نائن الیون کے بعد دنیا کس طرح تبدیل ہوئی
(سید کاشف رضا)
آج کی روحِ عصر کیا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کے ڈانڈے فلسفے سے جا ملتے ہیں۔ میں اتنی اونچی پرواز کی کوشش نہیں کروں گا اور صرف یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ میرے نزدیک وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو نائن الیون کے بعد کے دور کو اس سے پچھلے دور سے ممتاز کرتی ہیں۔ اور میں کیوں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلیاں ہمارے ادب میں ایک نئی خود نگری، ایک نئے اظہار کی متقاضی ہیں ۔ اور پھر یہ بھی کہ پاکستانی ادب میں ان تبدیلیوں کی غمازی کہاں تک ہو سکی ہے۔ اس تبدیلی کے اثرات فکشن اور غزل میں بھی دیکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن میں اپنی محدودات کے سبب ان کے میدانوں
میں خیال کے گھوڑے دوڑانے سے فی الحال قاصر ہوں، اس لیے صرف پاکستانی اردو نظم میں ہی ان کے اثرات کھوجنے کی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلے یہ ذکر کہ نائن الیون کے بعد امریکا اور باقی دنیا، خصوصاً یورپ کس انداز میں تبدیل ہوئے۔ نائن الیون ایک سو نوے برسوں میں امریکی سرزمین پر ہونے والا پہلا بڑا حملہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ہوائی پر حملہ کیا تھا مگر ہوائی کے جزائر امریکا کے مین لینڈ سے دور واقع ہیں۔ امریکا کی سرزمین پر آخری بڑا حملہ ۱۸۱۱ء میں برطانیہ نے کیا تھا جس نے واشنگٹن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر وائٹ ہاؤس کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ اب ایک سو نوے سال بعد امریکی سرزمین پر حملہ ہوا تو وہ امریکا کے لیے ایسا ہی تھا جیسے کوئی کمّی کمین کسی جاگیردار کو اس کی چراگاہ کے اندر جا کر چیلنج کر دے۔ اور امریکی ہئیت مقتدرہ نے اس کا انتقام بھی کسی ہتھ چھٹ جاگیردار ہی کی طرح لیا۔ اس کے بعد جو جنگ چھڑی اس کا میدان عراق، افغانستان اور پاکستان بنے ،جہاں لاکھوں معصوم شہری امریکا اور اس کے حریفوں کی لڑائی میں مارے گئے۔ گیارہ ستمبر کے فوری بعد ہی امریکا میں یہ کہا جانے لگا تھا کہ اب دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ امریکا میں انسانی آزادیوں کو محدود کر دینے کی مہم چلی اور تہذیبی و سماجی ڈسکورس میں نیو کونز (Neo Cons )نمایاں ہونے لگے جنھوں نے پیشگی حملوں (preemptive strikes )کا فارمولا پیش کیا۔ اس کے بعد سے اب تک پوری دنیا، بالخصوص عراق، افغانستان اور پاکستان، میں لاکھوں معصوم اور بے گناہ افراد امریکی نیو کونز کی وحشت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ امریکی ہیئتِ مقتدرہ کے کارپردازوں کے جرائم اتنے سنگین ہیں کہ انھیں بھی جنگی جرائم کے الزام میں نیورم برگ ٹرائل جیسے عالمی انصاف سے گزارا جا سکتا تھا، لیکن دنیا ابھی ایسے انصاف سے بہت دور ہے۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: مابعد نائن الیون مغرب میں مطالعہ اسلام از ڈاکٹر نجیبہ عارف
اگر نائن الیون کے حملے میں صرف امریکی ہی مارے جاتے تو شاید اس کے اثرات اتنے عالم گیر طور پر محسوس نہ کیے جاتے۔ لیکن اس حملے کی نوعیت تاریخ کے کسی بھی دوسرے حملے سے زیادہ ہمہ گیر تھی۔ حملے میں انیس ہائی جیکروں کے علاوہ 2,977 افراد مارے گئے جن میں امریکا کے علاوہ نوے ملکوں کے تین سو تہتر شہری بھی شامل تھے۔ یہ گلوبل مرگِ انبوہ ،جو کئی حلقوں میں جشن کی طرح پیش کی گئی، پاکستان کے بھی آٹھ شہریوں کو نگل گئی۔
یورپ جو ہماری موجودہ تہذیب کا فکری مرکز ہے، اس حملے سے ہزاروں میل دور تھا۔ دنیا کی آخری جنگ عظیم کا مرکزی میدان یورپ ہی تھا جہاں کروڑوں افراد مارے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کے علاوہ باقی ریاستوں نے ہوسِ ملک گیری تج کر اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کر دی تھی۔ ان ملکوں کا تہذیبی ڈسکورس اجتماعی طور پر ویلفیئر اسٹیٹ اور انفرادی طور پر بابر بہ عیش کوش کے فلسفوں کی جانب رجحان رکھتا تھا۔ لیکن نائن الیون کے حملوں کے بعد یورپی عوام کی اکثریت نے بھی یہ خوف محسوس کیا کہ اگر امریکا کے بڑے بڑے شہر دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہ سکے تو اپنے دفاعی اخراجات نہایت ہی کم کر دینے والی ان کی حکومتیں خود انھیں ایسی آفات سے کہاں تک محفوظ رکھ سکیں گی۔ یہی خوف تھا جس نے ایک اور ڈسکورس کو دبا دیا جو ممکن بھی تھا اور زیادہ مثبت بھی ثابت ہوتا۔ اور وہ ڈسکورس تھا حملہ آوروں کے غصے کی جڑوں کی تلاش کے مطالبے کا۔ دنیا میں فساد کی سب سے بڑی جڑ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے مطالبے کا۔ سو یورپ پکے ہوئے پھل کی طرح چھوٹے بش کی جھولی میں آ گرا۔ سوشلزم سے آزاد ہونے والا مشرقی یورپ نئی محبوبہ امریکا سے ملنے کے اشتیاق میں مغربی یورپ سے بھی چار ہاتھ آگے نکلا اور اتحادی افواج میں شمولیت کے لیے ہر طرف سے آمنّا و صدّقنا ہونے لگی۔ اس کے صلے میں مشرقی یورپ کو چھوٹے بش سے ’نیو یورپ‘ کا خطاب ملا۔ نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے ایک سوال اٹھایا تھا: why do they hate us
لیکن ایسا ہی ایک سوال ہم بھی تو مغرب سے کر سکتے ہیں کہ : why do they hate us
چلیے امریکا کے کسی تخلیق کار کے بجائے یورپ چلتے ہیں۔ فرانس کے ایک نئے ناول نگار مشیل ویل بیق Michel Houellebecqنے نائن الیون سے کچھ ہی پہلے ’پلیٹ فارم‘ کے نام سے ایک ناول لکھا تھا۔ اس ناول میں ہمیں نائن الیون سے پہلے ہی ایک بڑے تہذیبی تصادم کی پیش گوئی کی صورت ملتی ہے۔ مشیل ویل بیق کا ہیرو اپنی تہذیب کا کوئی جہادی نہیں؛ وہ تو بس اپنی زندگی سکون سے گزارنا چاہتا ہے، اور اپنی اس خواہش میں وہ پورے یورپ کا مثیل ہے۔ وہ یورپ جو ایک پنشن یافتہ بوڑھے کی طرح اپنی آرم چیئر پر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ناول میں ہیرو کے باپ کو فرانس میں مقیم ایک عرب لڑکی کے رشتہ دار ’کاروکاری ‘ کے الزام میں قتل کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد ہیرو اپنے باپ کا پیسہ اور ایک محبوبہ لے کر دنیا بھر کی عیش کرتا پھرتا ہے۔ یہاں تک کہ تھائی لینڈ میں ایک مسلمان بم بار کے ہاتھوں اس کی محبوبہ کا خون ہو جاتا ہے۔ یہ ناول ہمارے اس سوال کا جواب ہے جو میں نے اوپر درج کیا۔ اور جواب فلم سنگم کے مشہور تالاب والے گانے میں آنے والے اس ڈائیلاگ سے مشابہ ہے کہ: ’چھوڑو نا، کیوں ستاتے ہو۔‘‘
ایک مرتبہ پھر یاد دلا دوں کہ یہاں میں صرف یورپ کی بات کر رہا ہوں، اس یورپ کی جو اب دنیا کے کسی جھگڑے جھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا اور اس یورپ میں برطانیہ اور فرانس کی ہیئتِ مقتدرہ شامل نہیں جو امریکی ہئیتِ مقتدرہ اور نیو کونز کے ساتھ شامل باجا کے طور پر کام کرنے پر بہ دستور تیار ہے۔ عراق جنگ کے دوران یورپی بائیں بازو اور لبرل ازم کے لاکھوں حامیوں نے مظاہرے کیے، لیکن شاید ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کی یادداشت اتنی اچھی نہیں۔ وہ یورپ کی ساری تہذیب کو سمندر میں غرق کرنے کے قابل سمجھتے ہیں اور شاید ساتھ ہی وہاں کے باشندوں کو بھی۔
اس امن پسند یورپ میں بھی مذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یورپ کے بڑے شہروں میں تارکین وطن بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو وہاں جذب (assimilate ) بھی ہو رہے ہیں لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی۔ انگریزی ادیب حنیف قریشی کے مشہور افسانے ’میرا بنیاد پرست بیٹا‘ میں ایسی ہی صورتِ حال پیش کی گئی ہے جہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور باپ تو انگلستان کی سوسائٹی میں گذارا کر لیتا ہے لیکن اس کا بیٹا تہذیبی بے گانگی کا شکار ہو کر اپنی مذہبی جڑوں کی تلاش میں بہت دور نکل جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں بس جانے والے مسلمان تارکینِ وطن کے ہاں اور بھی کئی طرح کے تضادات نمایاں ہو رہے ہیں۔ اسی یورپ میں بہت سے علمائے کرام بھی اپنے اپنے فرقوں اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے ساتھ جا پہنچے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو برطانیہ اور فرانس میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ان یورپی ریاستوں کا قصور یہ ہے کہ وہ ہر سال لاکھوں غیر ملکیوں کو شہریت دیتے ہیں۔ کیا یورپ میں نفاذِ شریعت کے حامی یہ علماء اور ان کے چیلے سعودی عرب یا کسی اور عرب ملک میں جا کر ،شہریت تو دور کی بات ،اپنے خیالات کی تبلیغ بھی کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ مغرب میں صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی کا فلسفہ مروج نہیں، اور بھی کئی سیاسی فلسفے باہم مزاحم ہیں، لیکن ان سب کی بنیاد عقلیت پسندی پر ہے۔ یہاں یہ بحث میرے موضوع سے باہر ہے کہ ہمارا نظریہِ علم اور نظریہِ حقیقت کس کس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور کس کس کسوٹی پر پورے نہیں اترتے؛ لیکن ایک تہذیب، جو سیکڑوں سال کی فکری روایت کی وارث ہے، کیسے یہ گوارا کر لے گی کہ ایک پرائی تہذیب صرف اپنے تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی کے زور پر اس کی فکری نہج اور اس کے سیاسی ، قانونی اور ریاستی اداروں کی ہئیت تبدیل کر ڈالے؟ اگر ہمارے مذہب پسند وہاں اپنی سرگرمیاں بڑھائیں گے تو انھیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ بہ قول انور شعور ’اگر تم گالیاں دو گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں؟‘
تو یہ ہے جواب ہمارے اس سوال کا کہ : why do they hate us
رہی یہ بات کہ اگر امریکا اور یورپ گھوم کر یہی سوال ہمارے بارے میں کریں گے کہ : why do they hate us تو ہم انھیں ان کی نو آبادیاتی تاریخ بتائیں گے جس میں اپنی نو آبادیات کے ساتھ برطانیہ کا رویہ بد تھا، فرانس کا بدتر اور امریکا کا بد ترین۔ ہم انھیں بتائیں گے کہ مسلمان اکثریت کے ملکوں میں عوام کی پسندیدہ حکومتیں قائم نہیں ہیں اور اگر کہیں جمہوریت لانے کی کوشش کی گئی تو مغرب نے اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کی مخالفت کی۔ الجزائر کی مثال سب کے سامنے ہے جس کے لاکھوں مقتولین کا خون امریکا اور فرانس کی گردن پر ہے۔ حال ہی میں عرب بہار کا غلغلہ بلند ہوا تو بحرین کے لیے ایک معیار اپنایا گیا اور شام کے لیے دوسرا۔ ہم انھیں بتائیں گے کہ نائن الیون میں مرنے والے تین ہزار افراد کے انتقام میں عراق میں ایک لاکھ گیارہ ہزار آٹھ سو پچاسی (حوالہ: ویب سائٹ عراق باڈی کاؤنٹ، نو اپریل ۲۰۱۳ء ) افغانستان میں ستائیس ہزار اور پاکستان میں پینتیس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ افغان معیشت پتھر کے دور میں ہے جبکہ عراق اور پاکستان کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ امریکا کا اتحادی بھی ہے، مگر بدلے میں اسے ۳۵ ہزار اموات، ڈو مور کے مطالبے، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان، آئے روز کی اقتصادی بندشیں اور جنرل پرویز مشرف بھی تحفے میں ملے۔