثر اثر ہوا ہے۔ جیسے دنیا کی ہر زبان کا ایک قاعدہ اور ضابطہ ہے، اور جس کو کوئی ایک شخص، یا جماعت کسی پیشگی اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں بناتی، بل کہ زبان کے قواعد و ضوابط انسان کے فطری رجحانات کے تحت آپ سے آپ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح سماجی اور خاندانی نظام بھی آپ سے آپ انسانی فطرت کی رُو سے وجود میں آتے ہیں۔ جس طرح ایک ادبی نقاد کے نزدیک ایک شعر وزن اور بحر کے اندر یا باہر، اعلی یا ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے، یا کوئی فن پارہ معیاری یا غیر معیاری، حقیقی یا خیالی قرار پاتا ہے، اسی طرح ایک سماجی نظام کے اندر اہلِ فکر و نظر اور دیدہ ور خواتین و حضرات ہوتے ہیں جو کسی انسانی رویے یا عمل کو اعلیٰ اور ادنیٰ، اخلاقی یا غیر اخلاقی میں تقسیم کرتے ہیں، اور اپنے اپنے مؤقف کے حق میں معاشرہ اور سماج کی رائے عامہ کو ہم وار کرتے ہیں جس کی بناء پر کثرت آراء سے قانون سازی ہوتی ہے اور عدالتیں کام کرتی ہیں۔
لیکن انسانی معاشرہ کا نظام کوئی جامد اور بندھی ٹکی چیز نہیں ہے کہ اس میں کبھی کوئی تغیر نہ ہو اور یہ بیجان مادوں اور خس و خاشاک کی طرح بَہ عینہٖ مادی قوانین جیسے قوانین پر بہتا رہے۔ قوانین ہی نہیں بل کہ معاشرے کی بعض انتہائی بنیادی قدروں میں بھی وقت کے ساتھ تبدیلی نا گزیر ہے۔
البتہ یہ کہنا ممکن نہیں کہ انسانی معاشرہ کی ہر ایک قدر، ہر ایک اصول، ہر ایک اخلاقی تصور ہر ایک سطح پر تغیرات کی زَد پر ہوتا ہے۔ بعض انسانی قدریں، اصول و اخلاق ازلی و ابدی اور شاشوت اور سناتن بھی ہوتی ہیں۔
انسانی تہذیبوں اور قوموں کو یہ دیکھنا ہے کہ فِی الواقِع وہ کون سی قدریں اور اخلاقی تصورات ہیں جو وقتی و زمانی ہیں، اور کون سی شاشوت اور سناتن ہیں۔ اور یہ دیکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ عقل و خِرَد اور آزادانہ غور و فکر، اور اس کی بنیاد پر تفصیلی تبادلۂِ خیال اور ایمان دارانہ مکالمے کے عمل کو انجام دیا جائے نہ کہ محض کسی مذہبی کتاب کے لکھے ہوئے کو آخری حجت مان کر اس کی رُو سے دنیا کو راہِ راست کی طرف دعوت دی جائے۔
یہ طریقہ دنیا میں نہ کبھی کام یاب ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ مذہبی کتب و دساتیر بھی دیگر تمام قانونی متون کی طرح ایک خاص عہد اور سیاق میں وجود میں آتے ہیں اور جس طرح کسی دنیاوی قوانین اور ان کے متن میں ارتقائی نسخ و ترمیم کا عمل جاری رہتا ہے، اسی طرح منقولات مذہبی میں بھی ضروری ہے ورنہ صفحۂِ ہستی سے مٹ جانے میں ہر گز کوئی دیر نہیں لگتی۔ انسان اپنی ہیئت میں دیگر مادی اشیاء کی طرح قانون عادت کا گرفتار نہیں کہ ہمیشہ یک ساں حالت میں رہے۔
جو خواتین و حضرات اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، ان میں بہتیرے ایسے ہیں جو کسی مذہبی کتاب کے فرمُودات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور ساری دنیا سے اس کی پا بندی کا مطالبہ فرماتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بین تہذیبی و بین مذہبی مکالمہ کا ہر عمل نا کام ہو جاتا ہے۔
مکالمہ کا بنیادی اصول یہی ہے کہ کچھ ہم ترک کریں، اور کچھ آپ ترک کریں، کچھ باتیں ہم آپ کی مانیں اور کچھ آپ ہماری، ورنہ پھر مکالمہ کیا ہی کیوں جائیں؟ اگر ہر ایک جماعت کہے کہ اس کا تصورِ حیات ہی صحیح اور بقیہ سب باطل، تو پھر یہ مکالمہ نہیں جدل ہے، اور اس کے بعد امن و آشتی کا تصور کرنا محال ہو جاتا ہے۔
اور یہ کب ممکن ہے کہ ہم صرف ایک دوسرے کو جان سمجھ کر رہ جائیں اور اپنے اپنے طریقے پر ایک دوسرے سے مکمل علیحدہ رہتے ہوئے عمل کرتے رہیں۔ دنیا اب ایک گاؤں کی صورت اختیار کر گئی ہے اور یہاں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کا سابقہ دوسری قوموں سے نہ پڑتا ہو، اور وہ کسی نا دریافت جزیرے میں الگ تھلگ رہ رہی ہو۔
یہاں ایک قوم کو دوسری قوموں سے لازماً ربط و ضبط رکھنا ہو گا اور اسی ربط و ضبط کو حقیقی بنیادوں پر استوار کرنے کی راہیں دریافت کرنا اجتہادِ فکر کی بلند ترین منزل ہے؛ اور ہر ایک دانش ور کا فرض ہے کہ وہ اس بلند ترین منزل تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ ایسے ہی دانش وروں کو عالمی سطح کا دانش ور کہا جا سکتا ہے نہ کہ ان مفکروں کو جو مذہبی آیات و روایات کو حجت بنا کر ان کے دائرے میں رہتے ہوئے محض اپنے دین اور ملت کی سر بلندی و سر فرازی کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔