یہ کتابیں پڑھنے والے
مسعود اشعر
کچھ آپ کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ آپ کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے؟ کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔ ہر طرف ایک شور ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی کہہ رہا ہے۔ ایسے میں مجروح سلطان پوری کی وہ غزل ہم بار بار پڑھ رہے ہیں جو جاوید نقوی صاحب نے بھیجی ہے۔ اس غزل کا ایک شعر آپ بھی پڑھ لیجیے۔
سوال ان کا، جواب ان کا، سکوت ان کا، خطاب ان کا
ہم ان کی انجمن میں سر نہ کرتے خم تو کیا کرتے
تو ہم نے سر خم کر لیا ہے اور کتابیں پڑھنے میں مشغول ہو گئے ہیں۔ مگر ہم کیا اور ہماری پڑھائی کیا۔ کتابیں پڑھنے والے تو وہ ہیں جو دنیا بھر میں چھپنے والی کوئی بھی کتاب نہیں چھوڑتے۔ ابھی ہمیں یاد آیا کہ جن دنوں مظہر الاسلام نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ تھے تو انہوں نے سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والوں کے لیے انعام شروع کیا تھا۔ ایک انعام عام پڑھنے والوں کے لیے تھا اور دوسرا انعام سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے طالب علم کے لیے تھا۔ پہلے سال کا انعام غازی صلاح الدین کو دیا گیا تھا۔ دوسرا انعام پانے والا طالب علم کون تھا؟ یہ ہمیں یاد نہیں۔ انعام الحق جاوید فاؤنڈیشن کے سربراہ بنے تو انہوں نے بھی ایک دو سال یہ سلسلہ جاری رکھا مگر پھر اسے بند کر دیا۔ شاید اس لیے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں کون پڑھتا ہے؟ بڑا مشکل ہے یہ فیصلہ کرنا۔ لیکن اگر ہم سے اس کا فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو ہم بلاتکلف ڈاکٹر آصف فرخی اور ماہر لسانیات خالد احمد (انگریزی والے) کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ اس لیے کہ ہمیں اپنے دوستوں اور اپنے جاننے والوں میں ان سے زیادہ کتابیں پڑھنے والا اور کوئی نظر نہیں آتا۔ خالد احمد فکشن بھی پڑھتے ہیں، لیکن ان کا اصل موضوع پاکستان، ہندوستان اور دنیا بھر کے سیاسی حالات اور سیاسی تاریخ ہے۔ ان میں آپ بڑے چھوٹے سیاست دانوں اور دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہونے والے افراد کی آپ بیتیاں بھی شامل کر لیجیے۔ دنیا میں کہیں بھی اس موضوع پر جیسے ہی کوئی کتاب چھپتی ہے سب سے پہلے وہ خالد احمد کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اور وہ اس کے حوالے سے مضمون بھی لکھ دیتے ہیں۔
یہی حال آصف فرخی کا ہے۔ اب چونکہ وہ خود افسانہ نگار اور ادبی نقاد بھی ہیں اس لیے ان کا اصل شوق فکشن ہے۔ اب یہ اردو ہو یا انگریزی، دنیا کے کسی بھی کونے میں جیسے ہی کوئی کتاب (عام پسند نہیں، معیاری کتاب) چھپتی ہے وہ آصف فرخی کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ دنیا بھر کے ایسے ایسے ناول نگار اور افسانہ نویس جن کا نام تک ہم نے نہیں سنا ہوتا آصف نے انہیں ضرور پڑھا ہوتا ہے۔ نہ صرف پڑھا ہوتا ہے بلکہ فیس بک پر اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہوتا ہے۔ کیا آپ نے انیس سالم کا نام سنا ہے؟ ہم نے تو نہیں سنا تھا۔ آصف نے ان کا ناول The Small Town Seaپڑھا، اور اس کی اتنی تعریف کی کہ ہم نے بھی اسے خرید لیا۔ اور کینیڈا جاتے ہوئے ساڑھے بارہ گھنٹے کی پرواز میں اسے پڑھ ڈالا۔ کیا زبردست ناول ہے۔ یوں تو یہ ایک خاندان کے بکھرنے کی کہانی ہے، لیکن جس انداز سے اسے بیان کیا گیا ہے وہ شروع سے آخر تک آپ کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔ انیس سالم ہندوستان کے صوبے کیرالا کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی دو ناول لکھے ہیں۔ ہمیں تو آصف فرخی پر حیرت ہوتی ہے۔ آخر ایک آدمی بیک وقت کتنے کام کر سکتا ہے؟ وہ حبیب یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں۔ خود پڑھتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ کتابیں بھی مرتب کرتے ہیں۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے لیے نئے اور پرانے افسانہ نگاروں کے افسانوں کا انتخاب بھی کر رہے ہیں۔ انتظار حسین پر ایک مبسوط کتاب لکھ چکے ہیں۔ انتظار حسین کے کالموں کا انتخاب چھاپ چکے ہیں۔ اور حال ہی میں ممتاز شیریں کے تمام افسانے جمع کر کے ایک ضخیم مجموعہ شائع کرا چکے ہیں۔ ہمیں ان پر رشک ہی نہیں آتا، ہم ان سے حسد کرتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
ثابت ہوا کہ یہ آدمی آدمی پر ہی موقوف ہے۔ یہ کسی آدمی کا شوق اور لگن ہی ہوتی ہے جو اس سے بڑے بڑے کام کراتی ہے۔ آپ اکادمی ادبیات کو ہی دیکھ لیجیے۔چند سال پہلے تک صرف اس کا نام ہی سنا جاتا تھا۔ اس کا کوئی کام سامنے نہیں آتا تھا۔ اب جب سے ڈاکٹر قاسم بگھیو اس کے سربراہ بنے ہیں اس کے بعد سے ہر روز کسی نہ کسی بہانے اکادمی کا نام سامنے آ رہا ہے۔ کتابوں پر کتابیں چھاپی جا رہی ہیں۔ کونسا موضوع ایسا ہے جس پر اس عرصے میں کتاب نہیں چھپ گئی ہے۔ ادب و شعر کے انتخاب بھی چھپ رہے ہیں۔ عالمی ادب کے ترجمے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ رسالہ ادبیات بھی چھپ رہا ہے۔ اور تو اور ادب پر ورکشاپ بھی شروع کر دیے گئے ہیں۔ یہ صرف ایک آدمی کی اپنی دلچسپی اور لگن کی وجہ سے ہی تو ہے۔ اسی طرح جب سے ناصر عباس نیر نے اردو سائنس بورڈ کا انتظام سنبھالا ہے اس ادارے کے پر لگ گئے ہیں۔ نئی نئی کتابیں چھاپی جا رہی ہیں۔ سائنسی کتابوں پر انعام دیے جا رہے ہیں، مذاکرے ہو رہے ہیں اور بورڈ کی سرگرمیوں کے بارے میں خبر نامہ شائع کیا جا رہا ہے۔ لیجیے، ہم نیشنل بک فاؤنڈیشن کو تو بھو لے ہی جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نئی کتابوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ کتابیں شائع ہو رہی ہیں اور عام لوگوں میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے نئے نئے کام کیے جا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ سارے کام ہمیں جلانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہم کہاں تک ان سرگرمیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ بے شک، کتاب ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے مگر بھائی، ہم کتنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں؟
بشکریہ: روزنامہ جنگ