کہانی کون لکھے گا
ایک روزن رپورٹس
رفیع اللہ میاں: اگر آپ نے کہانی لکھنی ہے تو بیٹھیں اور ایک عجیب و غریب جھوٹی کہانی لکھیں۔ جس کا اپنا سچ ہو گا، جسے بالکل نہیں جھٹلایا جا سکے گا۔
کہانی اپنا سچ خود لاتی ہے۔ جس کہانی میں سچ ڈال ڈال کر ڈالا جاتا ہے، حقیقت میں وہی جھوٹی کہانی ہوتی ہے۔
یاسرچٹھہ: کاش یہ بات دوست واقعی مان جائیں۔
ارد گرد زیادہ تر گھٹیا کہانیاں ہیں۔ اب وہ ہی دو بارہ کتاب پر آ جائیں تو ہے نا وقت، وسائل اور جمالیات کا خسارہ۔
رفیع اللہ میاں: میں نے یہ بات بہت سارا عرصہ افسانہ لکھنے سے گریز کر کے سیکھی (مسکراہٹ کا ڈیجیٹل نشان، سمائلِی، بناتے ہوئے)
یاسر چٹھہ: گو کہ اس بات کے اس زاویے پر ہنسا بھی جا سکتا ہے، اور حرفِ آخر کے طور پر ہم کسی طربیے کا کردار و متن بھی تو ہوتے ہی ہیں؛ اور ساتھ ہی، البتہ، اس بات کے جواز کو سراہا بھی جا سکتا ہے۔
دنیا میں بہت سارے لوگوں کی انواع و اقسام میں سے، اس وقت دو اقسام کو مدِ نظر رکھ کر بات کی جا سکتی ہے:
- وہ جو ایسا تیسا جیسا آئے کر گزرتے ہیں۔ ہر طور کی کیفیت و کیمیت کا کام خلق ہو جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔
- دوسرے وہ جو شعوری طور پر کسی طرح کے خام کام کرنے کو اپنے لیے بھلا نہیں سمجھتے۔ ان کے اندر کا قاری، ان کے خلاق سے زیادہ توانا اور حاوی ہوتا ہے۔ اس کے ذوقِ جمال نے ارد گرد سے بہت کچھ چھانا، اور احساسا ہوتا ہے۔ تنقیدی و جمالیاتی احساس کا بوجھ، بَہ ہر حال، انسانی اناء کا ہی بوجھ ہے۔ یہ جبلتانہ سطح سے آگے کی عمدہ و نفیس سطح کا حوالہ ہے۔ ایسے افراد و حاملانِ شعور و ذوق و جمال، ان کے اندر کی کیفیت و کیمیت آزماء و پارکھ اناء، ان کے اندر ہی موجود، تاہم کسی ٹھنڈے حصے میں رکھی، تعدد پسندی پر کہیں زیادہ حاوی ہوتی ہے۔
میں ویسے کہتا ہوں کہ کاغذ کی موجودہ ٹیکنالوجی درختوں کے جُزوِ بدن سے بنتی ہے۔ کوئی کچھ لکھے، کوئی کچھ کہے، کوئی کچھ پیش کرے تو اس کو اپنے سینے پر سجانے کے لیے بَلّی چڑھنے کو موجود، انسانی شرفِ مخلوقات کی مطلق العنانیت کے وقتی تابع، درختوں کا حق کچھ تو ادا ہو۔ اور جسے یہ فکر نا ہو، ہمارے نزدیک وہ ایک طور کا قاتل ہی ہے۔
شوق کی کشش ہَوَس نا بنے؛ یہ کچھ تو کم سے کم ذوق کا بھرم رکھے، ورنہ عیاشی اپنے مول پر ہو، درختوں کے قتل کے مول پر نہیں۔
وما علینا الا…