تاریخ پر ناول لکھنا اور صفدر زیدی کا بنت داہر
از، خالد فتح محمد
تاریخ پر ناول لکھنا ایک مشکل کام ہے، کیوں کہ قاری انجام سے واقفیت ہونے کی وجہ سے ایک مقام پر دل چسپی کھو سکتا ہے، یا پھر وہ پڑھے گا ہی نہیں جس کے زیادہ امکانات ہیں۔ سو قاری کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے فکشن نگار کو متعدّد طریقے استعمال کرنا پڑتے ہیں جن میں تاریخی حقائق کو توڑنا، جس کا حقائق کے اندر رہتے ہوئے اسے اختیار بھی ہے، سیکس کا سہارا لینا اور یا پھر حقائق کو ایسے حاوی رکھنا کہ کردار غیر ضروری ہو کر رہ جائیں۔
تاریخی حقائق کے اندر رہتے ہوئے کہانی ترتیب دینے اور تاریخی ناول لکھنے میں فرق ہے۔ اردو میں تاریخی ناول نسیم حجازی اور چند دوسرے لوگوں نے لکھے جو مقبول عام فکشن کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکے۔ تقسیم پر بہت سا ادب لکھا گیا جو زیادہ تر ذاتی مشاہدات اور نفرت پر مبنی تھا۔ نیا فکشن نگار آج جب تقسیم پر لکھے تو یہ ایک الگ زاویۂِ نظر دے گا۔
کچھ عرصہ پہلے صفدر زیدی کا ناول بنتِ داہر سکّۂِ رائج الوقت کے عوَض پبلشر سے حاصل کیا اور سکون کے ساتھ پڑھا کیوں کہ یہ چند تاریخی حقائق پر لکھا ہوا تھا اور اس میں وہ تمام tool استعمال ہوئے تھے جو تاریخ پر مبنی فکشن کو دل چسپ بنانے کے لیے برتے جاتے ہیں؛ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو راجہ داہر کے مارے جانے کے بعد اختتام پذیر ہو جاتا اور اس کا تو آغاز ہی، تقریباً وہیں سے ہوتا ہے۔
تاریخ پر مبنی ناول میں ناول نگار کے لیے غیر جانب دار رہنا مشکل ہوتا ہے اور یہ سمجھا بھی جا سکتا ہے، وہ اسی لیے اس موضوع کا انتخاب کرتا ہے۔ اس ناول میں بہ راہِ راست تاریخ بیان نہیں کی گئی بَل کہ ایسا کرنے کے لیے کرداروں کا سہارا لیا گیا ہے جو مناسب بھی لگا۔
اس ناول کی اہم بات حقائق کو فکشن میں ڈھال کر انھیں حقیقی دکھانے میں ہے جس میں ناول نگار کام یاب بھی رہے۔ ناول کے نام کی مناسبت سے یہ ناول بنت داہر کے کردار کو دکھانے کے لیے ہے اور یہ larger than life ہونے کے با وُجود حقیقی لگا۔
اس ناول نے ریاست کے تاریخی بیانیے کو غلط ثابت کیا ہے۔