یہ فلم نہیں چل سکتی
خضر حیات
شروع شروع میں جب حالات خراب ہوئے، ایک دوسرے سے بدگُمانی اور نفرتوں میں اضافہ ہوا تو ہم پریشان ہونے لگے اور پھر بزرگوں کی یہ بات سن کر اور بھی تشویش میں مبتلا ہو جاتے تھے کہ “بیٹا! یہ تو ابھی ٹریلر ہے، پوری فلم تو اس سے بھی بھیانک ہوگی۔”
ٹریلر چلا اور اسے خوب پذیرائی ملی۔ اس کے بعد پوری فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اس نے کھڑکی توڑ بزنس شروع کردیا۔ فلم بنانے والے تو خیر مر کھپ گئے مگر ڈسٹری بیوٹرز حضرات چونکہ کاروباری ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں انہوں نے بھانپ لیا کہ بھیا یہ تو بڑی نفع بخش صنعت ہے، اس کو ہر حال میں قائم و دائم رہنا چاہیے۔
کاروباری نقطہ نظر سے دیکھیں تو ایسی فلم صرف وہاں کامیاب ہوسکتی ہے جہاں اس کے دیکھنے والے ایک خاص ‘ذوق’ کے لوگ موجود ہوں۔ اب یہ ذوق تو خیر ہمارے معاشرے میں پاکستان بننے کے پہلے دن سے ہی موجود تھا۔ بھلے شروع میں اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر اس ذوق کی جو آبیاری محسنِ پاکستان جنرل ضیاء الحق نے کی ہے اس کے نتیجے میں گلی گلی، گھر گھر یہ پیغام عام ہوا اور ایسی ذہنیت تیار ہوئی جو اس فلمی کاروباری کی کامیابی کے لیے بے حد ضروری سمجھی جاتی ہے۔
آخر کامیاب فلم تو وہی ہوتی ہے ناں جسے ناظرین ایک بڑی تعداد میں دیکھیں بھی اور اس سے اثر بھی قبول کریں۔ ذرا سوچیں اگر سکرپٹ لکھنے والے ہاتھوں میں اتنی طاقت بھی ہو کہ وہ ناظرین کو جبری طور پر اپنی فلم دکھا بھی سکتا ہو اور زور زبردستی ان سے داد بھی وصول کرسکتا ہو تو صورتحال کیسی ہوگی۔
ٹھہریں اگر آپ کے لیے اس نقشے کو سمجھنا قدرے مشکل ہو رہا ہے تو میں اس کی عملی تصویر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اگر سکرپٹ رائٹر ڈسٹری بیوٹر بھی خود ہی ہو تو مارکیٹ کا وہ حال ہوتا ہے جو جنرل ضیاء کے پاکستان کا ہوا تھا۔ فلم بھلے جیسی بھی ہے، سب کو دیکھنی پڑے گی اور اکثر نے یہ فلم دیکھی بھی۔ ضیاء الحق کی ہدایت میں مذہبی انتہاپسندی اور بنیاد پرستی پر بننے والی یہ فلم ہاتھوں ہاتھ بِکی۔ اگرچہ اس فلم کا ابتدائی سکرپٹ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے آخری حصے میں لکھا جا چکا تھا مگر اسے تکمیل تک پہنچانے اور عوام میں مقبول بنانے کا سہرا مردِ مومن مرد حق کے سر ہی جاتا ہے۔
یہ فلم بنی۔ پہلی بار چلی تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ عوام کا ردعمل اور منافع کا تناسب دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے یہ فلم ریلیز کی جاتی رہنی چاہیے اور پھر ریاستی سرپرستی میں مختلف طرح کے بینرز تلے اور اس طرح کے نعروں کے شور میں یہ فلم بار بار نمائش ہوتی رہی کہ ‘ملکی سلامتی کے لیے آخری حد تک جائیں گے’ ‘نظریاتی حدود کی حفاظت ہی ہمارا نصب العین ہے’ ‘امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے’ اور شہرت کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی۔
نفرتوں کے عنوان سے لکھی اور بنیاد پرستی کے زہر سے نتھاری گئی یہ فلم آج گھر گھر پہنچ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ فلم محض سرکاری بیانیے کا اہم حصہ تھی اور عوامی سطح پہ اسے خوش دلی کے ساتھ سراہنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مگر پھر ایسی انقلابی اصلاحات کی گئیں کہ یہ سرکاری بیانیے سے نکل کر ذاتی بنانیے کا حصہ بھی بن گئی۔
نصاب میں تبدیلی ایسی ہی ایک ‘اصلاح’ تھی۔ عام عوام کو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے جو اس کاروبار سے سارا منافع حکومتی خزانے میں جا رہا تھا، اب اس کا ایک خاطر خواہ اور معقول حصہ ذاتی خزانوں میں بھی آنے لگا۔ پہلے صرف ریاست اس بیانیے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ناقدین میں کفر کے فتوے اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتی تھی اب یہ دھندہ گلی محلے کی سطح پر بھی بڑی آسانی سے شروع ہو گیا۔ مثال کے طور پر میرا نام پطرس مسیح ہے یا محمد احمد اور آپ کا نام غلام مصطفیٰ ہے۔ ہماری کسی انتہائی نجی معاملے میں رنجش شروع ہو گئی ہے۔ ایک ایسا معاملہ جو منظرعام پر آ بھی جائے تو کسی قسم کے نقصِ امن کا باعث نہیں بن سکے گا کیونکہ اس کا فی الحال عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ ذاتی لین دین کا معاملہ ہے۔
مگر آپ ذہین ہیں، پاکستان میں رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ کے سامنے ہماری سابقہ نسل کی مثالیں بھی موجود ہیں تو آپ مجھے بڑی آسانی سے مزہ چکھا سکتے ہیں۔ بس آپ محلے میں کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ پطرس مسیح یا محمد احمد نے گستاخی کی ہے پھر آپ اس فلم کا اثر دیکھیں جو تقریباً سب نے دیکھی ہوئی ہے اور جس کے ڈائیلاگ سلیم خان اور جاوید اختر کے ہاتھوں سے لکھی فلم ‘شعلے’ کے ڈائیلاگز سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔
غلام مصطفیٰ کو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کا ذاتی دشمن گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جائے گا اور مصطفیٰ پہ حرف تک نہیں آئے گا۔ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غلام مصطفیٰ بعد میں نوجوانوں کے لیے بہت بڑا آئیڈیل ثابت ہوا ہے۔ یہی آج کا پاکستان ہے اور آج کے پاکستان سے اب خوف محسوس ہونے لگا ہے۔
جس طرح کی فضا بنی ہوئی ہے ہر پاکستانی کو دوسرے پاکستانی سے ڈر لگنے لگا ہے۔ خوف و ہراس اور دہشت کا ڈنکا چہار سو بج رہا ہے۔ اس وقت ایک ہی قوت غالب ہے جو اس معاشرے اور سماج کو چلا رہی ہے اور وہ ہے خوف کی قوت۔ جتنا آپ اپنے اردگرد خوف پھیلاؤ گے آپ کی دھاک بھی اسی شدت کے ساتھ بیٹھے گی۔ بازار میں ملنے والا شکل و صورت، وضع قطع اور لباس سے مہذب دِکھنے والا شہری پل بدلتے ہی ناجانے اندر سے کیا نکلے اور کسی ‘ایسی ویسی’ بات پر آن کی آن میں جیب سے چاقو نکال کے آپ کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دے۔
بھلے بعد میں پتہ چلے کہ یہ ‘ایسی ویسی’ بات کوئی ایسی بھی ممنوعہ نہیں تھی۔ ڈرتا ہوں کہ کسی بھی چوک چوراہے، گلی محلے، شہر بازار میں ایسے کتنے ہی لوگ موجود ہیں جو غالبؔ کے مصرعے ‘ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ’ کی عملی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اور جون ایلیا نے بھی ایسی ہی صورت حال کو بھانپتے ہوئے لکھا تھا کہ
؎اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
یہ فلم اگر مزید چلتی رہی اور اگر ٹھیکیداران منافع کے کاروبارسے باہر نہ آئے تو مجھے ڈر ہے کہ عنقریب گھر گھر پھیلی یہ آگ ان کے گھروں میں بھی پہنچ جائے گی جنہوں نے اسے بھڑکایا تھا اور پھر یہ فلم تو چل رہی ہوگی مگر اسے دیکھنے، سراہنے اور اس سے نفع کمانے والا کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔