یہ عشق ہے : عرفان ستار کی کتاب پر ایک مختصر تبصرہ
نسیم سید
(عرفان ستارکے تا زہ مجموعہِ ’’یہ عشق ہے’’ حلقہ اربابِ ذوق میں تقریب پذیرائی کی داستان میں سے یہ چند سطور)
میں نہیں جانتی کہ عرفان نے کس بے ساختہ احساس، خیال یا تجربہ کے کو سمیٹا ہے اس کتاب کے عنوان میں جس کی پذیرائی کو ہم سب یہاں اکٹھا ہوئے ہیں، لیکن مجھے اس عنوان کے تین حروف ’’یہ عشق ہے’’ میں معنی کا ایک جہان نظرآ یا۔ اوریوں لگا جیسے عرفان بہ الفاظ دیگر یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ ہے اپنے اس عشق میں خود کو کھپا دینے کی داستان جسے آپ میری شاعری کہتے ہیں۔
[su_quote]دراصل ہم عشق کو بہت محدود معنوں میں لینے کے عادی ہیں۔ اورہم نے مرد اور عورت کے جذباتی تعلق کوایک گٹھڑی میں باندھ کے اس پر عشق کا لیبل لگا دیاہے۔ مگرعشق کے معنی زندگی کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ کسی باخبر فنکار کے لیے کچھ اور ہیں۔ سیب کے درخت سے گرنے اوراسے کشش ثقل ثابت کردینے کا دورانیہ عشق کی وہ منازل ہیں جس کی بھٹی سے گزرکے اپنے محبوب کا وصل نصیب ہونا صرف ان کا مقدرہوتا ہے جو اپنے محبوب یعنی اپنے فن کے عشق میں فنا ہوجانے کی توفیق رکھتے ہیں۔[/su_quote]
عرفان کا عرفانِ فن ہماری نگاہ میں ہے وہ ریاضت، وہ فکری بصیرت وہ حروف کی حرمت جس کے لیے کہا گیا ہےکہ عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ عرفان کی شاعری سے تعلق رکھنے والے اس کا مطالعہ کرنے والے اس شاعری کی سرشاری کو جینے والے گواہی دیں گے کہ عشق کی تمام تر شرائط پر پورا اترنے کے بعد ہی عرفان میں شعر کہنے کا ادب، اس کا ہنر اور سلیقہ آیا۔
عرفان شعرا کے اس گروہ سے ہے جو زبان کے تابع نہیں بلکہ زبان ان کے تابع ہوتی ہے۔ ایسے شعرا اپنے لسانی عطیات سے بڑا گراں قدر اضافہ کرتے ہیں ادب میں۔ ہمارے محترم اورمنفرد ادیب جناب شمیم حنفی نے کتاب کے فلیپ پرلکھا ہے:
[su_quote]ان کی ہرغزل کے ساتھ تخلیقی انکشاف کا ایک نیا رمز آمیز اوردل کواپنی طرف کھیچنے والا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ پرانے لفظوں کو وہ معنی کی نئی سطح پر برتتے ہیں۔[/su_quote]
ظاہر ہے شمیم حنفی صاحب فلیپ پراپنی بات کے ثبوت میں اشعار اقتباس نہیں کرسکتے تھے، لیکن ان کی اورمیری بات کی سچائی کو یہ چند اشعارہی ثابت کرنے کو کافی ہیں۔
میری کم ما ئیگی کوترے ذوق نے دولت حرفِ تا زہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارسخن مجھ کو یہ ذمہ داری کہاں سونپ دی
قا صد شہردل نے مرے خیمہ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
باد شاہ جنوں نے تجھے آج سے لشکر اہل غم کی کماں سونپ دی
اورلشکر اہل غم کی کماں سنبھالنے کے بعد کہتے ہیں
زیر قبا جو حسن ہے وہ حسن ہے خدا
بند قبا جو کھول رہا ہے وہ عشق ہے
قدرت کی طرف سے انسان کوجس تفکرکی تاکید ہے وہ تفکر ہی بند قبا کھولنا ہے۔ عرفان نے اپنی فکر کے دستور اور اپنی تخلیق کے منشورمیں ذہانت ہی کو اولیت دی ہے اوروہ اسی تخلیق کے جوہر سے ساری توانائی کشید کرتے ہیں:
کوئی خوش فکر سا تا زہ سخن بھی سامنے رکھ
کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دلکشی سے
حسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی
روح پرور سہی خوش ادا ہی سہی
سن مگر دلربا
تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے
لاتعداد اشعار اقتباس کیے جا سکتے ہیں عشق کی ریاضت کی تفسیر ’’ یہ عشق ہے’’ کے، لیکن یہ یہ موقع صرف تہنیت کا ہے اپنے دلربا نغمہ سرا کے لیے سجائی گئی محفل میں لیکن یہ قرض ذرا تفصیل سے ادا کرنے کا وعدہ۔